برصغیر پاک و ہند ایک کثیر المذاہب خطہ ہے۔مذہبی تکثیریت
کا نمائندہ یہ خطہ بہت وقیع علمی و مذہبی ادب کا حامل ہے جس کے تذکرہ کے
بغیر عالمی ادب کی تاریخ ادھوری رہ جاتی ہے ۔اِس حوالے سے اِن مذاہب کا
مقدس مذہبی ادب خصوصی طور پر قابلِ ذکر ہے جن کے سوتے برصغیرسے پھوٹے تھے۔
اِس میں ہندو مت ، بدھ مت ، جین مت اور سکھ مت شامل ہیں ۔اِن کے علاوہ
اسلام یہاں اپنی غرابت وطنی کے باوجود بہت متنوع اور وسیع اسلامی علمی تراث
رکھتا ہے ۔اِس کی ایک مثال برصغیر کا تفسیری ادب ہے۔دیار عرب کے بعد تراجم
و تفاسیر قرآنی کا سب سے زیادہ کام برصغیر پاک و ہند میں کیا گیا ہے۔جبکہ
علاقائی زبانوں میں قرآنیات کا سرمایہ اِس سے سوا ہے۔
اسی ضمن میں ایک قابل ذکر بات یہاں کے غیر مسلم اہل قلم کے تراجم و تفاسیر
قرآنی ہیں ۔اِن غیر مسلم اقلیتوں کو دو گروہوں میں منقسم کیا جا سکتا ہے۔
پہلا گروہ وہ اقلیتیں ہیں جن کا قرآنیات پر کام زیادہ معروف نہیں۔ اِن میں
یہودی ، پارسی ، بدھ مت، سکھ مت ، جین مت اور وادی کافرستان سے تعلق رکھنے
والے کیلاش شامل ہیں۔قرآنیات پر قلم اٹھانے والے دوسرے گروہ میں مسیحی ،
ہندو اور قادیانی شامل ہیں ۔اِن میں سے مسیحی اور ہندو قرآن کو غیر الہامی
تصور کرتے ہیں اور اُن کا تفسیری اسلوب جارحانہ انداز میں نقد و تنقیص پر
مبنی ہے۔اِس گروہ کے تیسرے فریق قادیانیوں کی تفاسیرمیں قرآن کو الہامی
تسلیم کرتے ہوئے مسلم علم الکلام کی روشنی میں اپنےمخصوص مذہبی عقائد و
نظریات کی تاویل پرارتکاز ہے ۔
برصغیر میں مختلف زبانوں میں قرآن مجید کے ترجمہ و تفیسر کا کام برابر جاری
رہا۔انگریزی زبان میں بھی بہت سے تراجم ہوئے۔یہ کام 17 صدی عیسوی سے شروع
ہوا اورجاری ہے۔ انگریزی ترجمہ کی یہ کوششیں یہودی اور عیسائی مستشرقین نے
بھی کیں اور قادیانیوں نے بھی۔مسلمانوں کے مختلف مکاتب فکر نے بھی اِس کام
میں اپنا حصہ ڈالا۔اِن تراجم کا اگر جائزہ کیا جائے ،مترجمین کا تعارف
کرایا جائے اور اُن کے ذہنی رجحان اور جھکاؤ کو پرکھا جائے تو معلوم ہوتا
ہے کہ اِن تراجم میں منحرفین نے ایسے افکار ونظریات شامل کردئیے جو کلام
ربانی کا ہرگز منشاء و مقصد نہیں۔چنانچہ ایسے عقائد وافکار جس کی وجہ سے
عام قاری غلط فہمی کا شکار ہوجائے،کا پردہ فاش کرکےکفر و گمراہی سے بچانا
بہت ضروری ہے۔
"احمدی انگریزی تراجم وتفاسیر قرآن،ایک تنقیدی جائزہ"قادیانی انگلش تراجم و
تفاسیرکے ایک ایسے ہی تعارف اورمحاکمے کی مختصر مگر بہت عمدہ اور جامع کوشش
ہے۔جس کے مصنف پروفیسر ڈاکٹر محمد سلطان شاہ صاحب(ڈین فیکلٹی
لینگویجز،اسلامک اینڈ اورینٹل لرننگ۔جی سی یونیورسٹی لاہور) اور پروفیسر
ڈاکٹر حافظ خورشید احمد قادری(اسسٹنٹ پروفیسر شعبہ عربی و علوم اسلامیہ ،جی
سی یونیورسٹی لاہور) ہیں۔
تین ابواب"احمدی تراجم و تفاسیر قرآن"،"لاہوری احمدی تراجم و تفاسیر قرآن"
اور "الحاج حافظ غلام سرور انگریزی مترجم قرآن اور احمدیت"پر مشتمل یہ
مختصر مگر جامع مقالہ اپنے موضوع کے اعتبار سے منفرد معلومات اور کئی اہم
خصوصیات کا حامل ہے۔
بات کو آگے بڑھانے سے پہلے یہ بتاناضروری ہے کہ بانی جماعت احمدیہ نے اپنے
باطل عقائد و نظریات کو پھیلانے کے لیے تفسیر قرآن کا بھی سہارا لیا اور
اِس کے لیے سلف ِ صالحین سے ہٹ کر ایک نیا تفسیری منہج پیش کیا۔وہ اِس
حوالے سےلکھتا ہے:
’’تفسیر بالقرآن، تفسیر القرآن بالحدیث، تفسیر القرآن باقوال الصحابہ،
خود اپنا نفس مطہر لے کر قرآن میں غور کرنا، لغت ِعربیہ، روحانی سلسلہ کے
سمجھنے کے لیے سلسلۂ جسمانی ہے، کیوں کہ خدا تعالیٰ کے دونوں سلسلوں میں
بکلّی تطابق ہے اور وحی ولایت اور مکاشفات محدثین ہیں اور یہ معیار گویا
تمام معیاروں پر حاوی ہے۔ کیوں کہ صاحب وحی محدثیت اپنے نبی متبوع کا پورا
ہم رنگ ہوتا ہے اور بغیر نبوت اور تجدید احکام کے وہ سب باتیں اس کو دی
جاتی ہیں جو نبی کو دی جاتیں ہیں اور اس پر یقینی طور پر سچی تعلیم ظاہر کی
جاتی ہے اور نہ صرف اس پر اس قدر، بلکہ اس پر وہ سب امور بطور انعام و
اکرام کے وارد ہو تے ہیں۔ سو اس کا بیان محض اٹکلی نہیں ہوتا، بلکہ وہ دیکھ
کر کہتا ہے اور سن کر بولتا ہے اور یہ راہ اس امت کے لیے کھلی
ہے‘‘۔(قادیانی غلام احمد، مرزا، برکات الدعاء (نظارت اشاعت، ربوہ) ص ۱۶۔۱۸)
اِن اصولوں کو مد نظر رکھتے ہوئے جماعت احمدیہ کے مفسرین نے قرآن کو سلفِ
صالحین سے ہٹ کر ایک نئے انداز میں پیش کیااوراُن کی جانب سے تفسیر قرآن
پر جو کام ہوا ہےاُس میں اِن اصولوں کو اوّلیت حاصل رہی۔
باب اوّل" احمدی (قادیانی) تراجم و تفاسیر قرآن"کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے
کہ 1905ء میں برصغیر میں سب سے پہلا احمدی انگریزی ترجمہ کرنے والے ڈاکٹر
محمد عبدالحکیم خاں اپنے ترجمہ کی اشاعت کے فوراً بعد احمدیت سے لاتعلق
ہوگیا تھا۔مرزا کے پہلے خلیفہ حکیم نورالدین بھیروی کی وفات کے بعد یہ
جماعت دو حصوں میں تقسیم ہوئی۔پہلے دونوں نے لاہور کو مرکز بنایابعد میں
قادیانی ربوہ(چناب نگر) منتقل ہوگئے۔اِس باب کے مطالعہ سے یہ بھی معلوم
ہوتا ہے کہ قادیانیوں نے سات مکمل انگریزی تراجم قرآن شائع کیے ۔اِن میں سے
زیادہ تراجم میں ایسے تفسیری حواشی ہیں جو اُن آیات کی غلط تفسیر کرتے ہیں
جو عیسیٰ علیہ السلام اور ختم نبوت سے متعلق ہیں۔
یہاں یہ بات بھی اہم ہے کہ احمدی مترجمین اور مفسرین قرآن کریم میں کسی نسخ
کے قائل نہیں ہیں۔زیادہ تر احمدی مفسرین تسمیہ کو (سورہ التوبہ کے علاوہ)
تمام سورتوں کی پہلی آیت کے طور پر لیتے ہیں۔تمام احمدی مترجمین نے قرآن
کریم کا انگریزی اور دیگر زبانوں میں اِس طرح ترجمہ کرنے کی کوشش کی کہ وہ
اپنے مخصوص عقائد کو اُس کے متن سے ثابت کر سکیں۔اگر وہ ترجمے میں ایسا نہ
کرسکے تو وہ اپنی نیت کا اظہار حواشی میں کر گئے۔اُنہوں نے صحیفہ اسلامی کے
لغوی معانی سے انحراف کیا۔خاص طور سے عیسیٰ علیہ السلام یا ختم نبوت سے
متعلق آیات کے ترجمے اور تفسیر میں اُن کا انحراف واضح ونمایاں ہے۔
اِس باب کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ اِس میں دونوں مصنفین نے اُن قرآنی
آیات کے احمدی تراجم میں ڈاکٹر محمد عبدالخکیم خاں،مرزا بشیرالدین
محمود،مرزا بشیر احمد،پیر صلاح الدین،مولوی شیر علی،ملک غلام فرید، ظفراللہ
خان،حکیم نورالدین بھیروی کا ناقدانہ جائزہ بھی لیا ہے جن کا غلط ترجمہ
کرکے وہ اپنے مخصوص عقائد کی توجیہہ و تشریح پیش کرتے ہیں اور راسخ العقیدہ
مسلمانوں کے عقائد سے انحراف کرتے ہیں۔
باب دوم"لاہوری احمد تراجم وتفاسیر قرآن"میں قادیانیوں کے اُس لاہوری گروہ
کے تراجم و تفاسیر کا جائزہ لیا گیا ہے جو مرزا کے پہلے خلیفہ حکیم نور
الدین بھیروی کے مارچ 1914ء میں آنجہانی ہونے اورمرزا بشیرالدین محمود کی
جانشینی پر اختلاف کی صورت میں مولوی محمد علی لاہوری کی قیادت میں مرزائی
جماعت سے علیحدہ ہوگئے تھے۔
اسی لاہوری جماعت کے امیر مولوی محمد علی نے قرآن حکیم کا ترجمہ و تفسیر
1917ء میں شائع کیے۔ایک اور قادیانی مترجم ومفسر ڈاکٹر خادم رحمانی نوری
تھا جس نے فٹ نوٹ اور تفسیری حواشی سے بچنے کے لیے توضیحی الفاظ اور جملے
ترجمے کے درمیان قوسین میں لکھ دیے۔محمد علی اور نوری ،لاہوری فرقے کے وہ
دو اسکالر ہیں جنہوں نے قرآن مجید کا مکمل انگریزی ترجمہ شائع کیا۔جبکہ
لاہوری جماعت کی طرف سے کچھ نامکمل انگریزی تراجم بھی سامنے آئے۔جن میں
خواجہ کمال الدین اور چوہدری محمد منظور الٰہی کے تراجم اور ڈاکٹر بشارت
احمد کے 27 ویں اور 30 ویں پارے کا بھی اردو ترجمہ وتفسیر کا انگریزی ترجمہ
شامل ہے۔
یہاں یہ بات پیش نظر رہے کہ مرزا کی نبوت کے حوالے سے دونوں گروہوں میں کچھ
اختلاف ہے۔لیکن مرزا کے مجدد ہونے پر اِن دونوں کے درمیان کامل اتفاق پایا
جاتا ہے۔جبکہ حقیقت یہ ہے کہ یہ لڑائی صرف اور صرف اقتدار کی لڑائی تھی۔
عقائد کا اختلاف نہ تھا۔ اِس لئے کہ لاہوری گروپ مرزا قادیانی اورحکیم
نورالدین بھیروی کے زمانہ تک عقائد میں نہ صرف قادیانی گروپ کا ہمنوا تھا۔
بلکہ اب بھی یہ لاہوری گروپ مرزا قادیانی کو اُس کے تمام دعاوی میں سچا
اورمرزا کے تمام کفریہ دعاوی کو اپنے ایمان کا حصہ سمجھتا اور مرزا کے
عقائد کی ترویج اور توسیع اوراُس کی کتب کی اشاعت کرتا ہے ۔جب مرزائیوں نے
لاہوریوں کے متعلق یہ پروپیگنڈہ کیا کہ یہ اقتدار نہ ملنے کے باعث علیحدہ
ہوئے تو لاہوریوں نے اپنے دفاع کے لئے اقتدار کی لڑائی کو عقائد کے اختلاف
کا چولا پہنادیا۔بہرحال لاہوری ہوں یا قادیانی دونوں ایک ہی تھلے کے چٹے
بٹے ہیں۔
یہاں یہ اَمر بھی دلچسپی کا باعث ہوگا کہ مرزا کے تمام متبعین خواہ
مرزابشیرالدین ہوں یا محمد علی لاہوری، 1929ء تک مرزا کو ’’نبی‘‘ اور
’’رسول‘‘ کہتے اور مانتے رہے۔مولوی محمد علی لاہوری عرصۂ دراز تک مشہور
قادیانی رسالے ’’ریویو آف ریلیجنز‘‘ کے ایڈیٹر رہے اور اِس عرصہ میں اُنہوں
نے بے شمار مضامین میں نہ صرف مرزاصاحب کے لیے ’’نبی‘‘ اور ’’رسول‘‘ کا لفظ
استعمال کیا، بلکہ اُس کے لیے نبوت ورسالت کے تمام لوازم کے قائل بھی رہے۔
اپنے قادیانی ہم مذہبوں کی طرح لاہوری بھی متن قرآن مجید میں کسی نسخ کے
قائل نہیں ہیں۔لاہوری تراجم و تفاسیر قرآن کے باب میں مولوی محمد علی
لاہوری،ڈاکٹر خادم رحمانی نوری،خواجہ کمال الدین،ناصرالدین ابن آفتاب الدین
احمد،خان صاحب چوہدری محمد منظور الٰہی،ڈاکٹر بشارت احمدوغیرہ کے کام کو
زیر بحث لایا گیا ہے۔جس کا حاصل یہ ہے کہ لاہوری جماعت کے مترجمین قرآن نے
راسخ العقیدہ مسلمانوں سے ترجمہ و تفسیر میں انحرافی راستہ اختیار کیا اور
ماہرین علوم القرآن کے بتائے ہوئے اُصول تفسیر کو نظر انداز کرکے اپنے
مخصوص احمدی عقائد کو ثابت کرنے کے لیے من مانی تاویلات کا سہارا لیاہے۔جس
کی وجہ سے احمد یوں کی جانب سے کیے جانے والے تراجم اور تفاسیر پر صرف راسخ
العقیدہ مسلمانوں نے ہی نہیں بلکہ مغربی ناقدین نے بھی تنقید کی ہے۔
باب سوم"الحاج حافظ غلام سرور انگریزی مترجم قرآن اور احمدیت " کےحوالے سے
ہے۔فاضل مصنفین نے اِس باب میں اندرونی و بیرونی شہادتوں کی مدد سے اِن
الزامات کی تردید کی ہے کہ حافظ غلام سرور کا تعلق احمدی فرقے سے تھا۔حافظ
صاحب 1873ء میں مشرقی پنجاب کی ریاست کپور تھلہ کے ایک مذہبی گھرانے میں
پیدا ہوئے۔گورنمنٹ کا لج لاہور سے تعلیم حاصل کی۔پنجاب یونیورسٹی سے ایم اے
کرنے کے بعدمزید تعلیم کے لیے کیمبرج یونیورسٹی انگلستان چلے گئے۔1896ء سے
1900ء تک عربی زبان وادب کے امپریل انسٹی ٹیوٹ میں ماڈرن اسکالر رہے۔اُنہوں
نے 1923ء سے 1928ء تک سول ڈسٹرکٹ جج کے طور پر بھی کام کیا۔
حافظ صاحب نے اسلام کے حوالے سے بہت کچھ لکھا۔جس میں فلسفہ قرآن اور محمد ﷺ
پیغمبر اسلام
The Philosophy of the Quran & Muhammad the Holy Prophet شامل ہیں۔لیکن آپ
کا بڑا کام 1920ء کے آخرعشرہ میں منصفہ شہود پر آنے والا ترجمہ قرآن کریم
(Translation of the Holy Quran) ہے۔
اِس ترجمہ قرآن میں حافظ صاحب نے جارج سیل،جے ایم راڈیل اور ای ایچ پامر
جیسے مستشرقین اور مولوی محمد علی لاہوری کے ترجمہ قرآن کا جائزہ لیا اور
مغربی مترجمین کی اغلاط ،تحریفات اور غلط تعبیرات کو آیات قرآنی ،اجزائے
آیات اور نظر انداز کیے جانے والے الفاظ کے حوالے سے نمایاں کیا ہے۔حافظ
صاحب نے مولوی محمد علی لاہوری کے ترجمہ قرآن کی زبان کو موردِ تنقید بنانے
کے باوجود اُسے انگریزی کا سب سے اچھا ترجمہ قرآن قرار دیا ہے۔
اُنہوں نے مستشرقین کی جانب سے پیغمبر اسلام ﷺ کے خلاف اٹھائے گئے اعتراضات
کی بہت شدت سے تردید کی ہے اور اِن تراجم کے لسانی معیار کو بھی ہدف تنقید
بنایا ہے۔بقول فاضل مصنفین ،حافظ غلام سرور کا انگریزی ترجمہ قرآن اعلیٰ
درجے کا معیاری کام ہے لیکن احمدیوں کے ساتھ نام نہاد تعلق کا الزام ہونے
کی وجہ سے اُن کےترجمہ قرآن کو قابل اعتنا نہیں سمجھا گیا۔ایڈون ای،کل
ورلی(Edwin E.Caverly )نے اُن کو ایک ہندوستانی احمدی قرار دیا اور احمدی
مخالف ویب سائٹ نے بھی اُن کا شمار قرآن کریم کے احمدی مترجمین میں کیاہے۔
فاضل مصنفین کے مطابق اِس کی وجہ یہ تھی کہ مرزا کے بیٹے مرزا بشیرالدین
محمود ،مولوی محمد علی لاہوری اور خواجہ کمال الدین سے اُن کے تعلقات
تھےاور حافظ صاحب کپور تھلہ کےاُسی گاؤں میں پیدا ہوئے جو خواجہ کمال الدین
کی جنم بھومی تھا۔ دوسرے یہ کہ حافظ صاحب مولوی محمد علی لاہوری کے گورنمنٹ
کالج لاہور میں ہم جماعت بھی رہے۔قادیانیوں کے ساتھ روابط اوراِنہی واسطوں
کی وجہ سے حافظ صاحب کو احمدی نقطہ نظر کا پیروکار سمجھا گیا۔حالانکہ مرزا
کے دعوئے نبوت کے وقت حافظ صاحب ہندوستان میں نہیں تھے ۔اُنہوں نے احمدیوں
کے ساتھ اپنے تعلق سے بھی انکار کیا اور مرزا کے ہاتھ پر بیعت بھی نہیں کی۔
سنگاپور کی عدالت جب اُن سے پوچھا گیا کہ کہ وہ مرزا کو ایک عظیم مصلح
مانتے ہیں؟ تو اُنہوں نے جواباً کہا کہ" میں احمدیوں کے اِس دعوے کو تسلیم
نہیں کرتا کہ مرزا ایک عظیم مصلح تھا۔"
فاضل مصنفین کے مطابق اُن کے ترجمہ قرآن میں النسا ء کی آیت 158،157:4کا
ترجمہ بالکل مسلمان مترجمین جیسا ہے۔دوسرے یہ کہ نہ تو احمدیوں کے ذخائر آپ
کے احمدی ہونے کی تصدیق کرتے ہیں اور نہ ہی احمدیوں کا دونوں میں سے کوئی
فرقہ اُنہیں ایک احمدی کے طور پر قبول کرتا ہے۔اِس باب میں فاضل مصنفین کے
اخذ کردہ نتائج سے معلوم ہوتا ہے کہ حافظ غلام سرور پر غلطی سے احمدی مترجم
ہونے کا الزام لگادیا گیا۔جبکہ اُنہوں نے احمدیت سے تعلق کا اقرار کیا ہے
نہ ہی اُن کے ترجمہ سے ایسے شواہد ملتے ہیں کہ اُن کا اِس گروہ سے کوئی
تعلق ہے۔
فاضل مصنفین اپنےاخذ کردہ شواہد کی روشنی میں حافظ غلام سرور کو ایک
ایساسچا مسلمان قرار دیتے ہیں جس نے پوری ایمان داری سے قرآن کریم کا
انگریزی میں ترجمہ کرنے کی کوشش کی۔
یہاں یہ بات بھی توجہ طلب ہے کہ دور حاضر کے باطل فرقوں میں قرآنیات پر
زیادہ کام قادیانی جماعت نے کیا ہے۔جس کا مقصد اپنے باطل عقائد و نظریات کو
قرآن مجید سے ثابت کر کے کم زورایمان والوں کو گم راہ کرنا ہے۔چنانچہ اہل
علم کو چاہیے کہ جہاں فتنۂ قادیانیت کے خلاف وہ علمی خدمات انجام دے رہے
ہیں، وہیں اِس جماعت کی طرف سے قرآنیات پر جس انداز میں کام ہو ا ہے یا ہو
رہا ہے، اُس کا بھی تنقیدی جائزہ لیں، تاکہ کم زور ایمان والوں کو اس فتنے
سے محفوظ رکھا جا سکے۔اِس تناظر پروفیسر ڈاکٹر محمد سلطان شاہ و ڈاکٹر
خورشید احمد قادری کی کتاب" احمدی انگریزی تراجم وتفاسیر قرآن،ایک تنقیدی
جائزہ"کی اہمیت وانفرادیت اور بھی نکھر کر سامنے آتی ہے۔
قارئین محتر م!"احمدی انگریزی تراجم وتفاسیر قرآن،ایک تنقیدی جائزہ" حال ہی
میں لاہور کےمعروف اشاعتی ادارے"ورلڈ ویو پبلشرز"کے زیر اہتمام شائع ہوئی
ہے۔جسے دیکھ کر جلدبازی میں کتاب شائع کرنے یا کروانے کا تاثر
اُبھرتاہے۔ہماری رائے میں ضرورت اِس اَمر کی تھی کہ موضوع کی اہمیت کے پیش
نظر اِس کتاب کواعلیٰ کاغذ پراصل انگریزی متن کے ساتھ نہ صرف شائع کیا جاتا
بلکہ آغاز کتاب میں ایک ایسا ابتدائی تعارف جونفس مضمون کی اہمیت وافادیت
کو اجاگر کرتا کے ساتھ آخر میں ماخذ و مراجع کی ضرورت کو بھی مدنظر رکھا
جاتا تو بہت اچھا رہتا۔
پھر بھی مجموعی طور پر فاضل مصنفین کی یہ مدلل حوالہ جاتی کوشش اپنے موضوع
کی اہمیت اور انفرادیت کے پیش نظر لائق تحسین ہے۔اور پروفیسر ڈاکٹر محمد
سلطان شاہ صاحب اور پروفیسر ڈاکٹر خورشید احمد قادری صاحب ستائش و مبارکباد
کے مستحق ہیں۔اللہ کریم آپ دونوں اہل علم کی اِس کوشش و کاوش کو حضور ختمی
مرتبت ﷺکے صدقے اپنی بارگاہ میں قبول و منظور فرماکر توشہ آخرت بنائے ۔آمین
|