قُرآن اور دعوتِ مُوسٰی و عداوتِ فرعون !!

#العلمAlilmعلمُ الکتابسُورَةُالذاریات ، اٰیت 38 تا 46 اخترکاشمیری
علمُ الکتاب اُردو زبان کی پہلی تفسیر آن لائن ہے جس سے روزانہ ایک لاکھ سے زیادہ اَفراد اِستفادہ کرتے ہیں !!
براۓ مہربانی ہمارے تمام دوست اپنے تمام دوستوں کے ساتھ قُرآن کا یہ پیغام زیادہ سے زیادہ شیئر کریں !!
اٰیات و مفہومِ اٰیات !!
و
فی موسٰی
اذ ارسلنٰه الیٰ
فرعون و سلطٰن
مبین 38 فتولّٰی برکنهٖ
و قال سٰحر او مجنون 39
فاخذنٰه و جنودہٗ فنبذنٰھم فی
الیم و ھو ملیم 40 و فی عاد اذ
ارسلنا علیھم الریح العقیم 41 ما تذر
من شئی اتت علیه الّا جعلته کالرمیم 42
و فی ثمود اذ قیل لہم تمتعوا حتٰی حین 43
فعتوا عن امر ربھم فاختہم الصعقة و ھم ینظرون
44 فما استطاعوا من قیام وما کانوا منتصرین 45 و
قوم نوح من قبل انھم کانوا قوما فٰسقین 46
اگر تُم کُھلے دل سے ہمارے قانُونِ مکافات کے تاریخی سلسلے پر ایک نظر ڈالو گے تو تُم بچشمِ خود دیکھ لو گے کہ ہم نے مُوسٰی کو اپنے جس جوہرِ فرزاندگی کا حامل بنا کر فرعون کے پاس بہیجا تھا فرعون نے مُوسٰی کے اُس جوہرِ فرزانگی کو ایک ساحرانہ دیوانگی کہہ کر رَد کر دیا تھا اور ہم نے اِس جُرم کی پاداش میں فرعون و سپاہِ فرعون کو غرق کر دیا تھا کیونکہ وہ اِس سرکشی کے بعد ہماری اس سزا کا مُستحق ہو چکا تھا ، اسی طرح جب قومِ عاد نے ہمارے نبی ھُود کی دعوتِ حق کو رَد کیا تھا تو ہم اُس قوم پر بھی اپنے عذاب کی کُچھ ایسی ہی تند و تیز ہوا چلادی دی تھی کہ اُس ہوا نے اُس قوم کے وجُود کو بوسیدہ ہڈیوں کی طرح پیس کر رکھ دیا تھا اور اسی طرح جب قومِ ثمُود نے ہمارے نبی صالح کی دعوتِ حق کی نفی کی تھی تو کُچھ دن کی مُہلت کے بعد اُس قوم کو بھی ہم نے اپنی وہ کڑک دار آواز سنا دی تھی کہ جس کے بعد وہ قوم اپنے پیروں پر بھی کھڑی نہ ہو سکی اور ہم سے ہمارے کیۓ کا بدلہ بھی نہ لے سکی اور اُس قوم سے پہلے قومِ نُوح کے فاسق لوگوں کا بھی ہمارے ہاتھوں سے ایسا ہی عبرتناک اَنجام ہوا تھا !
مطالبِ اٰیات و مقاصدِ اٰیات !
موجُودہ اٰیات سے پہلی اٰیات میں تاریخِ رَفتہ کے حوالے سے پہلے حدیثِ ابراہیم و ضیافتِ ابراہیم اور بعد ازاں قومِ لُوط کی تباہی کا جو ذکر کیا گیا تھا اُس سلسلہِ کلام کے اختتام کے بعد موجُودہ اٰیات میں بھی اُسی تاریخِ رَفتہ کے حوالے سے فرعون و سپاہِ فرعون کی اُس غرقابی کا ذکر کیا گیا ہے جس غرقابی کا باعث فرعون و سپاہِ فرعون کی طرف سے پہلے مُوسٰی علیہ السلام پر جادُوگر ہونے کا الزام عائد کرنا اور پھر اُن کی دعوتِ حق کو رَد کرنا کرنا تھا جس کی پاداش میں فرعون و سپاہِ فرعون کو سمندر میں غرق کیا گیا تھا ، اِس سُورت کی اِن اٰیات میں فرعون و سپاہِ فرعون پر نازل ہونے والے اِس بڑے عذاب کے بعد عاد و ثمُود پر آنے والے اُس عذاب کی وہ رُوداد بھی بیان کی گئی ہے جس رُوداد کے مطابق قومِ عاد و ثمُود بھی اسی طرح کے ایک عذاب کی زَد میں آکر تباہ و برباد ہوئی تھی اور سلسلہِ کلام کے آخر میں انسانی تاریخ کے اُس سب سے پہلے اور اُس سب سے بڑے آبی عذاب کا ذکر بھی کیا گیا ہے جو آبی و سیلابی عذاب قومِ نُوح پر آیا تھا ، قومِ نُوح و قومِ فرعون پر آنے والے دونوں عذاب اگرچہ آبی و سیلابی عذاب تھے لیکن اُن دونوں کی عملی صورت میں یہ فرق تھا کہ پہلی قوم پر جو آبی و سیلابی عذاب آیا تھا اُس عذاب کے لیۓ کُچھ پانی تو آسمان سے بارش کی صورت میں برسایا گیا تھا اور کُچھ پانی زمین سے نکال کر اُس آسمانی پانی میں ملایا گیا تھا اور اِس طرح زمینی و آسمانی پانی کے مُشترکہ عمل سے وہ سیلابِ عظیم بنایا گیا تھا جس سیلاب عظیم میں قومِ نُوح غرق کی گئی تھی جبکہ فرعون و سپاہِ فرعون کو آبِ سمندر میں غرق کرکے اُس کے اُس اَنجامِ عبرت تک پُہنچایا گیا تھا جس اَنجامِ عبرت کے وہ مُستحق ہو چکے تھے ، اِن دو بڑی اقوام پر نازل ہونے والی اِس آبی و سیلابی عذاب کے ضمن جن دُوسری دو اقوام کا ذکر کیا گیا ہے اُن دو اقوام میں سے ایک قوم ایک خوفناک آندھی سے ہلاک کی گئی تھی اور دُوسری قوم بجلی کی ایک کڑک دار آواز سناکر ہی تباہ و برباد کردی گئی تھی ، قُرآنِ کریم میں اِس سُورت کے اِس مقام کے علاوہ جس سُورت کے جس مقام پر بھی اقوامِ عالَم پر آنے والے اِس عذاب کا یہ مضمون آیا ہے وہ انسان کو یہ باور کرانے کے لیۓ آیا ہے کہ انسان کے پاس عملِ خیر و عملِ شر کی اَنجام دہی کے لیۓ ایک ہی مُجرد ارادہ ہے جس ارادے کے تحت انسان اپنے کسی فعال لَمحے میں کوئی عملِ فتنہ و شر اَنجام دیتا ہے اور اِس خیال سے اَنجام دیتا ہے کہ اُس سے اُس کے اِس عمل کی باز پرس کرنے والا کوئی نہیں ہے اور وہ اپنے اِس عمل کے ہر جائز و ناجائز استعمال کے لیۓ ہر طرح سے آزاد ہے لیکن انسان کے اِس عملِ شر کی عملی گرفت کے لیۓ اللہ تعالٰی کا وہ ہمہ وقتی نظام ہمہ وقت مُتحرک ہوتا ہے جو ہر انسان کے ہر عمل کی بر وقت گرفت کرتا ہے ، قُدرت نے اپنے اِس ہمہ وقتی نظامِ عمل کو مُتحرک و فعال رکھنے کے لیۓ عالَمِ فطرت کے تمام آبی و بادی اور ناری و خاکی ذرائع احتساب ہمہ وقت مُتحرک و فعال رہتے ہوۓ انسان کے ہر مُثبت و مَنفی عمل کے وہ مُثبت و مَنفی نتائجِ عمل پیدا کرتے رہتے ہیں جن کی بنا پر انسان کی جزا و سزا کے فیصلے مُسلسل صادر ہوتے رہتے ہیں اور اِنہی فیصلوں کے مؤثر بالتاثیر ہونے کا نام وہ مکافاتِ عمل ہے جس مکافاتِ عمل سے زمین کا کوئی ذَرہ و آفتاب اپنے کسی عمل کے رَدِ عمل سے بچ نہیں سکتا اِس لیۓ قُرآن اپنی اٰیاتِ نازلہ میں انسان کو بار بار یہ یاد دلاتا رہتا ہے کہ تُو اپنی جس بَد عملی کے تعاقب میں نکلا ہواہے تیری وہ بد عملی بھی تیری موت کی صورت میں تیرے تعاقب میں نکلی ہوئی ہے اِس لیۓ اگر تُونے بچنا ہے تو عذاب آنے سے پہلے ہی بچ جا ورنہ اُس بدترین موت کو برداشت کرنے کے لیۓ تیار ہو جا جس بدترین موت میں تیرے ساتھ تیرے اَحباب نہیں ہوں گے بلکہ تیرے ساتھ تیرے وہ عذاب ہی عذاب ہوں گے جن کی پہلی تاریخی مثال قومِ نُوح پر نازل ہونے والا عذاب ہے ، دُوسری تاریخی مثال قوم عاد پر نازل ہونے والا عذاب ہے ، تیسری تاریخی مثال قومِ ثمود پر نازل ہونے والا عذاب ہے اور چوتھی تاریخی مثال فرعون و سپاہِ فرعون پر نازل ہونے والا عذاب ہے ، اِن اقوام کی تاریخِ عبرت اور اِن کا ہر نقشِ عبرت تیرے سامنے ہے اور تُجھ پر تیرے اعمال کی پاداش میں آنے والا وہ متوقع عذاب بھی تیرے سامنے ہے جو تُجھ کو نظر نہیں آتا مگر تُو اُس کو نظر آتا ہے !!
 

Babar Alyas
About the Author: Babar Alyas Read More Articles by Babar Alyas : 875 Articles with 454862 views استاد ہونے کے ناطے میرا مشن ہے کہ دائرہ اسلام کی حدود میں رہتے ہوۓ لکھو اور مقصد اپنی اصلاح ہو,
ایم اے مطالعہ پاکستان کرنے بعد کے درس نظامی کا کورس
.. View More