ابھی حال ہی میں چین کی وزارت صنعت اور انفارمیشن ٹیکنالوجی نے بتایا کہ
2019 میں ملک کی جانب سے فائیو جی کے تجارتی استعمال کو" گرین اسگنل" دینے
کے تقریباً تین سال بعد چین فائیو جی ٹیکنالوجی کی بڑے پیمانے پر ایپلی
کیشنز کو آگے بڑھانے کے ایک اہم دور میں داخل ہو چکا ہے۔حیرت انگیز طور پر
چین اب تک مجموعی طور پر سولہ لاکھ سے زائد فائیو جی بیس سٹیشن تعمیر کر
چکا ہے جن میں 2021 کے مقابلے میں 654,000 کا اضافہ ہوا ہے ، یہ ظاہر کرتا
ہے کہ گزرتے وقت کے ساتھ ملک میں فائیو جی سے آراستہ ٹیکنالوجیز کو کس قدر
اہمیت دی جا رہی ہے۔دوسری جانب یہ امر بھی قابل زکر ہے کہ چین میں اس وقت
413 ملین سے زیادہ فائیو جی موبائل فون صارفین ہیں۔ملک میں فائیو جی نیٹ
ورک اب پریفیکچر کی سطح کے تمام شہروں اور کاؤنٹی سطح کے شہری علاقوں اور
87 فیصد ٹاؤن شپ سطح کے شہری علاقوں کا احاطہ کرتا ہے۔اسی طرح ملک بھر میں
2,400 "فائیو جی پلس صنعتی انٹرنیٹ" منصوبے زیر تعمیر ہیں، جو صنعتوں میں
اس جد ید ٹیکنالوجی کے استعمال کو بھرپور فروغ دے رہے ہیں۔
یہ امر بھی قابل تعریف ہے کہ چین بھر میں فائیو جی ٹیکنالوجی کو مختلف شعبہ
جات میں بھرپور انداز سے بروئے کار لایا جا رہا ہے۔ ملک بھر میں اس
ٹیکنالوجی کہ مدد سے اسپتالوں میں فائیو جی پر مبنی ریموٹ مشاورت کا طریقہ
کار کامیابی سے استعمال کیا گیا ہے۔اس وقت فائیو جی کے ذریعے سہولت فراہم
کرنے والے نئے ماڈل مسلسل ابھر رہے ہیں مثلاً فائیو جی پلس خودکار ڈرائیونگ
، فائیو جی پلس سمارٹ گرڈ اور فائیو جی پلس آن لائن تعلیم وغیرہ۔یوں ایک
جانب جہاں فائیو جی ٹیکنالوجی صنعتوں کو بااختیار بنانے ، سماج کو فوائد
پہنچانے اور لوگوں کی خدمت میں تیزی سے اہم کردار ادا کر رہی ہے وہاں دوسری
جانب یہ اعلیٰ معیار کی معاشی ترقی کے پیچھے ایک اہم قوت محرکہ بن چکی ہے۔
چین میں فائیو جی ٹیکنالوجی کی ترقی کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا
ہے کہ چائنا نیشنل انٹلیکچوئل پراپرٹی ایڈمنسٹریشن کی ایک نئی رپورٹ کے
مطابق، چین فائیو جی ٹیکنالوجی کے لیے تقریباً 40 فیصد معیاری پیٹنٹس کا
مالک ہے، جو عالمی درجہ بندی میں سرفہرست ہے۔ اس وقت دنیا بھر میں فائیو جی
کے لیے 210,000 سے زائد معیاری پیٹنٹس سامنے آ چکے ہیں ، جس میں تقریباً
47,000 پیٹنٹ فیملیز شامل ہیں۔ چین کے پاس مجموعی طور پر 18,728 پیٹنٹ
فیملیز ہیں جو کہ دنیا کی کل تعداد کا 39.9 فیصد ہے، اس کے بعد امریکہ 34.6
فیصد کے ساتھ دوسرے اور جنوبی کوریا 9.2 فیصد کے ساتھ تیسرے نمبر پر ہے۔
پیٹنٹ فیملی بنیادی طور پر پیٹنٹ ایپلی کیشنز کا ایک مجموعہ ہوتا ہے جس میں
ایک جیسے یا اسی طرح کا تکنیکی مواد شامل ہے۔ چین کی معروف ٹیک کمپنی ہواوے
کی زیر ملکیت 6,583 پیٹنٹ ہیں جو کہ عالمی سطح پر مجموعی تعداد کا 14 فیصد
بنتا ہے اور عالمی درخواست دہندگان میں سرفہرست ہے۔اس کے علاوہ، دنیا کے
سرفہرست 15 پیٹنٹ درخواست دہندگان میں، سات چینی کمپنیاں شامل ہیں، جبکہ
بقیہ آٹھ میں سے دو، دو امریکہ، جاپان، یورپ اور جنوبی کوریا سے ہیں۔
چین کی کوشش ہے کہ رواں برس بھی سہہ جہتی نقطہ نظر سے فائیو جی کی ترقی کو
فروغ دیا جائے۔اس تصور کے تحت ملک بھر میں نیٹ ورک کوریج کی صلاحیت میں
اضافہ کیا جائے گا اور مزید "بیس اسٹیشن" تعمیر کیے جائیں گے تاکہ کاؤنٹیوں
اور قصبوں میں فائیو جی کوریج کو وسعت دی جائے۔اس کے علاوہ صنعت ، توانائی
، نقل و حمل ، طبی دیکھ بھال اور تعلیم جیسے کلیدی شعبہ جات میں نیٹ ورک
تعمیر کیے جائیں گے تاکہ مزید وسیع پیمانے پر فائیو جی نیٹ ورک کوریج حاصل
کی جا سکے۔ملک میں روایتی صنعتوں کے نیٹ ورک کو تبدیل کرنے اور فائیو جی
ٹیکنالوجی کے ساتھ پیداواری عمل کو بہتر بنانے میں تیزی لائی جائے گی تاکہ
کاروباری اداروں کے اخراجات میں کمی ، معیار اور کارکردگی کو بہتر بنانے
اور سبز ترقی حاصل کرنے میں مدد مل سکے۔ملک میں انٹرنیٹ ڈیٹا سینٹرز ، بگ
ڈیٹا اور کلاؤڈ کمپیوٹنگ سمیت دیگر ابھرتی ہوئی خدمات کی تیزی سے ترقی نے
انفارمیشن و ٹیلی مواصلات کی تیز رفتار ترقی میں اہم کردار ادا کیا ہے ۔چین
ٹیکنالوجی کی مدد سے اعلیٰ درجے کے طبی آلات کی پیداوار کو بھی بڑھانے کے
لیے کام کر رہا ہے ۔ اس کے علاوہ چین نے ٹیکنالوجی کی بدولت ڈیجیٹل صنعت
کاری اور صنعتی ڈیجیٹلائزیشن کو فعال طور پر فروغ دیا ہے اور معاشی اور
سماجی ترقی کے ساتھ ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کے گہرے انضمام کو فروغ د یا ہے جو
ترقی یافتہ اور ترقی پزیر ممالک کے لیے ایک اہم سبق ہے۔
|