امریکہ کیلئے سعودی عرب کتنا اہم ۰۰۰ ؟ صدر جوبائیڈن کا دورہ سعودی عرب جولائی میں متوقع

امریکی صدر جوبائیڈن 13؍ جولائی تا 16؍ جولائی2022 میں اسرائیل اور سعودی عرب کا دورہ کرنے والے ہیں انکا یہ دورہ کافی اہمیت کا حامل سمجھا جارہا ہے ۔ یہ پہلی مرتبہ ہوگا کہ امریکی صدر اسرائیل سے براہ راست ریاض جارہے ہیں ۔یہاں یہ بات واضح رہے کہ سعودی عرب اور اسرائیل کے درمیان کوئی سفارتی تعلقات نہیں ہیں۔ذرائع ابلاغ کے مطابق سعودی ایوان شاہی نے کہا ہے کہ خادم حرمین شریفین شاہ سلمان بن عبد العزیز کی دعوت پر امریکی صدر جو بائیڈن سعودی عرب کا دورہ کریں گے۔ وائٹ ہاؤس نے بھی منگل کے روز امریکی صدر جو بائیڈن کے مشرق وسطیٰ کے پہلے دورے کی تفصیلات کی تصدیق کر دی ہے، جس کے مطابق وہ اسرائیل سے براہِ راست سعودی عرب جائیں گے۔’دورے کے دوران وہ شاہ سلمان بن عبد العزیز خادم حرمین شریفین اور ولیعہد شہزادہ محمد بن سلمان سے ملاقات کر کے دونوں ممالک کے مفادات کے تحفظ اور درپیش چیلنجز پر تبادلہ خیال کرینگے۔‘ سعودی ایوان شاہی کے مطابق ’امریکی صدر کے دورے کے ایجنڈے میں دوسرے روز سربراہ کانفرنس کو شامل کیا گیا ہے جس میں شاہ سلمان نے خلیجی ممالک کے سربراہان کے علاوہ شاہِ اردن، مصری اور عراقی صدور کو بھی مدعو کیا ہے۔‘’یہ سربراہ کانفرنس 15 جولائی کو منعقد ہوگی جس میں خطے کو درپیش اہم امور اور مسائل پر غور و خوض ہوگا۔‘ عرب نیوز کے مطابق وائٹ ہاؤس سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ ’صدر، شاہ سلمان کی قیادت اور ان کی دعوت کو سراہتے ہیں۔ وہ سعودی عرب کے اہم دورے کے منتظر ہیں۔ سعودی عرب تقریباً آٹھ دہائیوں سے امریکہ کا اسٹیرٹیجک شراکت دار ہے۔‘وائٹ ہاؤس نے مزید کہا ہے کہ صدر جو بائیڈن سعودی عرب دورے کے دوران دوطرفہ تعلقات اور علاقائی امور پر بات چیت کریں گے۔ اس میں یمن میں اقوام متحدہ کی ثالثی میں ہونے والی جنگ بندی کی حمایت بھی شامل ہے، یہ سات سال قبل شروع ہونے والی جنگ میں پرامن دور ہے۔‘بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ امریکی صدر نئے انفراسٹرکچر اور موسمیاتی تبدیلی سے متعلق اقدامات سمیت علاقائی معیشت اور سلامتی کے شعبوں میں تعاون کو وسیع کرنے کے امکانات پر بھی بات چیت کریں گے۔اس کے علاوہ ’ایران کی جانب سے درپیش خطرات کو روکنا، انسانی حقوق، عالمی سطح پر توانائی اور غذائی تحفظ کو یقینی بنانا بھی بات چیت کا حصہ بتایا گیا ہے۔صدر جو بائیڈن سعودی عرب روانگی سے قبل مغربی کنارے کا بھی دورہ کریں گے جہاں وہ فلسطینی صدر محمود عباس سے ملاقات کریں گے۔ بائیڈن دو ریاستی حل کے لیے اپنی حمایت کا اعادہ کر چکے ہیں اور ان کی انتظامیہ فلسطینیوں کے ساتھ امریکی تعلقات کو بحال کرنے کا ارادہ رکھتی ہے کیونکہ سابق امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کے دور میں فلسطین اور امریکہ کے درمیان تعلقات خراب ہوچکے تھے۔صدر امریکہ جوبائیڈن کا دورہ کس مقصد کے تحت ہورہا ہے یہ تو مستقبل قریب میں عیاں ہوجائے گا لیکن فی الحال حالات کا تقاضا ہے کہ معاشی استحکام اور امن و آمان کی فضا بحال کرنے کیلئے عالمی سطح پر سب متحد ہوجائیں ۔

قارئین کرام ! حالات انسان کو وقت کے تقاضے کے مطابق بدلنے پر مجبور کردیتے ہیں چاہے وہ اپنے لئے ہو یا قوم و ملک کیلئے۰۰۰ مشرقِ وسطیٰ خصوصاً سعودی عرب امریکہ کیلئے کتنا اہم اور کارآمد ہے اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہیکہ امریکی صدر جوبائیڈن جنہوں نے منصبِ صدارت پر فائز ہونے سے قبل اپنی انتخابی مہم کے دوران اس عزم کا اظہار کیا تھا کہ وہ سعودی عرب کو الگ تھلگ کردینگے۔ جوبائیڈن اپنی انتخابی مہم کے دوران اس بات کا بھی اشارہ کیا تھاکہ سعودی صحافی جمال خاشقجی کے استنبول سفارت خانے میں قتل کی ذمہ داری سعودی عرب پر عائد کرینگے۔ گذشتہ سال فبروری میں سامنے آنے والی امریکی انٹیلیجنس ایجنسی کی ایک رپوٹ میں کہا گیا تھاکہ ولیعہد شہزادہ محمد سلمان نے خود سعودی عرب کی طاقت کے ناقد صحافی جمال خاشقجی کے قتل کے منصوبے کی منظوری دی تھی ۔ محمد سلمان نے خاشقجی کے قتل کا حکم دینے الزامات کو مسترد کردیا تھا، تاہم اس کے بعد سے امریکہ اور سعودی عرب کے تعلقات بدستور کشیدہ رہے ہیں۔اسی طرح یمن میں حوثیوں کی بغاوت کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال سے نمٹنے کیلئے سعودی عرب کی قیادت میں متحدہ ممالک کی جانب سے عبدربہ منصورہادی صدر یمن کی درخواست پر حوثی بغاوت کو کچلنے کیلئے فضائی و زمینی کارروائیوں میں معصوم بچوں اور بے قصور لوگوں کی ہلاکت پر بھی جوبائیڈن نے ناراض تھے ۔ ذرائع ابلاغ نیوز ویک کی ایک رپورٹ کے مطابق جوبائیڈن نے اکٹوبر2020میں کہا تھا کہ :’’ بائیڈن اور ہیرس انتظامیہ کے دور میں ہم سعودی عرب کے ساتھ اپنے تعلقات پر نظر ثانی کرینگے، یمن میں سعودی جنگ کیلئے امریکی حمایت کو ختم کردینگے، اور اس بات کو یقینی بنائیں گے کہ ہتھیار بیچنے یا تیل خریدنے کیلئے امریکہ کو اپنی اقدار پر سمجھوتہ نہ کرنے دیا جائے‘‘۔ لیکن آج امریکی صدر جوبائیڈن کی حکمت عملی میں تبدیلی نمایاں نظر آنے لگی ہے۔ جوبائیڈن کی انتخابی مہم کے دوران سعودی عرب کے خلاف کہے جانے الفاظ سعودی عرب کے حکمرانوں کو بھی اتنے ناپسندیدہ لگے کہ انہوں نے بھی امریکی صدرجوبائیڈن انتظامیہ سے دوری اختیار کرنے کو ترجیح دی ۔ سعودی ولیعہد نے بائیڈن سے بات کرنے سے انکار کردیا تھا ، بی بی سی کی ایک رپورٹ کے مطابق رواں سال مارچ میں وال اسٹریٹ جرنل نے اپنی ایک رپورٹ میں دعویٰ کیا تھا کہ وائٹ ہاؤس نے صدر بائیڈن کی سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے رہنماؤں سے فون پر بات کرانے کی کوشش کی تھی لیکن یہ کوشش ناکام ہوگئی ۔بتایا جاتا ہیکہ سعودی ولیعہد شہزادہ محمد سلمان اور متحدہ عرب امارات کے اُس وقت کے صدرمرحوم شیخ محمد بن زاید النہیان نے جوبائیڈن کے ساتھ مذاکرات کی امریکی پیشکش کو مسترد کردیا تھا۔ البتہ 9؍ فبروری کو سعودی فرمانروا شاہ سلمان بن عبدالعزیز سے امریکی صدر جوبائیڈن کی بات ہوئی تھی۔

امریکہ ،سعودی عرب سے تعلقات بہتر بنانے کی سعی کرنے کی اصل وجہ روس کی جانب سے یوکرین پر حملے کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال ہے، توانائی کی قیمتوں میں بے تحاشہ اضافے نے جوبائیڈن انتظامیہ کو احساس دلایا کہ سعودی عرب کے ساتھ کشیدگی کو دور کرنا اشد ضروری ہے ۔ واضح رہیکہ گذشتہ 14سال میں پہلی بار خام تیل کی قیمت 130ڈالر فی بیرل تک پہہنچ چکی ہے۔ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات ہی وہ ممالک ہیں جو لاکھوں بیرل تیل کی پیداوار بڑھاسکتے ہیں۔ذرائع ابلاغ کے مطابق جوبائیڈن انتظامیہ کے متعدد عہدیداروں نے سعودی عرب سے کئی بار تیل کی پیداوار بڑھانے کیلئے کہا لیکن انکی یہ کوششیں ناکام رہیں۔ اس سلسلہ میں بتایاجاتاہیکہ وائٹ ہاؤس میں مشرقِ وسطیٰ کے امور کیلئے مقرر اعلیٰ عہدیدار بریٹ میک گرک، امریکی توانائی کے مشیر ایمز ہوچسٹین نے بھی سعودی عرب کا دورکیا لیکن وہ بھی خالی ہاتھ واپس ہوئے۔ تاہم سعودی قیادت میں تیل پیداکرنے والے ممالک کے گروپ اوپیک پلس نے اعلان کیا ہیکہ وہ اس موسم گرما میں پیداوار میں 50فیصد اضافہ کرنے کیلئے تیار ہیں۔ اب دیکھنا ہیکہ امریکی صدر جوبائیڈن کا دورہ اسرائیل اور سعودی عرب کتنا کامیاب ہوتا ہے، کیونکہ فلسطین اور اسرائیل کے درمیان دوریاستی حل اہم ہے، اسرائیل بھی چاہتا ہیکہ وہ مشرقِ وسطیٰ ممالک کے ساتھ اپنے تعلقات آگے بڑھائے۔ امریکی صدر کا دورہ اسرائیل ، فلسطین اور پھر مشرقِ وسطی کے درمیان اہم حیثیت رکھتا ہے لیکن ان سب سے زیادہ اہم امریکہ کیلئے تیل کی پیداوارمیں اضافہ دکھائی دے رہا ہے کیونکہ فبروری میں روس نے یوکرین پر جو فضائی حملوں کا آغاز کرکے طبل جنگ بجایا تھا وہ آج بھی جاری ہے جس کی وجہ سے عالمی سطح پر مہنگائی میں بے تحاشہ اضافہ ہوچکا ہے اور حالات مزید بگڑنے کے امکانات کو مسترد نہیں کیا جاسکتا۔ سعودی عرب ، متحدہ عرب امارات اور دیگر خلیجی ممالک عالمی سطح پر تیل اور گیس کی پیداوار میں اضافہ کرکے معیشت کو کچھ سنبھالا دے سکتے ہیں ۔ خیر امریکہ اور سعودی عرب کے درمیان پھر ایک مرتبہ تعلقات بہتر ہوتے محسوس ہورہے ہیں ۔

ترقی پذیر ممالک کی اقتصادی تعاون تنظیم D-8کا استنبول میں اجلاس
عالمی سطح پر ہر ملک اپنی معیشت کی بہتری اور عوام کی خوشحالی کیلئے ایک دوسرے کا تعاون کرنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ دنیا میں کئی ممالک اپنی اپنی حیثیت اور تعلقات کے بنیاد پر تنظیمیں ، آرگنائزیشنس وغیرہ بنالئے ہیں اسی طرح ترقی پذیر ممالک کی اقتصادی تعاون تنظیم ’’ڈی۔ایٹ‘‘ کا 25واں اجلاس 16؍ جون جمعرات سے استنبول میں شروع ہورہا ہے ۔ اجلاس کی افتتاحی تقریب سے وزیر تجارت مہمت مْش ، ترک ایوان تجارت کے صدر رفعت حصار جیک اولو،نائیجیریا کے وزیر خارجہ زبیر دادا،پاکستان کے امورسرمایہ کاری کے وفاقی وزیر چوہدری سالک حسین سمیت ڈی 8 کے سیکریٹری جنرل عیسیاکا عبدالقادر امام خطاب کریں گے۔اجلاس میں تنظیم کے رکن ممالک کے سرمایہ کاری وفود اور تجارتی و صنعتی ایوانوں کے نمائندے بھی شامل ہونگے۔ترکی ،بنگلہ دیش،انڈونیشیا،ایران، مصر،ملائیشیا ،نائیجیریا اور پاکستان ڈی -8 کے رکن ہیں۔موجودہ حالات میں ڈی ۔8 ممالک کا یہ اجلاس اہمیت اس لئے رکھتا ہے کہ کیونکہ روس کی جانب سے یوکرین پر حملے بعد عالمی سطح پر جو صورتحال پیدا ہوئی ہے یہ خطرناک ہوتی جارہی ہے ۔ اب دیکھنا ہیکہ ان ممالک کے درمیان کس قسم کی بات چیت ہوتی ہے اور کیا فیصلے لئے جاتے ہیں۔

ایران کے خلاف انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی کی وارننگ
ایران نے جس طرح گذشتہ دنوں جوہری سرگرمیوں پر نظر رکھنے والے کیمرے ہٹادئے ہیں اس سے اس کے خلاف پھر آواز اٹھنے لگی ہیں۔ ذرائع ابلاغ کے مطابق انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی نے ایران پر زور دیا کہ وہ ایسے بحران سے بچنے کیلئے ابھی دوبارہ مذاکرات شروع کرے جو 2015 کے جوہری معاہدے کی بحالی کو انتہائی مشکل بنا سکتا ہے۔فرانسیسی خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کے مطابق ایران نے رواں ہفتے کچھ کیمرے ہٹا دیے تھے جو اس مقصد کیلئے نصب کیے گئے تھے تاکہ بین الاقوامی معائنہ کار جوہری سرگرمیوں پر نظر رکھ سکیں۔ ’ایران کا مانیٹرنگ کیمرے ہٹانا جوہری معاہدے کی بحالی کیلئے مہلک دھچکا بتایا جارہا ہے‘۔انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی کے ڈائریکٹر جنرل رافیل گروسی نے اتوار کو امریکی نشریاتی ادارے سی این این پر نشر ہونے والے ایک انٹرویو میں کہا کہ ’27 مانیٹرنگ کیمروں کو ہٹا دیا گیا ہے۔ انہوں نے اسے ’انتہائی سنگین اقدام‘ قرار دیا۔انہوں نے کہا کہ حالیہ تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ یہ کبھی بھی اچھی بات نہیں ہے کہ بین الاقوامی انسپکٹرز کو یہ کہنا شروع کر دیا جائے کہ گھر جاؤ۔ چیزیں بہت زیادہ پریشان کن ہو جاتی ہیں۔‘رافیل گروسی نے کہا کہ وہ اپنے ایرانی ہم منصبوں سے کہہ رہے تھے کہ ’ہمیں اب بیٹھنا ہے، ہمیں صورتحال کا ازالہ کرنا ہے، ہمیں مل کر کام جاری رکھنا ہے۔‘انہوں نے کہا کہ ’ایران کے پاس اعتماد حاصل کرنے کا واحد راستہ یہ ہے کہ آئی اے ای اے کے معائنہ کاروں کو وہاں موجود رہنے کی اجازت دی جائے‘۔ گروسی نے کہا کہ نگرانی کے کیمروں کے بغیر ان کی ایجنسی جلد ہی یہ اعلان کرنے سے قاصر ہو جائے گی کہ آیا ایرانی جوہری پروگرام پرُامن ہے جیسا کہ تہران نے بارہا اصرار کیا ہے یا ایران ایٹم بم بنا رہا ہے۔گروسی نے کہا کہ ’یہاں تک کہ اگر ایرانی چند مہینوں میں کیمروں کو دوبارہ فعال کر دیتے ہیں، اس دوران وہ جو بھی کام کریں گے وہ خفیہ رہے گا اور ممکنہ طور پر کسی بھی معاہدے کو بیکار کر دے گا۔‘ ان کے بقول ایران کے حالیہ اقدام نے ’معاہدے کی طرف واپسی کا راستہ انتہائی مشکل بنا دیا ہے۔‘اس طرح اگر اب ایران ان کیمروں کو دوبارہ نصب بھی کرتا ہے تو شاید یہ اس کے لئے فائدہ مند ثابت نہ ہوگا ۔ کیونکہ رافیل گروسی نے جو بیان دیا ہے وہ اسی کی جانب اشارہ کرتا ہے ، اس کے باوجود ایران پر زور دیا جائے گا کہ وہ ان کیمروں کو فوراً دوبارہ نصب کریں۔ اب دیکھنا ہیکہ عالمی طاقتیں ایران کے خلاف کس قسم کا اعلان کرتی ہیں۰۰۰
****

 

Dr Muhammad Abdul Rasheed Junaid
About the Author: Dr Muhammad Abdul Rasheed Junaid Read More Articles by Dr Muhammad Abdul Rasheed Junaid: 358 Articles with 255469 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.