چیف آف آرمی اسٹاف جنرل اشفاق
پرویز کیانی کی صدارت میں کور کمانڈر کانفرنس میں کراچی میں امن و امان کی
صورت حال اور اس کے ملکی معیشت پر اثرات پر تشویش کا اظہار کیا گیا اور اس
امید کا اظہار کیا کہ حال ہی میں حکومت کی طرف سے اٹھائے گئے اقدامات سے
کراچی میں امن و امان کی صورت حال بہتر ہو گی۔ فرانسیسی خبررساں ایجنسی کے
مطابق پاک فوج نے پہلی بار کراچی میں لسانی و سیاسی تشدد پر تشویش کا اظہار
کیا ہے ۔
گزشتہ دو ماہ سے روشنیوں کے شہر کراچی میں موت کا عفریت رقص کررہا ہے۔ ہر
روز دل دہلا دینے والے واقعات منظر عام پر آتے ہیں۔جن کی وجہ سے شہر میں
تجارتی سرگرمیاں ماند پڑ چکی ہیں ۔ حتیٰ کہ لوگوں کو کھانے پینے کی اشیاءکے
حصول میں شدید مشکلات پیش آرہی ہیں۔ جنوری سے اب تک بدامنی ، ٹارگٹ کلنگ کے
واقعات میں 800 افراد ہلاک ہوچکے ہیں جن میں زیادہ تر غریب اور مزدوری کرنے
والے تھے۔ یہ کشیدگی اب بھی جاری ہے۔پولیس مکمل طور پر ناکام ہوچکی ہے۔
سیاسی بنیاد پر ہونے والی بھرتیوں نے اسے مکمل طور پر زنگ آلوداور ناکارہ
بنا ڈالا ہے۔تنخواہ وہ حکومت پاکستان سے لیتے ہیں مگر ڈیوٹی سیاسی
وابستگیوں کے لحاظ سے کررہے ہیں۔ سیاسی جماعتیں انہیں اپنے اپنے مفادات کے
لئے استعمال کررہی ہیں۔ وہ انہیں سیاسی مخالفین کے گرد گھیرا تنگ کرنے اور
اپنے حلیفوں کو آزاد کروانے کے لئے استعمال کررہی ہیں۔ ان حالات میں کراچی
میں امن وامان کے قیام کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ یہی وجہ ہے کہ کراچی کے
شہری اور حب الوطن حلقے پولیس کی کارکردگی سے مایوس نظر آتے ہیں۔
ان حالات میں کورکمانڈرز کانفرنس میں کراچی کے حالات پر تشویش بجا ہے ۔
افواج پاکستان حب الوطنی کے جذبات سے سرشار ہے۔ اس کی عوام سے وابستگی کو
کبھی بھی ختم نہیں کیا جاسکتا۔ لہٰذا حب الوطنی کا تقاضا بھی یہی ہے کہ
واقعات پر خاموش نہ بیٹھا جائے۔ یہ درست ہے کہ مشرف کے آٹھ سالہ دور اقتدار
میں فوج کے وقار کو دھچکا لگا اور اس کا عوام میں تشخص متاثر ہوا۔ یہی وجہ
تھی کہ جنرل اشفاق پرویز کیانی اس کی کمان سنبھالتے ہی اسے سیاسی معاملات
سے دور لے گئے۔ اس دوران فوج نے صرف اپنے پیشہ ورانہ فرائض پر توجہ دی اور
صحیح معنوں میں حکومت کے تابع فرمان رہ کر کام کرنے کو ترجیح دی مگر جس طرح
حکومت کراچی اور بلوچستان کے حوالے سے خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے بلکہ
معاملات کو مزید بگاڑ رہی ہے اس پر ہر کسی کی تشویش بجا ہے۔
کراچی کو چونکہ پاکستان کی معاشی ریڑھ کی ہڈی کہا جاتا ہے لہٰذا وہاں سیاسی
پارٹیوں کے درمیان ہونے والی رسہ کشی کا خمیازہ پورے پاکستان کو بھگتنا پڑ
رہا ہے۔ کاروبارتو اب دور کی بات اس شہر کے باسیوں کو اب جان کے لالے پڑے
ہوئے ہیں۔ شہر کے گلے محلے میدان جنگ کا منظر پیش کررہے ہیں۔ معصوم بچے تو
فائرنگ کی مسلسل گونج اور آگ اور خون کے اس گھناﺅنے کھیل میں نفسیاتی مریض
بنتے جارہے ہیں۔ کوئی دن ایسا نہیں گزرتا جب معصوم شہریوں کے خون سے ہولی
نہ کھیلی گئی ہو۔ لاقانونیت انتہاءکو پہنچ چکی ہے۔ بھتہ خوری، بدمعاشی اور
اسلحہ بردار عناصر کھلے عام گھومتے پھرتے ہیں ۔ اس صورتحال میں قانون نافذ
کرنے والے ادارے اس لئے ناکام نظر آتے ہیں۔کیونکہ شر پسند عناصر کو سیاسی
پشت پناہی کی موجودگی میں کسی کا ڈراور خوف نہیں رہا۔ گزشتہ دنوں جب کراچی
کی تین مرکزی پارٹیوں ایم کیو ایم، اے این پی اور پاکستان پیپلز پارٹی کے
نمائندوں نے شہر میں قیام امن کے لئے مشترکہ حکمت عملی بنائی اور جس طرح
کراچی کے مختلف علاقوں کو وال چاکنگ اور مختلف پارٹیوں کے پرچموں سے نجات
دلائی گئی اس سے تو لگتا تھا کہ اب کراچی کے عوام شاید سکھ کا سانس لے
سکیں۔ یہ اس لحاظ سے بھی اچھی روایت تھی کہ مذاکرات ہی بالآخر کسی مسئلے کے
حل کی کنجی ہوتے ہیں مگر افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ گزشتہ دوماہ میں جو غنڈہ
گردی ہوئی اور قتل و غارت کا بازار گرم ہوا ، اس سے تو یہی لگتا ہے کہ وہاں
کے حالات ٹھیک ہونے والے نہیں۔ کم ازکم سیاسی جماعتیں جب تک نیک نیتی کا
مظاہرہ نہیں کریں گی اس وقت امن کا خواب ادھورا ہی رہے گا۔
اگر حکومت واقعی کراچی میں قیام امن کے لئے مخلص ہے تو اسے تمام سیاسی
مفادات سے بالا تر ہوکر فیصلے کرنا ہوں گے۔ اپنے کرسیوں کو بچانے کے چکر
میں زرداری کہاں تک سیاسی مصلحت سے کام لیتے رہیں گے۔ کراچی پاکستان کا شہر
ہے اور جو لوگ یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ اس شہر پر صرف ان کا حق ہے تو وہ سرا
سر غلطی پر ہیں۔ کراچی میں ہر پاکستانی کو کاروبار، رہائش اور آبادکاری کا
حق ہے۔ اگر کوئی سیاسی جماعت ڈنڈے کے زور پر اپنی بات منوانے پر تلی ہے تو
یہ غیر فطری عمل ہے جوعوام کے دلوں میں نفرت کے سوا کچھ پید ا نہیں کرے
گا۔حکومت ایک سیاسی جماعت کے ہاتھوں یرغمال بنی نظر آتی ہے۔ سندھ میں
کمشنری نظام کی بحالی کے بعد دوبارہ مشرف دور کا لوکل باڈی نظام کا نفاذ اس
بات کی طرف واضح اشارہ کررہا ہے کہ حکومت نے ایک جماعت کوسیاسی حریف بنانے
کے لئے عوام کی خواہشات کا خون کردیا ہے۔حکومت کے اس اقدام سے وہاں
اختلافات مزید بڑھیں گے۔ کیا حکومت کو زیب دیتا ہے کہ وہ قتل وغارت کے ذمہ
داروں کو فراموش کرکے کراچی کے نہتے شہریوں کو پھر ان درندوں کے رحم و کرم
پر چھوڑ دے؟ ان حالات میں پاک فوج کی تشویش بجا ہے اور عوامی خواہشات کے
عین مطابق ہے۔ ایک طرح سے یہ حکومت کے لئے وارننگ بھی ہے جس پر حکومت نے
توجہ نہ دی تو عوام کی نظریں فوج پر جم جائیں گی۔ جمہوریت کے دعوے داروں کو
چاہئے کہ وہ اپنے طرز عمل پر نظر ثانی کریں ، جمہوری اقدار کے مطابق رویے
اپنائیں اور قتل و غارت کی بجائے اخلاص سے عوامی مسائل حل کریں وگرنہ
جمہوریت اور اس کے نام نہاد علمبردار خودہی جمہوریت کی بساط لپیٹنے کا موجب
بنیں گے۔ |