معیشت خطرات کا شکار، زر مبادلہ کے ذخائر خطرناک حد تک
گرچکے ، افراط ِ زر اور مالیاتی خسارہ بے قابو ہوچکا ہے ، ملکی معیشت کو
استحکام دینے کے لیے اقدامات پر معاشی ماہرین ملے جلے رجحان کا اظہار کررہے
ہیں۔ بجٹ پیش کرنے والی کوئی بھی حکومت ہو ، وہ ایسا تاثر دیتے ہیں کہ
انہوں نے اپنی ذمہ داری پوری کردی اور یہ اعداد و شمار پیش کرکے وہ سبکدوش
ہوگئے ہیں،مگر کوئی نہیں پوچھتایہ احساس نہیں کرتا کہ یہ اہداف پورے کیوں
نہیں ہوسکے اور نہ حکومت بتاتی ہے کہ جن وجوہ کی بنا پر اہداف پورے نہ ہونے
کا اعلان کیا جارہا ہے ان پر قابو پانے اور صور ت حال بہتر بنانے کے لیے اس
کی جانب سے کیا قدامات کئے گئے۔
گذشتہ کئی برسوں کا اجمالی تجزیہ کیا جائے تو ہر دور حکومت میں قرضوں کا
بوجھ، سود کی ادائیگیاں، مہنگائی اور ٹیکسوں میں اضافہ ہی دیکھنے میں آتا
ہے ، سٹیل مل ، پی آئی اے ، ریلوے سمیت کئی ایسے سفید ہاتھی ہیں، جو ماضی
کی غلطیوں کی وجہ سے بڑا بوجھ بن چکے ہیں، معاشی ماہرین کے مطابق انہیں
اپنے پیروں پر کھڑا کرنے کے لیے جتنی رقوم دی گئیں، اس سے نئے ادارے بنائے
جاسکتے تھے۔ سرکاری سطح پر ثانوی پابندیا ں نہیں بلکہ اصل چیلنج سفید
ہاتھیوں کی نجکاری کرنے کے لیے ٹھوس فیصلوں میں سیاسی مصلحتوں کا شکارہونا
ہے ۔
ملکی اور غیر ملکی قرضوں کا بوجھ بڑھتا جارہا ہے، اس حوالے سے کسی کے بھی
دور اقتدار کا احاطہ کیا جائے تو یہی نظر آئے گا کہ کوئی حکومت زیرگردش
قرضوں کا بوجھ کم کرنے میں کامیاب نہیں ہوئی،عالمی سطح پر پٹرولیم مصنوعات
کی بڑھتی قیمتوں کی وجہ سے گیس ، بجلی کے بلوں میں اضافہ، مہنگائی کا ایک
طوفان سر اٹھائے کھڑا ہے، جو ظاہر کررہا ہے کہ عوام کڑے امتحان کے لیے تیار
رہیں، صرف توانائی سیکٹر کا زیر گردشی قرض 4300ارب تک پہنچ چکا اور خیال
رہے کہ گیس کا گردشی قرضہ صرف تین برس میں 650ارب ہوگیا جو 2018 میں 350
ارب روپے تھا۔ مملکت کی معیشت کا انحصار 60 فیصد قرضوں پر ہے، سابق حکومت
نے صرف اپنے اقتدار کی مدت میں ریکارڈ 20ہزار ارب روپے قرض لیا، سابق وزیر
خزانہ شوکت ترین نے اعتراف کیا کہ قیامِ پاکستان کے بعد ستر برسوں میں جتنا
قرضہ لیا گیا، اس کا 76 فیصد پی ٹی آئی حکومت نے لیا ۔ ان کے نقصانات سے
مفر ممکن نہیں لیکن ان معاملات کو بہتر بنانی کے لیے ملک وقوم کو آئندہ
برسوں میں شدید مشکلات کا سامنا ہوگا ۔
آج ہم اپنی معیشت کا موازنہ بھارت ، بنگلہ دیش اور افغانستان سے کرتے نظر
آتے ہیں اور جو خامی ہمارے اپنے نظام میں موجود ہے اس کی نشاندہی ہونے کے
باوجود بھی دور کرنے کی کوشش نہیں کی جاتی حالاں کہ ان پر باآسانی قابو
پایا جاسکتا ہے ، جیسا کہ حکومتی اخراجات میں کمی اور ارکان پارلیمنٹ کو دی
گئی تعیشانہ مراعات اور بیورو کریسی سمیت اقربا پروری کے تحت سہولیات فراہم
کرنے سے قومی خزانے کو بے جا بوجھ اٹھانے کے لیے قرضوں پر انحصار کرنا پڑتا
ہے ، جس کا اثر براہ راست غریب عوام اور متوسط طبقے پرپڑتا ہے۔ درآمدات کم
کرنے کے لیے مقامی طور پر اُن مصنوعات کو تیار کرنے کی سنجیدہ کوشش کرنی
چاہیے جو ملک کے قیمتی زرمبادلہ بچانے کا سبب بنتے ہیں۔ سب سے بڑا تجارتی
خسارہ برآمدات کے عدم توازن کے سبب ہوتا ہے ، جس کی وجہ سے ہمیں ہر سال
بھاری تجارتی خسارے کا سامنا کرنا پڑتا ہے جو کہ ظاہر ہے کہ ہماری معیشت
اورقومی خزانے پر بھاری بوجھ ہے۔
قومی معیشت میں توازن کے لیے سب سے بڑی کامیابی یہی قرار دی جاتی ہے کہ
برآمدات اور درآمدات میںتوازن ہو۔ بدقسمتی سے ایک زرعی ملک ہونے کے
باوجود ہم زر مبادلہ کا بڑا حصہ اُن اشیاء پر خرچ کررہے ہیں جو پہلے برآمد
کیا کرتے تھے ۔ کپاس ، چینی، گندم سمیت کئی روزمرہ استعمال کی اشیا ء
ضروریہ ہیں جو پہلے وافر مقدر میں پائی جاتی تھی اور اس سے قیمتی زر مبادلہ
بھی حاصل کیا جاتا تھالیکن ترجیحات کے فقدان نے وسائل کا بڑا حصہ اُدھر خرچ
کرنے پر مجبور کردیا ہے۔ واضح رہے کہ اجناس کی ملک میں کمی کی ایک اہم
بنیادی وجہ سمگلنگ بھی ہے جو ذخیرہ اندوزوں کے لیے سونے کی کان ثابت ہوتا
ہے۔ سمگلنگ کی وجہ سے جہاں عوام کو خوراک کی کمی سامنا کرنا پڑتا ہے تو
دوسری جانب طلب و رسد کے فرق کی وجہ سے مہنگے داموں خریداری سے اضافی بوجھ
پڑتا ہے، اس کا ایک دوسرا بڑا نقصان ملکی خزانے کو پہنچنے والا خسارہ ہے جو
ریونیو نہ ملنے کے سبب قومی خزانے کو پہنچتا ہے۔
اقتصادی ترقی کو یقینی بنانے کے لیے افراط ِ زر میں کمی ، سرمایہ کاری
بڑھانے اور پیشہ ورانہ بنیادوں پر روزگار کے مواقع مہیا کرنے پر توجہ اولین
ترجیح کے طور پر اپنانا ناگزیر ہے۔ توانائی کے بحران پر قابو پانے کے لیے
ملک میں دستیاب وسائل کو بروئے کار لانے کی ضرورت ہے۔ توانائی کے حصول کے
لیے قیمتی زر مبادلہ، جو بلند ترین شرح سو د پر حاصل کئے جاتے ہیں، دینے سے
معیشت کی کمر مزید دوہری ہوجاتی ہے۔ سرکاری ملازمین کی تنخواہوں اور پنشن
میں اضافہ ضروری ہے لیکن پرائیویٹ سیکٹر میں نجی اداروں کے ملازمین ہر
بارمحروم رہتے ہیں ، ان کے لیے خصوصی مالیاتی و صحت عامہ کی ضروریات پورا
کرنے کے لیے حکومت کو نجی شعبے کے ساتھ برابری کی سطح پر اقدامات اٹھانے
چاہئیں۔ سماجی شعبے کی ترقی ، محصولات کی وصولی کے ساتھ نظم و نسق بہتر
بنانے کے لیے ٹیکس کا نظام جدید خطوط پر استوار کرنے کی ہمیشہ اہمیت رہی ہے
کیونکہ یہی دیکھا جاتا ہے کہ اشرافیہ ٹیکس ریفارم میں بچنے کے راستے تلاش
کرلیتی ہے او ر ٹیکس دینے والے ایسے لاکھوں افراد ، جن میں زرعی آمدن سے
ٹیکس نہ دینے والے شامل ہیں، ٹیکس دائرے میں ابھی تک داخل ہی نہیں ہوئے ،
جس کے باعث غریب اور متوسط تنخواہ دار اور یومیہ اجرت دار طبقے پر مہنگائی
میں اضافے کا بوجھ منتقل ہوجاتا ہے۔
حکومت کو نئے مالی سال میں اپنے اہداف کو پورا کرنے کے لیے ایسا طریقہ کار
استعمال کرنا ہوگا جہاں رشوت لینے والے رشوت دے کر خود کو نہ بچا سکیں۔
غیرترقیاتی اخراجات میں کمی لائی جائے ، سادگی کو اپنایا جائے تاکہ اس کے
اثرات عوام تک بھی پہنچیں کہ انہیں سادگی کا درس دینے والے خود بھی سادہ
زندگی بسر کرتے ہیں ، ملک کو درپیش مالی بحران سے نجات کا اس سے بہتر طریقہ
کوئی اور نہیں ہوسکتا تاہم ضروری ہے کہ حکمران عوام سے اس کی توقع کرنے کے
بجائے پہلے خود عمل کا آغاز کریں ۔
|