"چٹکیاں "یہ کتاب ڈاکٹر ذوالفقار علی کی تحریر ہے ۔جو
پیشے کے اعتبار سے پروفیسر ہیں لیکن طنز مزاح لکھنا اور شاعری ان کا شوق
ہے۔منو بھائی اس کتاب کے بارے میں لکھتے ہیں کہ عمدہ اور شائستہ مزاح لکھنا
آسان نہیں ۔اس کے لیے ایک حساس دل ،معاشرے کی بے اعتدالیوں پر گہری نظر اور
پھر بیان کے لئے ایک ایسا قلم چاہیئے جو قاری کو گدگدائے اور کہیں کہیں
چٹکی بھی بھرے ،لیکن اسے زخمی نہ کرے تاکہ پڑھنے والا سوچ کے نئے دروازوں
کو کھولنے میں جھجک محسوس نہ کرے۔ڈاکٹر ذولفقار علی کے مزاح میں یہی
شائستگی پائی جاتی ہے جو ان کے مشاہدے اور انسان دوستی کی غماز ہے۔ ان کے
ہاں موضوعات کی رنگا رنگی بھی پائی جاتی ہے وہ چبائے ہوئے لقموں پر یقین
نہیں رکھتے بلکہ اپنا راستہ خود بناتے ہیں ۔ ان کی تحریروں میں مزاح کی
فطری آکسیجن موجود ہے ۔ڈاکٹر ذوالفقار علی کے مزاح کی کتاب "چٹکیاں"بے
ساختہ اور برجستہ جملوں سے قاری کو گدگداتی ہے اور کہیں کہیں کوئی جملہ طنز
بھری چٹکی بھی بھر لیتا ہے لیکن چٹکیوں سے زیادہ گدگدی پائی جاتی ہے۔جس سے
قاری ڈپریشن کے ماحول سے نکل کر ہوا کے تازہ جھونکوں سے مسحو ر ہوتا
ہے۔ڈاکٹر صاحب کے اسلوب میں شگفتگی ایک بنیادی عنصر ہے، جو اردو مزاح کی اس
روایت سے کشید کی گئی ہے جسے مزاح سے وابستہ سنجیدہ اور بصیرت افروز شخصیات
نے مرتب کیا ہے ۔ان کے مختصر جملے اپنے اندر جامعیت رکھتے ہیں ۔یوں ان کا
مزاح غزل کے شعر جیسا ذائقہ رکھتا ہے جو آج کے پر آلام دور میں کسی نعمت سے
کم نہیں ۔
ڈاکٹر سلیم اختر لکھتے ہیں کہ ذوالفقار علی طنز کی دنیا میں نووارد نہیں
بلکہ اس سے پہلے وہ اٹکھیلیاں اور چھیڑچھاڑ کے نام سے دو کتابیں تخلیق
کرچکے ہیں اور گیارہ مضامین اور ایک ڈرامے پر مبنی تازہ مجموعہ "چٹکیاں"طنز
کی راست سمت میں ایک اور قدم سمجھا جارہا ہے۔ڈاکٹر ذوالفقار علی نے طنز کے
لیے اپنے ماحول ، معاشرے اور کلچر سے متنوع اہداف منتخب کیے ہیں۔جیسے محقق
، شاعر اور چیرمین وغیرہ ۔ چٹکیاں کا پہلا مضمون "ہنسنے پر پابندی ہے"بھی
قابل توجہ ہے ۔ بالخصوص اس کی آخری سطریں جو آنکھوں میں آنسو لے آتی ہیں۔
ڈاکٹر یونس بٹ لکھتے ہیں ۔چٹکی کاٹنے کا یہ بھی عجب کمال ہے کہ دوسرے کو
مزا آئے نہ آئے،کاٹنے والے کو ضرور آتاہے یوں ڈاکٹر ذوالفقار علی کو چٹکی
کاٹنے سے کون روک سکتا ہے۔ڈاکٹر اشفاق احمد ورک لکھتے ہیں ڈاکٹر ذوالفقار
علی جانتے ہیں کہ مزاح لفظوں سے گدگدی کرنے کا فن ہے۔یہ شریر سوچ کو تحریر
کی رگوں میں خون کی مانند دوڑانے کے قابل بنانے کا عمل ہے۔یہ لحظوں کی
مسکراہٹ اور لہجوں کی سرسراہٹ کو محسوس کرنے اور ان سے محظوظ ہونے کاعمل
ہے۔ڈاکٹر ذوالفقار علی کا شمار ایسے ہی پختہ کاروں میں ہوتا ہے جو بہت کم
وقت میں اپنے شعبے میں نام پیدا کرلیتے ہیں۔ امجد اسلام امجد لکھتے ہیں
۔ڈاکٹر ذوالفقار علی کے پاس اچھا مزاح لکھنے کے لیے تمام ممکنہ وسائل موجود
ہیں۔ ان کے پاس خالص مزاح کی فطری صلاحیت بھی خاصی فروانی سے موجود ہے جس
میں ناظر اور منظر ایک دوسرے میں گھل مل جاتے ہیں۔
.........................
ڈاکٹر ذوالفقار علی لکھتے ہیں پاکستانی پولیس والے ویسے اس لحاظ سے بہت
اچھے ہیں کہ جو کچھ بھی انہیں دیں ،وہ رکھ لیتے ہیں۔ہمارے ایک دوست بتا رہے
تھے کہ عید کے دن انہیں مسجد میں رش کی وجہ سے جگہ نہیں مل رہی تھی ۔لوگوں
کی جان ومال پر نظر رکھنے کے لیے مسجد کے باہر ایک پولیس والا تعینات تھا۔
اگرچہ ہماری پولیس لوگوں کی جان پر کم اور مال پر زیادہ نظر رکھتی ہے۔ اس
نے انہیں کہا کہ آپ مجھے دس روپے کا نوٹ دیں میں آپ کو اگلی صفوں میں کھڑا
کردیتا ہوں ۔
مجھے ایک دفعہ سینٹرل جیل میں امتحان لینے کا موقع ملا۔ وہاں جیل میں جگہ
جگہ قانون کی پابندی کے بورڈ لگے ہوئے تھے ۔ امتحان شروع ہوا۔ پہلے دن آٹھ
دس سزائے موت کے قیدی پرچہ دینے کے لیے امتحانی سنٹر میں لائے گئے ۔ وہاں
امتحانی سنٹر میں دو پولیس والوں کی ڈیوٹی بھی لگائی گئی تھی اور وہ بڑی
سرعت سے اپنی ڈیوٹی سر انجام دے رہے تھے ۔یعنی وہ ان مجرموں کو باہر سے
بوٹیاں لاکر دے رہے تھے اور انکو نقل کروانے میں مشغول تھے۔ میں نے انہیں
روکنا چاہا تو انہوں نے کہا سرجی یہاں ایسے ہی امتحان ہوتا ہے۔آپ ٹینشن نہ
لیں ۔ قانون کے ہوتے ہوئے یہاں کو ئی نہیں آئے گا۔میں نے قیدیوں سے کہا نقل
کرنا بند کردیں ورنہ میں آپ کے خلاف یو ایم سی بنا دوں گا۔ وہ سارے قیدی
میری اس بات پر ہنس ہنس کر لوٹ پوٹ ہورہے تھے اورکہہ رہے تھے کہ سر ہم تو
پہلے ہی اندر ہیں۔ آپ اس سے آگے ہمیں کہاں بھجوائیں گے۔مجھے وہاں ایسے
محسوس ہوا کہ یہاں امتحان ان کم بختوں کا نہیں بلکہ میرا ہو رہا ہے۔میں نے
جیل سپرنٹنڈنٹ سے کہا کہ یہاں بہت خطرناک مجرم امتحان دے رہے ہیں۔ آپ مزید
پولیس والے تعینات کریں۔ اس نے تین اور پولیس والے بھیج دیئے ۔ان کے آنے سے
فرق یہ پڑا کہ پہلے دو پولیس والے نقل کروا رہے تھے، اب پانچ پولیس والے
نقل کروانے لگے۔پھر میں نے مزید پولیس والوں کو بلانا مناسب نہ سمجھا
کیونکہ پہلے ہی قانون کی بالادستی قائم تھی ۔ مجھے وہاں کسی نے بتایا کہ
ایک پولیس والے کا بیٹا پاس نہیں ہوتا تھا اس نے بالاخر اپنے بیٹے کو کسی
معمولی جرم میں جیل بھجوا دیا ۔وہاں اس نے امتحان دیا تب کہیں جا کر وہ پاس
ہوا۔وہاں قیدیوں نے انکشاف کیا جو شے آپ کو باہر نہیں ملتی وہ جیل میں
باآسانی دستیاب ہو جاتی ہے۔اسی لیے ہماری جیلوں میں چھوٹے مجرم بڑے مجرم بن
کے نکلتے ہیں۔
ایک اور جگہ لکھتے ہیں کہ اس ملک میں اگر کوئی کام مسلسل ہورہا ہے تو وہ
کرپشن ہے ہم 74 سال سے اس ملک کو بیچ رہے ہیں اور نوبت یہاں تک آ گئی ہے کہ
دشت تو دشت ہیں دریا بھی نہ چھوڑے ہم نے
یہاں یہ سب کچھ دیکھ کر محسوس ہوتا ہے کہ یہاں کرپشن پر کوئی پابندی نہیں
ہے۔لینے والے تو ہندووں سے بھی فطرانہ وصول کر لیتے ہیں۔اس ملک کی مثال اس
شخص کی سی ہے جو ایک جگہ بے سدھ پڑا ہوا تھا ،اس شخص کو بڑی سے بڑی اور
چھوٹی سے چھوٹی مکھیاں نوچ رہی تھیں، اس کے قریب سے ایک آدمی گزرا۔اس نے وہ
مکھیوں اڑا دیں ۔اس شخص نے اس آدمی پر بہت غصہ کیااس نے کہا تم نے میرے
ساتھ بہت بڑا ظلم کیا ہے ۔اس آدمی نے جواب دیا میں نے تو تمہیں نوچتی ہوئی
مکھیوں سے بچانے کے لیے ان کو اڑایا ہے تم اسے ظلم کیسے کہتے ہو۔ اس شخص نے
کہا ان مکھیوں نے مجھے جتنا نوچنا تھا ،نوچ لیا تھا ۔اب یہ کھاکر نسبتا
آرام سے بیٹھی تھیں۔ اب تم نے انہیں اڑا دیا ہے ۔اب ان کی جگہ نئی مکھیاں
آئیں گی وہ مجھے شروع سے نوچیں گی ۔یوں تم نے میرے ساتھ بہت ظلم کیا ہے۔
ایک دفعہ امریکہ نے پاکستان میں اشتہار چھپوایا کہ جو لوگ امریکہ جانا
چاہتے ہیں وہ اپلائی کریں۔ لہذا یہاں کے لوگوں نے امریکہ جانے کے لیے انھے
واہ اپلائی کیا۔ امریکی حکومت نے پاکستان میں موجود اپنے سفیر سے پوچھا کہ
یہاں سے کتنے لوگوں نے اپلائی کیا ہے ۔اس نے لکھا کہ پندرہ کروڑ عوام نے
امریکہ جانے کے لیے درخواستیں دی ہیں ۔ تین کروڑ کو اس اشتہار کا پتہ ہی
نہیں چلا۔اس طرح امریکی پاکستانیوں سے پوچھتے رہے کہ اگر آپ نے یہاں رہنا
نہیں تھا تو پھر یہ ملک بنایا کیوں تھا؟
کچھ عرصہ پہلے حکومت نے بغیرہیلمٹ کے موٹرسائیکل چلانا ممنوع قرار دے دیا ۔
اگرچہ حکمران خود جیسے مرضی حکومت چلا رہے ہوں ۔ عام لوگوں کو بغیر ہیلمٹ
کے موٹرسائیکل چلانے پر حکومت نے بھاری جرمانے بھی کیے۔ کیونکہ اس بات سے
سب بخوبی آگاہ ہیں کہ غریب آدمی کے لیے یہاں کا قانون بہت سخت ہے ۔اس وقت
حکومت میں کچھ ایسے لوگ موجود تھے جو ہیلمٹ کا کاروبار کرتے تھے ۔ ان دنوں
لوگوں نے بہت بھاری قیمت ادا کرکے نہ صرف جمہوریت کو برداشت کیا بلکہ ہیلمٹ
بھی خریدے ۔ ویسے بھی دوسرے لوگوں کی مجبوری سے فائدہ اٹھانے کا ہنر ہماری
قوم سے بہترکون جانتا ہے ۔ وہ چار دن حکومت نے ہیلمٹ پہننے پر انھے واہ
سختی کی اور جب تمام ہیلمٹ بک گئے تو یہ کھیل بھی ختم ہوگیا۔اس کے بعد تو
ٹریفک پولیس والوں نے بھی ہیلمٹ پہننے چھوڑ دیئے ۔
ایک فوکر طیارہ فیصل آباد سے اسلام آباد جانے کے لیے تیا ر تھا ۔ فوکر
طیارہ اگرچہ اپنا تھا مگر اس کی حالت غیر تھی ۔اس کی سیٹوں کو زبردستی
باندھا ہوا تھا۔طیارہ بہت پرانا تھا لیکن اس کا پائلٹ سامنے بیٹھا نظر آ
رہا تھا ۔شاید ایسے ہی جہازوں کو دیکھ کر بعض بس مالکان ڈرائیور کی کھڑکی
پر پائلٹ گیٹ اور بس کے پچھلے شیشے پر وڑائچ طیارہ لکھوا لیتے ہیں ۔ بہرحال
اس طیارے کے اندر مسافروں کو دھکیلا گیا تو اندر جا کر محسوس ہوا کہ جہاز
پرانا ہے اور پائلٹ نیا ہے۔جہاز اڑا تو ایئر ہوسٹس نے تھوڑی دیر بعد اعلان
کیا اس وقت ہم پچیس ہزار فٹ کی بلندی پر سفر کر رہے ہیں ۔اس پر کچھ مسافروں
نے یہ اعتراض کیا کہ خاتون تو ڈرانے والی باتیں کررہی ہے ۔ان کا نظریہ تھا
کہ جہاز بیشک اس سے بھی اونچائی پر لے جائیں لیکن ہمیں نہ بتائیں ۔ ایک
مسافر شاید کو ئی بڑا جاگیر دار تھا ۔ وہ دیکھنے میں بہت بارعب اور غصیلا
معلوم ہوتا تھا ۔ وہ مسلسل اپنی مونچھوں کو پکڑ کر یوں تاؤ دے رہا تھا جیسے
ٹائم پیس کی سوئی کو گھما کر ٹائم درست کیا جاتا ہے ۔اس نے اپنے ہاتھ میں
ایک چھڑی پکڑی ہوئی تھی ۔ اس کو دیکھ کر یہ محسوس ہورہا تھا جیسے یہ چھڑی
اس قوم کو ہانکنے کے لیے اسے وفا کے بدلے کسی انگریز نے دی ہے ۔ ہمارے ایک
دوست جو یورپ میں ہوتے ہیں ۔ وہ فرما رہے تھے کہ جو یہاں جاگیردار ہیں
انہوں نے بھلے وقتوں میں انگریزوں کے کتے نہلائے اور انگریزوں نے انہیں
جاگیریں الاٹ کردیں ۔ جس سے یہ سونے چاندی کی گنگا میں نہاگئے ۔ اس نے مزید
بتایا کہ اب انگلستان میں بغیر ڈپلومہ کے انگریزوں کے کتوں کو بھی نہیں
نہلا سکتے کیونکہ وہ انگریز یہ کہتے ہیں کہ اگر آپ کتے کو نہلاتے ہوئے اس
کی آنکھوں میں شیمپو ڈال دیا تو پھر اس کا کون ذمہ دار ہو گا ۔دراصل ویسے
بھی ان کا حیوان دوست معاشرہ ہے ۔
ایک عوامی نمائندے کی ڈگری کو ہائی کورٹ میں چیلنج کیا گیا ۔ اس عوام کے
خادم سے جج صاحب نے یہ پوچھا آپ صرف مجھے عدالت میں پوری اے بی سی سنا دیں۔
اگر آپ نے سنا دی تو میں آپ پر لگے ہوئے الزام کو ختم کردوں گا۔ اس عوامی
نمائندے نے جواب دیا کہ جناب میں آپ کو پہلے بڑی اے بی سی سناؤں یا چھوٹی
اے بی سی۔اس معاشرے کے یہی وہ معتبر اور معزز لوگ ہیں جن کو مدعو کرکے ان
کے دست مبارک سے کالجز اور یونیورسٹیزکا کانووکیشن میں کامیاب طالب علموں
کو ڈگریاں سے نوازا جاتا ہے ۔ دوبئی کے شیخ سلطان النہیان جو اکثر انھے واہ
پاکستان آنے کا شوق رکھتا تھا ۔ اس کا محل رحیم یار خان میں تھا۔ ایک مرتبہ
جو وہ آیا تو اس کے محل کے باہر ایک شخص ریڑھی لیے کھڑا تھا ۔ سلطان
النہیان کے بچے بھی ان کے ساتھ تھے ۔ انہوں نے ریڑھی دیکھی تو اس پر سواری
کرنے کی خواہش کا اظہار کیا۔ شیخ النہیان وسیع النظر آدمی تھا ۔ وہ اتنا
مالدار تھا کہ اس کے لیے کسی بھی چیز پر سوار ہو نا ذرا مشکل نہ تھا۔بہرحال
بچوں نے ریڑھی پر سواری کی اور وہ خوش ہو گئے۔شیخ النہیان نے اس ریڑھی والے
کو خوش ہوکر ایک لاکھ روپوں سے نوازا۔جیسے ہی یہ خبر لوگوں تک پہنچی تو
سارے شہر کی ریڑھیاں شیخ سلطان النہیان کے محل کے سامنے جمع ہو گئیں ۔محل
کے باہر تل دھرنے کو جگہ نہ تھی کچھ خرد دماغ لوگوں نے ریڑھیوں کو سجایا
ہوا تھا ۔ ریڑھیوں کا رش دیکھ کر شیخ النہیان نے پولیس کواطلاع دی ۔ یوں
پولیس نے لاٹھی چارج کرکے ان ریڑھی والوں کو وہاں سے ریڑھیوں سمیت منتشر
کیا۔اس طرح ِریالوں کے چکر میں نہ صرف وہ خود خجل خوار ہوئے بلکہ اپنے
گدھوں کو بھی خجل کروایا۔
ڈاکٹر ذوالفقار علی کی اس کتاب پرطارق حبیب، ڈاکٹر اشفاق ورک ، امجد اسلام
امجد ، انور مسعود ، ڈاکٹر انور سدید ، فاروق قیصر اور انور مقصود نے بھی
اپنی اپنی رائے کا اظہار کیا جو واقعی پڑھنے سے تعلق رکھتی ہیں ۔جبکہ ہنسنے
پر پابندی ہے، انھے واہ ، عملی مزاح ،تحقیق کاریاں ، دیکھنے ہم بھی گئے
تھے، چھپٹنا پلٹنا ، لوآج ہم بھی صاحب دیوان ہوگئے،چیئرمین، مظہر بے نیازی،
یونیورسل برادر ، بالا پرالی والا، کیا سمجھے ؟ جیسے عنوانات کے تحت
خوبصورت واقعات کو لفظوں کی لڑیوں میں پروکر قارئین کو پڑھنے اور محظوظ
ہونے کے لیے طنز و مزاح سے بھرپور تحریری مواد پیش کیا گیاہے۔160صفحات پر
مشتمل یہ کتاب بہت دلچسپ ہے اور پڑھنے سے تعلق رکھتی ہے۔ ملنے کا ایڈریس۔
مثال کتاب گھر، صابریہ پلازہ گلی نمبر 8، منشی محلہ ، امین پور بازار ،
فیصل آباد ہے جس کی قیمت صرف 300/- روپے ہے۔ رابطہ 041-2615359+
0300-6668284۔
|