جس سماج کو نشے سے پاک رہنے کیلئے اسلام نے بارہا ہدایت
جاری کی ہیں،قرآن اور حدیث میں مسلمانوں کو شراب اور نشے سے پاک رہنے
کیلئے حکم دیاگیاہے ،اُسی معاشرے کے نوجوان اس وقت ڈرگس اس حدتک عادی بن
چکے ہیں کہ ہمیں افسوس کرناپڑرہاہے کہ کیایہ وہی مسلم سماج ہے جو کبھی اپنے
اخلاق اور کردار کو بتاکر دوسری قوموں کو اسلام کی طرف مائل کرتاتھا۔دینِ
اسلام کی دعوت کیلئے قرآن کے نسخے تحفے میں دینا اور غیر مسلموں کو عیدملن
کی پارٹیوں میں بلاناہی اصل کام نہیں ہے بلکہ اپنے اخلا ق اور کردار کو
اسلامی طریقہ کارمیں ڈھالنا اصل بات ہے۔کچھ دن قبل کسی کام سے جب ہم عدالت
پہنچے تو وہاں پر دیکھاگیاکہ مسلم نوجوان کابڑا گروہ جن میں18 سے25 سال کے
درمیان والے نوجوان تھے،وہ نشے کے مقدمے میں عدالت میں پیش ہوئے تھے،جج نے
ان سے جب پوچھاکہ کیا تم لوگ اپنے جرم کا اقرارکرتے ہیں تو نوجوانوں نے
کہاکہ ہاں ہم اپنے جرم کا اقرار کرتے ہیں اس پر جج صاحب نے نوجوانوں کو
تنبیہ دیتے ہوئے اُن پر معمولی جرمانہ عائدکرتے ہوئےرہاکیا۔نوجوان عدالت سے
باہر آکر فاتحانہ اندازمیں انگلیاں دکھاکر دوسرے نوجوانوں کو یہ پیغام دے
رہے تھے کہ ہم اس معاملے سے بری ہوچکےہیں۔ ہر دن عدالتوں اور تھانوں میں
مسلم نوجوانوں کی کثیر تعداد گانجے اور دیگر نشہ آوار چیزوں کے استعمال یا
خریدوفروخت کے الزام میں پیش کئے جاتے ہیں،یہ نوجوان ہر معاملے میں جرمانہ
دیکر یاپھر پولیس کو رشوت دیکر باقاعدہ اپنی حرکتوں کوجاری رکھتے ہیں اور
ان نوجوانوں نے اس نشے کو ہی اپنی زندگی کا مقصد بنارکھاہے۔کچھ نوجوان اسے
شوق کیلئے استعمال کرتے ہیں تو کچھ نوجوان اسے باعثِ فخر سمجھتے
ہیں۔ایسانہیں ہے کہ ان معاملات کے تعلق سے مسلم قائدین،علماء اور خود ان
بچوں کے ماں باپ ناواقف ہیں،بلکہ یہ لوگ اچھی طرح سے ان حرکتوں کو جانتے
ہیں لیکن اس سلسلےمیں مناسب اقدامات اٹھاناضروری نہیں سمجھا جارہاہے۔اس
پورے معاملے میں سب سے بڑی ذمہ داری والدین کی ہوتی ہے جو اپنے بچوں کو
پاکیزہ سمجھتے ہیں یاپھر اس بات سے خاموش رہتے ہیں کہ کہیں اس سلسلے میں ان
کے بچوں کی بدنامی نہ ہوجائے اور سماج میں ان پر انگلیاں اٹھانی شروع
ہوجائے۔اس وقت مسلم سماج کے نوجوانوں کا بڑا طبقہ شراب نوشی،افیم،گانجہ اور
دوسری نشہ آوار چیزوں کا عادی ہوچکاہے ،اسی وجہ سے مسلمانوں کی ترقی
ناممکن ہوتی جارہی ہے۔مسلمانوں کے یہ نشہ آوارنوجوان نہ آخرت میں کامیابی
حاصل کررہے ہیں نہ ہی دنیا میں نیک نامی ان کے سامنے کوئی اہمیت رکھتی
ہے۔اگر واقعی میں مسلمان یہ چاہتے ہیں کہ آنے والے دنوں میں ان کی نسلیں
کامیاب ہوں تو اس تعلق سے ابھی سےاحتیاطی تدابیر اختیارکرنے ہونگے۔والدین
یقیناً اٌپنے بچوں کو جان سے زیادہ عزیز سمجھتے ہیں مگر اسی لاڈوپیارکے
پیچھے جن حالات میں ان کے بچے ہیں اس کی بھی چھان بین کرنے کی ضرورت ہے۔کچھ
عرصے پہلے تک والدین اپنے بچوں کو مغرب کے بعد گھروں سے باہر بھیجنابھی عیب
سمجھتے تھے،لیکن آج دیر رات تک بچے بازاروں،سڑکوں اور بند دکانوں کے سامنے
بیٹھے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔جس قوم کے بچے اپنی راتوں کو سڑکوں اور بند
دکانوں کے سامنے گذاریں اُن نوجوانوں سے دن کے اُجالے میں کامیابی کی
کیااُمید کی جاسکتی ہے؟۔اگر واقعی میں والدین اپنے بچوں کو تباہی کی راہ سے
بچانا چاہتے ہیں تو ان پر کڑی نظر رکھیں،ان کی تربیت کریں اور انہیں آوارہ
گھومنے سے روکیں۔اگر کسی وجہ سے بچہ نشے کا عاد ی ہوجاتاہے تو اس تعلق سے
بلاتاخیر سائیکولوجسٹ یاپھر ماہرین و ڈاکٹروں سے رجوع کرتے ہوئے انہیں
سیدھے راستے پر لانے کی پہل کریں۔بھلے اس کیلئے آپ کو کچھ دن پریشانیوں کا
سامناکرناکیوں نہ پڑے۔جب گانجے کاشکار سنجے دتھ کو ہی اس کے باپ سنیل دتھ
نے اسے سیدھ راستے پرلانے کیلئے دن رات ایک کئے تھے اور اپنی عزت کو بچانے
کی خاطر اس کی غلطیوں کو چھپانے کے بجائے عام کرتے ہوئے اصلاح کادروازہ
کھٹکھٹایاتھاتو عام نوجوانوں کی کیا حیثیت ہے اور عام مسلمان اس میں
شرمندگی سے کیوں بچیں۔وقت رہتے ہوئے اپنے بچوں کی اصلاح کریںا ور قوم وملت
کو تباہ ہونے سے بچائیں۔
|