عالمی ادارہ صحت کے مطابق ہر برس ایک کروڑ تیس لاکھ لوگ
ماحولیاتی مسائل کی بنا پرزندگی سے محروم ہوجاتے ہیں جن میں سے 70لاکھ سے
زیادہ وہ لوگ شامل ہیں جو فضائی آلودگی کی وجہ سے ہلاک ہوتے ہیں۔ عالمی
ادارہ صحت کی جانب سے جاری کردہ ہوش الربا اعداد و شمار نے عالمی برداری کو
خبردار کیاہے کہ قریباََ پوری دنیا ایک کثافت و غیر صحت مندانہ زندگی کو
بسر کررہے ہیں اور اس کے نتیجے میں لاکھوں افراد کی ہلاکتوں کی اس قدر بڑی
تعداد پوری دنیا کے لئے لمحہ فکرہے کہ فضائی آلودگی کے خاتمے کے لئے موثر
اقدامات نہ کئے جانے کی وجہ سے زمین کو مہلک خدشات درپیش ہیں۔ پاکستان
فضائی آلودگی کی وجہ سے شدید متاثرہ ممالک میں شامل ہے۔ پاکستان میں فضائی
آلودگی کے باعث ہر سال ایک لاکھ 35 ہزار افراد زندگی کی بازی ہار جاتے
ہیں،ایئر کوالٹی انڈیکس کی رپورٹ کے مطابق اوسط آلودہ ترین فضا میں دنیا
بھر کا جائزہ لیا جائے تو پاکستان پہلے دس ممالک کی فہرست میں شمار کیا
جاتا ہے۔ چاڈ، پاکستان اور تاجکستان، بھارت اور بنگلہ دیش کے بعد فضائی
آلودگی کے لحاظ سے دنیا کے بدترین ممالک میں شامل ہیں۔ کراچی اور لاہور
پاکستان کے سب سے آلودہ تریں شہروں میں سر فہرست ہیں۔اس کے علاوہ ڈھاکہ،
چاڈ کا شہر این ڈجامینا، تاجکستان کا دوشنبے، اومان کا مسقط دنیا کے آلودہ
ترین شہروں میں شامل ہیں۔خیال رہے کہ اقوام متحدہ کے ادارے ’بین الحکومتی
کمیٹی برائے ماحولیاتی تبدیلی‘ (آئی پی سی سی) نے اپنی رپورٹ میں خدشہ ظاہر
کیا کہ اگر بھارت میں ماحولیاتی آلودگی کے خطرات پر قابو نہ پایا گیا تو
2050 تک ملک کا نصف حصہ رہائش کے قابل نہیں رہے گا۔مذکورہ رپورٹ اس کی چھٹی
جائزہ رپورٹ کا دوسرا حصہ ہے جس میں آب و ہوا کی تبدیلی کے اثرات و خطرات
کا جائزہ لیا گیا۔آئی پی سی سی نے پہلی بار الگ الگ خطوں کا جائزہ لیا اور
بڑے شہروں پر توجہ مبذول کی ہے۔رپورٹ کے مطابق بھارت عالمی سطح پر سب سے
زیادہ خطرے میں ہے۔ ماحولیاتی تبدیلی کی وجہ سے 2050 تک نصف ملک ناقابل
رہائش ہو جائے گا۔
آلودگی کے سبب یہاں بڑے پیمانے پر انسانی صحت متاثر ہونے، تیزابی بارشیں
برسنے، امراض قلب اور سانس کی بیماریوں میں اضافے کا خدشہ ظاہر کیا گیا ہے۔
ای این ٹی سرجن ڈاکٹر قیصر سجاد کا کہنا ہے کہ ٹریفک جام اور فضائی آلودگی
کی وجہ سے سماعت کے مسائل اور سانس کی بیماریوں میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔
دھواں، کچر اجلانا، خراب گاڑیاں اور سگریٹ کے دھویں کی وجہ سے فضا آلودہ
ہوتی ہے جس کی وجہ سے لوگ ناک کی الرجی گلے کی خراش، سانس کی نالی کی سوزش،
دمہ، گلے کے کینسر اور سانس کی بیماریوں میں مبتلا ہورہے ہیں، انہوں نے کہا
کہ لوگوں کو چاہیے کہ اپنی ذمہ داریوں کا احساس کریں فضائی آلودگی کو کم
کرنے کیلئے کچرا نہ جلایا جائے اور سگریٹ نوشی سے بھی پرہیز کیا جائے
گاڑیوں کی فٹنس پر توجہ دی جائے۔ جس قدر زیادہ ممکن ہو ہو شجر کاری کی
جائے۔ کچرا فیکٹریاں اور گھروں میں نہ پھینکی جائیں زہریلے دھوئیں کے اخراج
پر کنٹرول کیا جائے۔ گاڑیوں اور مختلف مقامات پر کچرا جلائے جانے اودرختوں
کی سرعام کٹائی پر اپنے شدید تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے اسے نہ صرف موجودہ
بلکہ آنے والی نسلوں کیلئے انتہائی خطرناک قرار دیا جاتا ہے کہ حکومت کے
ساتھ ساتھ عوام از خود بھی عالمی سطح پر ہونے والی موسمیاتی تبدیلوں کو
سامنے رکھتے ہوئے اور ملی جذبے کے پیش نظر نہ صرف ماحولیاتی آلودگی کے
سدباب کیلئے اپنا کردار ادا کریں بلکہ ایسی پالیساں بنائیں جن کی بدولت آنے
والے والی نسلوں کو ایک بہتر پاکستان دیا جاسکے۔ ڈبلیو ایچ او کے شعبہ
ماحولیات، موسمیاتی تبدیلی اور صحت میں تکنیکی افسر سوفی گمی کہتی ہیں کہ
اس سے اربوں لوگوں کی صحت کوخطرہ ہے۔ انھوں نے کہا کہ اعدادوشمار سے پتا
چلتا ہے کہ مشرقی بحرہ روم، جنوب مشرقی ایشیائی اور افریقی خطوں میں ہوا کا
معیار سب سے زیادہ ناقص ہے۔گومی نے کہا کہ ستر لاکھ اموات میں سے زیادہ تر
کم اور درمیانی آمدنی والے ممالک میں ہوتی ہیں۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ
زیادہ آمدنی والے ممالک متاثر نہیں ہوتے۔ڈبلیو ایچ او کی رپورٹ میں کہا گیا
ہے کہ ہوا کے بہت سے ذرات کی کم سطح سے بھی اہم نقصان ہورہا ہے۔آلودہ فضا
سے ذرات پھیپھڑے اور خون میں داخل ہوجاتے ہیں، یہ دل کی بیماری، فالج اور
سانس لینے میں مشکلات کا سبب بن سکتے ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ نائڑوجن آکسائیڈ
یا این او ٹو دمہ اور سانس کی دیگر بیماریوں کا سبب بن سکتا ہے۔
موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے اس بار گرمیوں کی قبل ازموسم آمد سے وبائی
امراض میں اضافہ ہوا ہے، بالخصوص گرمی کی شدت میں اضافے سے ہیٹ ویو سے
متاثرہونے کے امکانات بھی ظاہر کئے جارہے ہیں۔ ماہرین ہیٹ ویو سے متاثرہ
شخص میں مرض کی علامت کے حوالے سے بتاتے ہیں کہ مرض کی علامت کے حوالے سے
اس مرض میں سر دار رہتا ہے شدید پیاس لگتی ہے الٹی اور متلی ہوتی ہے جلد
سرض، گرم ہوجاتی ہے۔کمزوری اور پٹھوں میں کھنچاؤ محسوس ہوتا ہے اچانک تیز
بخار آتا ہے یہاں تک مریض بعض اوقات بے ہوش ہوجاتا ہے۔ہمیں ماحولیاتی
آلودگی اور موسمیاتی تبدیلیوں کے حوالے سے اپنا کردار ادا کرنا ہوگا سب کام
حکومت اور ادروں ہر نہیں چھوڑا سکتا اس کے لئے تمام احتیاطی تدابیر اور
ماحولیاتی آلودگی کو کم کرنے کیلئے اپنی مدد آپ کے تحت بھی کام کرنا ہوگا،
بہتر ماحول ایک صحت مند معاشرے کو جنم دیتا ہے۔اہم بات یہ بھی دیکھنے میں
آئی ہے کہ شہر کراچی میں تقریباََ نصف درجن صنعتی علاقے ایسے ہیں جن سے
خارج ہونے والے پانی میں کرومیم، زنک، اور پارہ عام طور پر قابل حد تک
زیادہ حد میں شامل ہوتا ہے۔ خاص طور تیل صاف کرنے ے کارخانے اور دیگر
صنعتیں جہاں قائم ہیں، وہ نایٹروجن اور سلفر کے آکسائیڈرر، کاربن ڈائی
آکسائیڈ، سودیم کلورائیڈ، جانوروں کے بال اور خون، فضلے وغیرہ بھی اسی پانی
میں خارج کردیتے ہیں۔
ملک میں گاڑیوں کی تعداد بہت بڑھ گئی ہے اس کے بعد انڈسٹریل امینشن کی وجہ
سے بھی فضائی آلودگی کا لیول بڑھ گیاہے۔کیڈئیم گاڑیوں میں استعمال ہونے
والی بیٹریوں میں بھی ہوتا ہے، ہمارے یہاں چونکہ پرانی بیٹریاں استعمال
زیادہ کی جاتی ہیں جس کی وجہ سے ان کا پانی اکثر لیک ہو کر سٹرکوں پر گر
رہا ہوتا ہے اس حوالے سے بالکل احتیاط نہیں کی جاتی اور نہ ہی ہینڈلینگ میں
احتیاط کی جاتی ہے اس کے علاوہ پرانی گاڑیوں اور ان کی نامناسب دیکھ بھال
کے باعث فضا میں کاربن مونو آکسائیڈ بھی پھیل رہی ہے کیونکہ ان کے انجنوں
میں فیول جلنے کا عمل درست طور پر نہیں ہوتا۔انسانی نقصانات کاذکر کرتے
ہوئے پاکستان کونسل برائے سائنٹیفک اینڈ انڈسڑیل ریسرچ سینٹر کی رکن دردانہ
رئیس کا کہنا تھا کہ کاربن مونو آکسائیڈ اور کیڈیئم پھیپڑوں میں جانے کی
بدولت نہ صرف سانس اورپھیپڑوں سے متعلق بیماریوں میں اضافہ ہورہا ہے بلکہ
آنکھوں اور دل کے امراض بھی عام ہوتے جارہے ہیں جبکہ اچانک ہونے والی اموات
کے پیچھے کارفرما عوامل میں سے ایک اہم مسئلہ بھی ہماری فضا میں خطرناک
ذرات کی مقدار میں اضافہ بھی ہے۔ دردانہ رئیس کے مطابق فضائی آلودگی میں
اضافے اور اس سے درپیش خطرات کے حوالے سے ایک قابل تشویش بات عوام میں اس
حوالے سے شعور کا نہ ہونا ہے، ان کا کہنا ہے کہ زیادہ تر آبادی کو نہ تو
معلوم ہے کہ فضائی آلودگی کے نقصانات کیا ہیں اور نہ ہی یہ کہ اسے کم کرنے
کیلئے وہ کس طرح اپنا کردار ادا کرسکتے ہیں۔
ماحولیاتی آلودگی کسی بھی قسم کی ہو اس سے انسانی صحت اور قدرتی ماحول بہت
طرح متاثر ہورہا ہے مثال کے طور پر شور کی آلودگی، طبعیتوں میں چڑچڑاپن، سر
درد، تھکاؤٹ، ڈیپریشن اور بہرے پن کے علاوہ نفسیاتی مسائل جنم لے رہے
ہیں۔پانی کی آلودگی سے پانی کی بیماری پھیل رہی ہیں تو موسمیاتی آلودگی سے
موسموں میں تبدیلی واقع ہو رہی ہے۔حیاتیاتی توازن بگڑتا جارہا ہے، صرف یہی
نہیں بلکہ زراعت میں استعمال ہونے والے کیڑے مار ادویات کی وجہ سے زمین کے
ساتھ ساتھ پینے کا پانی بھی آلودہ ہورہا ہے۔ہم کسی ایک ادارے یا فرد کو سب
کچھ سونپ پر بری الزما نہیں ہوسکتے۔ معاشرے کے ایک کا آمد شہری کی حیثیت سے
چھوٹی چھوٹی کوتائیوں کو دور کرنے سے ہم بڑے نقصان سے بچ سکتے ہیں۔
|