ایسا کہنے میں تو واقعی مضحکہ خیز لگتا ہے کہ جیب میں ایک
پیسہ بھی نہ ہو مگر خریداری آپ دھڑلے سے کر رہے ہوں ، مگر چین میں ایسا
ممکن ہے بشرطیکہ آپ کے پاس ایک اسمارٹ فون موجود ہو ،آن لائن ادائیگی کا
پلیٹ فارم فعال ہو اور بینک یا موبائل فون بیلنس میں کچھ رقم موجود ہو ۔ جی
بالکل ، یہاں رہنے والے ہم جیسے پاکستانی اب کاغذی کرنسی کا استعمال تو
تقریباً بھول ہی چکے ہیں کیونکہ جیسا دیس ویسا بھیس کے مصداق چینی شہری اب
ڈیجیٹل کیش یا جسے سادہ الفاظ میں ہم آن لائن ادائیگی کہتے ہیں ، وہ
استعمال کرتے ہیں اور کاغذی نوٹ تو شازونادر ہی کہیں دکھتے ہیں۔یقین مانیے
آپ جیب میں کرنسی رکھے بغیر پورا چین گھوم سکتے ہیں اور موبائل فون پیمنٹ
زندگی کے تمام شعبوں کا احاطہ کرتے دکھائی دیتی ہے۔ آپ ٹرانسپورٹ کرایہ،
گروسری اشیاء ،تفریحی مقامات کے ٹکٹس ،ریستوران میں کھانے کے بل سمیت ہر
قسم کی ادائیگی ڈیجیٹل طریقے سے کر سکتے ہیں۔اس وقت چین میں بچے ہوں یا
بزرگ ، مرد ہوں یا خواتین ،غرضیکہ ہر وہ بندہ جس کے پاس اسمارٹ فون موجود
ہے وہ خریداری کے دوران کیو آر کوڈ اسکین کرتے ہوئے اپنی مطلوبہ چیز خرید
سکتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ ہم جیسے غیر ملکیوں نے بھی اپنی جیب میں بٹوہ یا
کاغذی کرنسی رکھنا چھوڑ دی ہے جو پاکستان میں ایک لازمی چیز سجھی جاتی ہے۔
کچھ اعداد و شمار کی روشنی میں صورتحال کو مزید آسانی سے سمجھا جا سکتا ہے
کہ کیوں چین ایک "کیش لیس" ملک بن چکا ہے۔ابھی حال ہی میں چین کی پیمنٹ
اینڈ کلیئرنگ ایسوسی ایشن نے ایک رپورٹ میں بتایا کہ 2021 کے آخر تک ملک
میں آن لائن ادائیگی کرنے والے صارفین کی تعداد 904 ملین ہو چکی ہے ، جی
ہاں یعنیٰ نوے کروڑ چالیس لاکھ افراد ڈیجیٹل طریقے سے ادائیگی کرتے
ہیں۔حیرت انگیز طور پر یہ تعداد ملک میں انٹرنیٹ استعمال کرنے والے شہریوں
کی کل تعدادکا 87.6 فیصد بنتی ہے اور صرف ایک سال پہلے کے مقابلے میں اس
میں تقریباً 50 ملین کا اضافہ ہے۔ملک میں کیش لیس اور کارڈ لیس رجحان مسلسل
بڑھ رہا ہے، جس میں بڑے ہوٹلز کی بکنگ سے لے کر ایک چھوٹی سی سبزی فروٹ کی
دکان سے خریداری جیسے تمام شعبوں کا جامع احاطہ کیا گیا ہے۔ چینی بینکوں نے
آن لائن ادائیگی کے حوالے سے 102.28 بلین ایسے لین دین کو ہینڈل کیا جس کی
مجموعی مالیت 2,353.96 ٹریلین یوآن (تقریباً 350 ٹریلین امریکی ڈالر) رہی
ہے جبکہ گزشتہ سال کی نسبت آن لائن ادائیگی میں 32 گنا اضافہ ہوا ہے۔یہ
اعداد و شمار چین میں انٹرنیٹ ٹیکنالوجی کی زبردست ترقی اور مقبولیت کے
واضح عکاس ہیں۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ چین جہاں آبادی کے اعتبار سے دنیا کا سب سے بڑا
ملک ہے وہاں ٹیکنالوجی کی نئی جہتوں کو متعارف کروانے میں بھی چین کا کوئی
ثانی نہیں ہے۔حالیہ عرصے کے دوران چین بھر میں ٹیلی مواصلات سمیت انفارمیشن
ٹیکنالوجی کو بھرپور فروغ ملا ہے اور ملک کے تمام دیہی اور شہری علاقوں میں
ٹیکنالوجی تک رسائی کو یقینی بنایا گیا ہے۔ دسمبر 2021 تک چین میں انٹرنیٹ
استعمال کرنے والوں کی کل تعداد 1.032 بلین تک پہنچ چکی ہے جو دسمبر 2020
کے مقابلے میں 42.96 ملین زائد ہے جبکہ انٹرنیٹ کی رسائی کی شرح 73.0 فیصد
تک پہنچ گئی ہے۔ ملک میں دیہی انٹرنیٹ استعمال کرنے والوں کی تعداد 284
ملین تک پہنچ گئی ہے، اور دیہی علاقوں میں انٹرنیٹ کی رسائی کی شرح 57.6
فیصد ہے، جو دسمبر 2020 سے 1.7 فیصد زیادہ ہے۔ بزرگ شہری آن لائن معاشرے
میں اپنے انضمام کو تیز کر رہے ہیں۔ انٹرنیٹ ایپلی کیشنز کے مسلسل فروغ کی
بدولت بزرگوں میں انٹرنیٹ کی مانگ میں اضافہ ہوا ہے۔دسمبر 2021 تک، چین میں
60 سال یا اس سے زیادہ عمر کے انٹرنیٹ صارفین کی تعداد 119 ملین تک پہنچ
گئی، اور اُن میں انٹرنیٹ کی رسائی کی شرح 43.2 فیصد تک ہو چکی ہے۔چینی
نیٹیزن ہر ہفتے اوسطاً 28.5 گھنٹے آن لائن گزارتے ہیں اور 99.7 فیصد چینی
انٹرنیٹ صارفین موبائل فون پر انٹرنیٹ استعمال کرتے ہیں۔ نتیجے کے طور پر،
آن لائن خدمات کی مارکیٹ میں مسلسل توسیع دیکھی گئی ہے۔
ملک میں نیٹ ورک کا بنیادی ڈھانچہ مکمل ہو چکا ہے اور صنعتی انٹرنیٹ نے بھی
مثبت پیش رفت کی ہے۔ یوں دنیا میں سب سے بڑا ڈیجیٹل معاشرہ وجود میں آیا
ہے۔ملک بھر میں انٹرنیٹ سے وابستہ بنیادی ڈھانچے کی تعمیر میں مزید تیزی
لائی گئی ہے، انفارمیشن ٹیکنالوجی سے وابستہ مختلف نوعیت کی بنیادی خدمات
کو توسیع مل رہی ہے اور سروسز کا معیار بھی مسلسل بلند ہوتا جا رہا
ہے۔حالیہ برسوں کے دوران ملک بھر میں انفارمیشن کمیونیکیشن کے شعبے میں
نمایاں بہتری دیکھی گئی ہے۔ چین میں فور جی بیس سٹیشنز کی مجموعی تعداد
دنیا کی مجموعی تعداد کے نصف سے بھی زیادہ ہے۔اسی طرح ملک میں فائیو جی بیس
سٹیشنز کی تعداد 1.615 ملین تک پہنچ چکی ہے اور فائیو جی موبائل فون
استعمال کرنے والوں کی تعداد 400 ملین سے تجاوز کر چکی ہے۔ قابل زکر بات یہ
ہے کہ ملک بھر میں موبائل فون ادائیگیوں کی نئی معیشت نے 20 ملین سے زیادہ
ملازمتیں پیدا کی ہیں اور فائیو جی انڈسٹری میں ایپلی کیشنز کی کل تعداد 20
ہزار سے تجاوز کر چکی ہے۔ براڈ بینڈ نیٹ ورکس کی ڈاؤن لوڈ کی اوسط شرح
تقریباً 40 گنا بڑھ چکی ہے، اور موبائل نیٹ ورکس پر فی یونٹ ڈیٹا کی اوسط
قیمت 95 فیصد کم ہوئی ہے۔ یوں چین نے سماج میں معاشی اور معاشرتی ترقی کے
ساتھ ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کے گہرے انضمام کو فروغ د یا ہے جو ترقی یافتہ اور
ترقی پزیر ممالک دونوں کے لیے ایک اہم سبق ہے۔
|