حاجی محمد اقبال گجر اپنے خالق حقیقی سے جا ملے


زندگی کتنی ناپائیدار ہے ؟ یہ فقرہ مجھے اس وقت سمجھ آیا جب مسجد میں میرے ساتھ کندھے سے کندھا ملا کر بیٹھنے والا میرا ایک غمگسار دوست حاجی محمد اقبال گجر نہایت خاموشی سے اس دنیا سے رخصت ہو گیا ۔یہ بتاتا چلوں کہ میں پچھلے پندرہ بیس سال سے قوت سماعت میں کمی کا شکا رہوں ، مجھے بعض اوقات قریب سے کی جانے والی بات بھی مجھے سمجھ نہیں آتی۔ بار بار استفسار کرنے پر ہی کچھ پلے پڑتا ہے ۔ بروز منگل مورخہ 31مئی 2022۔۔۔ 30شوال کی صبح حسب معمول نماز فجر کی ادائیگی کے لیے میں مسجد گیا ۔نماز پڑھنے کے بعد درود و سلام اور مختلف وضائف کرتا ہوا اپنے گھر واپس آگیا ،یہ صبح بھی عام صبح جیسی تھی ،نہ کسی بری خبر نے کانوں میں سرگوشی کی اور نہ ہی غیر معمولی سرگرمیاں دیکھنے میں آئیں ۔ گھر پہنچ کر میں نے گرم دودھ کے ساتھ دو رس کھائے اور نماز اشراق پڑھنے کے بعد اپنے بستر پر دراز ہو کر سو گیا ۔مجھے اس بات قطعا علم نہیں تھا کہ انہی لمحات میں میرا کوئی بہت ہی پیارا دوست ،جان کنی کی کیفیت میں مبتلا ہے ۔ دس بجے نیند سے بیدار ہو ا ، غسل کرکے نماز چاشت پڑھی ۔ ابھی میز پر موبائل پکڑ کر بیٹھا ہی تھا کہ بیگم ناشتہ لے کر ڈرائنگ روم میں داخل ہوئی ۔موبائل کو چھوڑ کر میں نے ناشتہ کیا۔ کچھ دیر بعد فراغت پاکر ایک بار پھر موبائل کو آن کر کے دیکھنے لگا کہ کن کن دوستوں اورمحبت کرنے والوں نے مجھے زندگی کی نئی صبح کی مبارک باد دی ہے ۔وہاں سے ہوتا ہو ا میں فیس بک میں جا پہنچا۔ اچانک مسجد اﷲ کی رحمت کے ہر دلعزیز امام اور ہمارے بہترین دوست اور رہنما قاری محمد اقبال عارف صاحب کی ایک پوسٹ نظر سے گزری کہ پیر کالونی کی گلی نمبر ایک میں واقع سویٹ ہوم کے بالمقابل ایک الیکٹریشن کے والد حاجی محمد اقبال گجر کا انتقال ہوگیا ہے ، میں نے یہ پوسٹ دیکھی اور اسی وقت مرنے والے شخص کی مغفرت کی دعا لکھ دی ۔تعزیتی الفاظ لکھ کر میں آگے بڑھ گیا اور قرآن پاک پڑھنے لگا ۔سورج صبح ہی سے آگ برسا رہا تھا، گرمی کی شدت سے بچنے کے لیے میں اپنے قریب ہی رکھا ہوا ٹھنڈا پانی وقفے وقفے سے پینے لگا ۔بیشک گرمیوں میں ٹھنڈا پانی کسی غنیمت سے کم نہیں ہوتا۔ ٹھنڈے پانی کا احساس بطور خاص روزوں کے ایام میں خوب ہوتا ہے ۔ روزوں کے بعد اﷲ تعالی نے زندہ انسانوں پر عائد پابندیاں اٹھا لی ہیں ۔ اب جس کا جو جی چاہے کھا پی بھی سکتا ہے ۔یہ سب میرے رب کا فضل ہے ۔

نماز ظہر کی ادائیگی کے لیے میں مسجد پہنچاتو نماز کے دوران کو ئی غیر معمولی سرگرمی دیکھنے میں نہیں آئی ، فرض نماز کے بعد قاری محمد اقبال صاحب نے اپنے مخصوص انداز میں کسی کی موت کے بارے میں اعلان کیا کہ نماز ظہر کے فوری بعد مرکز اسلامی والٹن روڈ میں نماز جنازہ پڑھی جائے گی ۔چونکہ میں یہ حدیث کتنی بار پڑھا چکا ہوں کہ نماز جنازہ پڑھنے والوں کو احد پہاڑ کے برابر ثواب ملتا ہے اور اگرمرنے والے کی تدفین تک قبرستان میں موجود رہا جائے اور اختتامی دعا میں شرکت یقینی بنا لی جائے تو دو مرتبہ احد پہاڑ جتنا ثواب نامہ اعمال میں لکھا جاتا ہے ۔عام طور پر میں نماز ظہر پڑھنے کے لیے جب گھر سے نکلتا ہوں تو نماز والی ٹوپی کے علاوہ ایک بڑے سے رومال سے اپنا چہرہ ڈھانپا لیتا ہے ۔اس دن گرمی سے بچاؤ کے لیے بڑا رومال سر پر لینا بھول گیا ۔مسجد تک پہنچتے پہنچتے اچھی خاصی گرمی کا احساس ہوا ۔

میرے مشاہدے میں یہ بات آ چکی تھی کہ نماز ظہر کے فورا بعد نماز جنازہ میں شرکت کے لیے مرکز اسلامی پہنچنا ہے ۔دھوپ اور گرمی کی شدت عروج پر تھی اس لیے میں نے مناب سمجھا کہ پہلے گھر سے بڑا رومال لے لوں ۔ چند منٹوں میں ہی رومالِ سے اپنا چہرہ لپیٹ کر میں قادری کالونی کی گلی نمبر ایک میں تیزی سے بائیک چلاتا ہوا جا رہا تھا کہ راستے میں بابا شریف نماز جنازہ میں شرکت کے لیے پیدل ہی جاتا دکھائی دیا ۔ انہیں اپنی بائیک پر بٹھاکر تیز رفتاری سے آگے بڑھنے لگا ۔ راستے میں دوکاندار محمد بشیر صاحب (موٹا) بھی دکھا دیا ، ماسٹر عبد العزیز صاحب بھی پیدل ہی جاتے دکھائی دیئے جو یقینا نماز جنازہ میں شرکت کے لیے جا رہے تھے ۔جونہی میں مرکز اسلامی کے مین دروازے میں داخل ہوا تو مجھے قاری محمد اقبال صاحب سخت دھوپ میں نماز جنازہ پڑھاتے ہوئے دکھائی دیئے۔

یہاں یہ عرض کرتا چلوں کہ دوپہر کے وقت مرکز اسلامی کا کھلا میدان مکمل طور پر سورج کے رحم و کرم پر تھا ،سر سے پاؤں تک پسینہ آبشار کی شکل میں بہہ رہا تھا لیکن مجھے سخت ندامت کا اس وقت سامنا کرنا پڑاکہ میں نماز جنازہ شریک کیوں نہیں سکا ۔ درحقیقت مرکز اسلامی میں سایہ نام کی کوئی چیز موجود نہ تھی۔ کچھ حصے پر گھاس تو موجود تھی لیکن وہ میت اور جنازہ پڑھنے والوں کو گرمی کی شدت سے کیسے محفوظ کرسکتی تھی؟ چنانچہ جیسے ہی میت وہاں پہنچی قاری اقبال صاحب نے کسی کا انتظار کرنے کی بجائے نماز جنازہ پڑھانا شروع کر دی ۔ سخت ترین گرمی میں کسی کا انتظار کرنا ممکن بھی نہیں تھا ۔ اپنی بائیک ایک جگہ کھڑی کرکے میں بھی نماز جنازہ کے بعد دعا کرنے والوں میں شامل ہوگیا ۔ دعا کے بعد میت کا دیدار شروع ہوا تو میں بھی کلمہ شہادت پڑھ کے اس قطار میں لگ گیا میں مرنے والے کا چہرہ دیکھا لیکن میں یہ نہ پہچان سکا کہ یہ میرے ہی دوست کا جسد خاکی ہے ۔ میں نے اپنے دل میں کہا کہ مرنے والا کوئی نیک ہی بندہ ہے ۔ وہاں سے فارغ ہو کر میں خاموشی سے اپنے گھر آگیا ۔ گرمیوں کی دوپہر میں اکثر دو اڑھائی گھنٹے کھانے کے بعد آرام کرتا ہوں ۔ کیونکہ بڑھاپے کی وجہ سے اب مجھ سے زیادہ کام نہیں ہوتا۔سوا پانچ بجے جب میں ایک بار پھر نماز عصر کی ادائیگی کے لیے مسجد پہنچا تو فرض نماز کے بعد قاری صاحب نے ایک بار پھر مرحوم کے دعائے مغفرت کی ۔ میں پھر لاعلم رہا ۔ جب میں مسجد سے باہر نکلا تو راجہ محمد شبیر،محمد الیاس اور خادم حسین تینوں سوگوار حالت میں کھڑے گفتگو کررہے تھے ۔اس سے پہلے کہ میں بائیک کو سٹارٹ کرکے گھر کی جانب روانہ ہوتا ۔خادم حسین میرے قریب آئے اور حاجی محمد اقبال صاحب کی باتیں کرنے لگے ۔ میں نے کہا ہا ں سویٹ ہوم کے قریب اس نام کا کوئی شخص فوت ہوا ہے ۔ میری بات سن کر خادم حسین نے میرے دائیں کان کے قریب آکر کہا نہیں جناب ۔۔۔آپ کے جگری دوست حاجی اقبال صاحب فوت ہوئے ہیں جو مسجد میں آپ کے ساتھ والی کرسی پربیٹھ کر نماز پڑھا کرتے تھے ۔

خادم حسین کی زبان سے جیسے ہی میں نے یہ الفاظ سنے تو میرا پورا جسم تھرتھرا اٹھا۔ یوں محسوس ہورہا تھا جیسے میرے جسم کی تمام طاقت اور قوت صفر ہو چکی ہے ۔ اس لمحے میری آنکھوں سے بے ساختہ آنسو بہہ نکلے۔میرا دل چاہ رہا تھا کہ میں اونچی آواز میں دھاڑیں مارمار کر روؤں ۔اس لمحے مجھے زمین اپنے پاؤں کے نیچے سے سرکتی محسوس ہوئی۔ میں وہ کندھا تلاش کررہا تھا جس پر سر رکھ میں اپنے دکھ اور غم کا اظہار کرسکوں ۔مجھے کچھ بھی سمجھائی نہیں دے رہا تھا ۔یا خدایا میرا دوست حاجی اقبال فوت ہوگیا اور مجھے قوت سماعت میں کمی کی بناپر ان کی موت کا علم ہی نہیں ہو سکا ۔سچی بات تو یہ ہے کہ میرے پاس وہ الفاظ ہی نہیں تھے جو میری دلی کیفیت کا اظہار بنتے ۔میں اپنے بہترین دوست سے ہاتھ دھو بیٹھا تھا۔اب پچھتائے کیا ہو ۔ جب چڑیاں جگ گئیں کھیت۔وقت پاتھ سے نکل چکا تھا اور میرا دوست قبر کی گہری کھائی میں دفن ہوچکا تھا ۔

ابھی دو ہفتے پہلے کی بات ہے ، حاجی اقبال صاحب مسجد میں کئی دنوں سے غیر حاضر تھے، میں ان کی خیریت دریافت کرنے کے لیے ان کے گھر پہنچا تو باہر گلی میں ہی راجہ شبیر صاحب اور خادم صاحب بھی خوش گپیوں میں مصروف تھے، میرے ساتھ وہ حاجی اقبال صاحب کے حجرے میں جا پہنچے ، میرے استفسار پر حاجی صاحب نے بتایا نماز کے لِیے مسجد اس لیے نہیں آ رہا کہ میری ٹانگوں سے چلا نہیں جا رہا اور دل کی جانب مجھے کچھ بوجھ سا محسوس ہورہا ہے ۔ مجھے یاد ہے ماہ رمضان سے پہلے بھی ان کو دل کے حوالے سے کچھ پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑا تھا ۔انہوں نے کسی ہارٹ سپیشلسٹ کو چیک بھی کروایا تھا۔ کچھ عرصہ ان کے زیر علاج رہے ، اﷲ نے کرم اور وہ بالکل ٹھیک ہوگئے ۔راجہ شبیر صاحب نے مسکراتے ہوئے پوچھا حاجی صاحب آپ کی عمر کتنی ہے۔حاجی صاحب نے ہاتھ کے اشارے سے بتایا 80 سال ہے میری عمر۔ یہ سن کر ہم سب ششدر رہ گئے کیونکہ ہمارے نزدیک ان کی عمر 70سال ہو گی ۔ کیونکہ وہ پورے ہوش و حواس سے اپنی کار بھی ڈرائیو کرکے شیخوپورہ چلے جاتے ہیں ۔ لاہور میں بھی کہیں جانا ہو تو اپنی گاڑی ہی استعمال کرتے ہیں ۔گھر سے نماز کے لیے جب نکلتے تھے تو ان کے ہاتھ میں ایک چھڑی ہوتی تھی ، جس کا سہارا وہ برائے نام ہی لیا کرتے تھے۔سردیاں ہوں یا گرمیاں وہ نماز کی مکمل پابندی کیا کرتے تھے۔نماز پڑھنے کے بعد مسجد سے نکل کر گھر جانے کی بجائے سامنے ویلڈنگ کی دکان پر لوہے کے بینچ پر بیٹھ جاتے ،جب دوسری نماز کا وقت ہو تا تو وہیں سے اٹھ کر مسجد میں قطار میں رکھی ہوئی کرسیوں پر، ایک کرسی چھوڑ کر بیٹھ جاتے ۔وہ خالی کرسی میرے لیے انہوں نے مخصوص کررکھی تھی ۔
میں سمجھتا ہو ں یہ میرا اعزاز تھا کہ پی آئی اے میں انجینئرریٹائر ہونے کے باوجود وہ میرا بے حد احترام کرتے تھے ، کئی مرتبہ ایسا بھی ہوا کہ میں مسجد میں نماز کے لیے بروقت نہ پہنچ سکا اور انہیں میرے لیے رکھی ہوئی کرسی کو اٹھانا پڑا تو وہ بڑے بھائی کی طرح ڈانٹ کے لہجے مجھے کہتے آپ کہاں آوارہ گردی کرتے رہتے ہو۔نماز کے وقت مسجد کیوں نہیں آتے۔ مجھے افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ میری طرح انہیں بھی کم سنائی دیتا تھا ان سے کوئی بات کرنی ہوتی تو کان کے بالکل قریب جاکر کہنی پڑتی تھی۔ یہ پچھلے رمضان کی بات ہے کہ وہ مجھے ساتھ لے کر اپنے دوسرے گھر چلے گئے مجھے انہوں نے بتایا کہ ہمارے دوسرے گھر میں افطاری کا اہتمام کیا گیا ہے، افطاری کرنے والوں میں آپ بھی شامل ہیں۔ ان کے اصرار پر میں ان کے ساتھ ہی بالائی منزل پر جا بیٹھا انہوں نے اپنے بیٹوں سے میرا تعارف کرایا اور بتا یا کہ یہ مکان 9 مرلے کا ہے ، یہاں میرے دو بیٹے رہتے ہیں ،ایک بیٹا اس مکان میں رہتا ہے جہاں میں رہتا ہوں ۔افطاری میں کھانے پینے کا بہت اہتمام کیا گیا تھا ۔وہاں سے فراغت پاکر وہ میرے ساتھ ہی واپس آگئے ۔

یہاں میں یہ عرض کرتا چلوں کہ آٹھ سال پہلے میں جب میں اس محلے میں رہائش پذیر ہوا تھا،تو نماز کی ادائیگی کے لیے مسجد اﷲ کی رحمت میں آیا ۔میں مکہ کالونی کی جامع اور خوبصورت مسجد کو چھوڑ کر آیا تھا۔ شاید اس لیے مجھے یہ مسجد ایک دور دراز گاؤں کی محسوس ہوئی ۔دور حاضر کی جدید ترین سہولتوں کا سرے سے یہاں وجود نہیں تھا ، شاید پرانی صفیں بچھیں ہوئی تھیں ،نہ مسجد میں قالین تھا اورنہ لوڈ شیڈنگ سے بچاؤ کے لیے یو پی ایس اور بیٹریاں تھیں ۔جبکہ مسجد کے در و دیوار میں پرانے زمانے کی سفیدی کے کہیں کہیں آثار دکھائی دیتے تھے ۔نمازیوں کی تعداد بھی بہت کم تھی بلکہ ایک ڈیڑھ صف سے زیادہ نماز ی بھی نہیں ہوا کرتے تھے۔مسجد کے امام تو قاری محمد اقبال صاحب ہی تھے لیکن میں نے انہیں لوڈشیڈنگ کے دوران انتہائی گرمی میں اس طرح نماز پڑھاتے دیکھا کہ انہوں نے جتنے بھی کپڑے پہنے ہوئے تھے وہ پسینے سے تر تھے جبکہ نمازیوں کا بھی یہی حال ہوا کرتا تھا ۔مسجد کا مینار بھی نہیں تھا اور نہ ہی مین گیٹ پر نقش کاری تھی ۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ حاجی محمد اقبال صاحب کا جذبہ ایثار تھا کہ انہوں نے پہلے مسجد کے در دیوار پر جدید ترین پیلنگ لگوائی ، پھر نئے فرش کی تعمیر کے بعد خوبصورت قالین بچھوایا ،قالین کے نیچے بلیو کلر کی فوم نما شیٹ بچھوائی ،جس پر چلنے والوں کو خود اچھا محسوس ہوتا ہے ۔محراب کے اردگرد دونوں اطراف پر خانہ کعبہ اور مسجد نبوی کے پرانے سے ڈائزینوں کو تبدیل کرکے حاجی محمد اقبال صاحب نے انتہائی نفیس اور خوبصورت ٹائلوں سے آراستہ اﷲ تبارک وتعالی کے99 اسمائے گرامی ، نبی آخرالزمان حضرت محمد ﷺ کے اسمائے گرامی کے علاوہ خوبصورت نقش نگاری پر مشتمل خانہ کعبہ اور مسجدنبوی ﷺ کے حقیقی مناظر لگواکر مسجد کو چار چاند لگا دیئے ۔ قاری محمد اقبال صاحب کے بقول حاجی محمد اقبال صاحب نے دونوں میں سے ایک بڑا ایئر کنڈیشنر ( گریس) کا ایسا لگوایا جو جمعہ کے دن مسجد بھرنے کے باوجود ٹھنڈی ہوا سے نمازیوں کو گرمی کی شدت سے محفوظ کرتا ہے ۔قرآن پاک میں یہ الفاظ لکھے ہوئے میں نے خود دیکھے ہیں کہ مسجد وں کو اﷲ نیک بندے ہی آباد کرتے ہیں ۔اﷲ تعالی نے حاجی محمد اقبال کو اگر مال و دولت سے نوازا تھا تو انہوں نے مسجد میں دل کھول کر خدمت کی مثال بھی قائم کردی ۔مسجد میں جب بھی کسی چیز کی ضرورت پڑی ۔حاجی صاحب عطیہ کرنے والوں میں سب سے اگے ہوتے۔

حاجی محمد اقبال سے میرا کو ئی رشتہ تو نہیں تھا لیکن وہ مجھے اپنوں سے زیادہ محبت والے دکھائی دیتے تھے ،ان کی شفقت کا اظہار مجھے قدم قدم پر حاصل تھا ، میں جب بھی نماز تہجد کے بعد دعا کے لیے ہاتھ اٹھاتا ہوں تو لا محالہ حاجی محمد اقبال ،میرے سامنے آکھڑے ہوتے ہیں ، بے ساختہ مجھے ان کی مغفرت اور عذاب قبر سے محفوظ رکھنے کی دعا کرنی پڑتی ہے ۔ میں یہ دعا کیوں نہ کروں وہ میرے بڑے بھائی بھی تھے اور میرے غمگسار بھی تھے ۔اﷲ انہیں جنت میں اعلی مقام عطا فرمائے ۔آمین


 

Aslam Lodhi
About the Author: Aslam Lodhi Read More Articles by Aslam Lodhi: 781 Articles with 665644 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.