عید عربی زبان کے لفظ " عود " سے ماخوذ ہے جس کے معنی " لوٹنا یا پلٹ کر
آنا ہے " ، مطلب وہ "دن جو ڈھیر ساری خوشیوں سمیت بار بار لوٹ کر آئے" ، یہ
عید کا لفظی اور جنرل تعریف ہے ۔۔۔۔!!
عید کی دو اقسام ہیں
1۔ عید الفطر ( چھوٹی عید )
2۔ عید الاضحی ( بڑی عید )
عید الفطر رمضان شریف کے 30 روزوں کے بعد منائی جاتی ہے ، فطر کا معنی
کھولنا کے ہیں اور دوسری عید جس کا نام عید الاضحٰی ہے ماہ ذی الحج کی
دسویں تاریخ کو منائی جاتی ہے یہ عیدالفطر کے دو ماہ اور دس دن بعد آتی ہے
اس سے ایک دن پہلے تمام دنیا کے صاحب توفیق لاکھوں مسلمان مکہ مکرمہ میں حج
کا فریضہ ادا کرتے ہیں اور وہیں عید کا دن بھی مناتے ہیں اس عید کے دن
مسلمان بھیڑ، بکری، گائے، بیل یا اونٹ وغیرہ کی قربانی کرتے ہیں اسی لیے اس
عید کو عید قرباں، یا بقرعید، یا عیدالاضحیٰ کہتے ہیں۔ "اضحیٰ" کے معنی
قربانی کے ہیں ۔۔۔۔!!
در حقیقت یہ عید حضرت ابراہیم علیہ سلام کی قربانی کی یاد میں منائی جاتی
ہے ۔۔۔۔!!
حضرت ابراہیم نے خواب میں دیکھا کہ وہ اپنے بیٹے (اسماعیل)کو ذبح کر رہے
ہیں چنانچہ اللہ تعالیٰ کے حکم کی تعمیل کیلئے حضرت ابراہیم نے بیٹے کو
بتایا کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے تمہیں ذبح کرنے کا حکم دیا ہے تو فرمانبردار
بیٹے کا جواب تھا۔ ترجمہ : "ابا جان! جو کچھ آپ کو حکم دیا جا رہا ہے اسے
کر ڈالئے انشاء اللّٰہ آپ مجھے صبر کرنیوالوں میں پائینگے " بیٹے کے جواب
کے بعد حضرت ابراہیم جب مکہ مکرمہ سے انہیں ذبح کرنے کیلئے لیکر چلے تو
شیطان نے منیٰ میں تین جگہوں پر انہیں بہکانے کی کوشش کی جس پر انہوں نے
اسے سات کنکریاں ماریں جس کی وجہ سے وہ زمین میں دھنس گیا۔ حضرت ابراہیم نے
بیٹے کو منہ کے بل زمین پر لٹایا، چُھری تیز کی، آنکھو ں پر پٹی باندھی اور
اس وقت تک چُھری بیٹے کے گلے پر چلاتے رہے جب تک اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ
صدا نہ آئی۔ "اے ابراہیم! تُو نے خواب سچ کر دکھایا ہم نیک لوگوں کو ایسا
ہی بدلہ دیتے ہیں۔" چنانچہ حضرت اسماعیل کی جگہ جنت سے مینڈھا بھیج دیا گیا
جسے حضرت ابراہیم نے ذبح کیا۔
اس واقعہ کے بعد اللہ تعالیٰ کی رضا کیلئے جانوروں کی قربانی کرنا خاص
عبادت میں شمار ہو گیا۔ چنانچہ حضور اکرم کی اُمت کیلئے بھی ہر سال قربانی
نہ صرف مشروع کی گئی بلکہ اسے اسلامی شعار بنایا گیا اور اتباع ابراہیم میں
حضور اکرم کے طریقہ پر جانوروں کی قربانی کا سلسلہ آج بھی جاری ہے ۔۔۔۔!!
قربانی کے گوشت کو آپ خود کھا سکتے ہیں، رشتہ داروں کو کھلا سکتے ہیں اور
غرباءو مساکین کو بھی دے سکتے ہیں۔ علماءکرام نے بعض آثار کی وجہ سے تحریر
کیا ہے کہ اگر گوشت کے تین حصے کر لئے جائیں تو بہتر ہے۔ ایک حصہ اپنے لئے،
دوسرا رشتہ داروں کیلئے اور تیسرا غرباءو مساکین کیلئے، لیکن اس طرح تین
حصے کیے جانے ضروری نہیں ہیں ۔۔۔۔!!
قربانی کے وقت حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل کے عمل کو یاد کریں جس میں
دونوں اللہ کے حکم پر قربانی دینے کیلئے تیار ہو گئے، لہٰذا ہم بھی احکام
الٰہی پر عمل کرنے کیلئے اپنی جان و مال اور وقت کی قربانی دیں۔ قربانی کی
اصل روح یہ ہے کہ مسلمان اللہ کی محبت میں اپنی تمام نفسانی خواہشات کو
قربان کر دے لہٰذا من چاہی زندگی چھوڑ کر رب چاہی زندگی گزارنی چاہئے۔ حضرت
ابراہیم علیہ السلام کی زندگی میں صرف یہی ایک عظیم واقعہ نہیں بلکہ انہوں
نے پوری زندگی اللہ تعالیٰ کی اطاعت و فرمانبرداری میں گزاری جو حکم بھی
اللہ تعالیٰ کی طرف سے ملا فوراً اس پر عمل کیا۔ جان ، مال، ماں باپ، وطن
اور لختِ جگر غرض سب کچھ اللہ کی رضا میں قربان کر دیا ہمیں بھی اپنے اندر
یہی جذبہ پیدا کرنا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ کا جو حکم بھی سامنے آئے اس پر ہم
بخوشی عمل کریں ، اللّٰہ پاک ہم سب کو عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین
ثم آمین ۔۔۔۔!!
|