خدارا بلڈ عطیہ کیجئے

ازقلم اریبہ نور
میں نے بیشتر اوقات تھیلیسیمیا کے مرض میں مبتلا بچوں کے والدین کو روتے دیکھا ہے۔۔کس طرح رونا نہ آئے جب ان کی اولاد انکی آنکھوں کے سامنے کئی دفع موت کے منہ میں جا کر پھر واپس آتی ہے۔۔۔ذرا سوچے کہ ایک آدمی جو مزدور ہے وہ اپنے گھر میں باقی خاندان کی روزی روٹی کیلئے جتن کرے یا پھر اس بیماری میں مبتلا بچے کیلئے در بدر بلڈ ڈھونڈتا پھرے۔۔شفاء تو اس خالق نے دینی ہے پر ہم انسانیت کے ناطے ان دکھی افراد کا دکھ کچھ کم ضرور کر سکتے ہیں۔۔۔اور اکثر بلکہ ہمیشہ ایسا ہوا ہے کہ ان بچوں کیلئے 250cc سے 300 cc تک کی ہی ضرورت ہوئی ہے سب کے گھر بچے ہوتے ہے جو جان سے بھی زیادہ پیارے لگتے ہے.انہیں بچوں میں یہ بچے بھی آتے ہے. جن کا باپ صرف اس وجہ سے پریشان ہوتا ہے کہ اگر میرے بچے کو بلڈ نہ ملا تو یہ مر جائے گا. کیا گزرتی ہے اس ماں کے دل پر جس کا بچہ اس کے سامنے روتا ہے وہ کچھ نہیں کر سکتی. تھیلسیمیا کی بیماری میں لاکھوں بچوں کے والدین اس امید کیساتھ رات کو سوتے ہیں کہ کل کوئی ان کے بچے کیلئے خون عطیہ کرنے آئیگا۔ مگر افسوس ہم عطیہ خون کیا اسکی بلڈ ریکوسٹ تک دیکھنا گوارا نہیں کرتے بہت سی پھول سی کلیاں اور بچے آپ کے دیئے گئے بلڈ کے عطیات کے منتظر ہیں کہ جن کی زندگیاں آپ کے دیئے گئے خون سے جڑی ہوئی ہیں۔میری تمام نوجوانوں سے اپیل ہے کہ تھیلیسیمیا کے مرض میں مبتلا ان ننھے پھولوں کو اپنے خون کے دیئے گئے عطیات سے آبیار کر کے مرجھانے سے بچائیں۔اور شادی سے پہلے تھیلیسیمیا ٹیسٹ لازمی کروائیں
آئیں اس نیک کام میں ہمارا ساتھ دیں کیونکہ یہ صدقہ جاریہ بھی ہے۔تو آؤ ہم سب مل کر اس نیکی میں اپنے جسم کا صدقہ نکالیں
خدارا بلڈ عطیہ کیجئے۔۔۔۔۔!
خون دل دے کے نکھاریں گے رخِ برگِ گلاب
ہم نے گلشن کے تحفظ کی قسم کھائی ہے


 

Disclaimer: All material on this website is provided for your information only and may not be construed as medical advice or instruction. No action or inaction should be taken based solely on the contents of this information; instead, readers should consult appropriate health professionals on any matter relating to their health and well-being. The data information and opinions expressed here are believed to be accurate, which is gathered from different sources but might have some errors. Hamariweb.com is not responsible for errors or omissions. Doctors and Hospital officials are not necessarily required to respond or go through this page.

Dr B.A Khurram
About the Author: Dr B.A Khurram Read More Articles by Dr B.A Khurram: 606 Articles with 469036 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.