آج میں اپنے قارئین کیلئے
پاکستانی سیاستدانوں کے اسلامی لگاﺅ اور ادائیگی دین اسلام کے نقاط پر غور
کرنے کی کوشش کرونگا تاکہ شائد ان کے مردہ ایمان میں زندگی کی روح جاگ جائے
اور جان جائیں کہ انہیں بھی بہت جلد مرنا ہے اور اپنی زندگی کے حساب و کتاب
کا معاملہ رب العزت جل جلا لہ کی بارگاہ میں پیش کرنا ہے ، جہاں ابدی زندگی
ہے انعام کی صورت میں جنت اور سزا کی صورت میں دوزخ ۔۔خلیفہ ہارون رشید ایک
ولی کامل خلیفہ گزرے ہیں ، ان کی زندگی کا ایک واقعہ ہے کہ آپ اپنی بیگم کے
ساتھ جارہے تھے کہ راستے میں ایک بزرگ ملے ،بزرگ نے ریت میں گھر بنا رکھے
تھے خلیفہ ہارون رشید کو قریب پاکر خلیفہ سے مخاطب ہوئے اور کہا کہ کیا جنت
میں مکان خریدو گے ، اگر خریدنا ہے تو میرے ان مکان کو خرید لو۔ خلیفہ
ہارون رشید نے دیوانہ ، مستانہ سمجھتے ہوئے کوئی توجہ نہ دی جبکہ ساتھ بیگم
نے جھپٹ کے چند رقم کے عوض وہ ریت کا گھر خرید لیا ،خلیفہ نے اسی شب خواب
میں دیکھا کہ اس کی بیوی جنت میں ایک عالیشان مکان میں رہ رہی ہے خلیفہ نے
وجہ دریافت کی تو بیوی نے بتایا کہ یہ وہی مکان ہے جو اِس نے اُس بزرگ سے
خریدا تھا۔اگلی صبح خلیفہ ہارون رشید نے ان بزرگ کو بہت تلاش کیا مگر ناکام
رہے مختصراً یہ کہ اسلامی ریاست میں صاحب اقتدار کو اس قدر چاک و چابند
رہنا پڑتا ہے کہ کہیں کوئی غلطی کا ارتکاب نہ ہوجائے کیونکہ حاکم اعلیٰ کی
گرفت بہت سخت ہے ۔ الحمدللہ پاکستان ایک اسلامی ریاست ہے اور اس کا آئین
بھی اسلامی اصولوں کو اپناتے ہوئے بنایا گیا ہے یہی وجہ ہے کہ نناوے فیصد
مسلمان اس خطہ میں اسلامی روایات اور احکامات کی سختی سے پابندی کرتے
ہیںپاکستان آج کل جن حالات سے دوچار ہے یہ پاکستان کا ہر بچہ بچہ جانتا ہے
لیکن اس کے اسباب و اساس کی جانب کوئی بھی اظہار خیال کرنے سے گریز کرتا ہے
شائد وہ اس حقائق سے واقف ہی نہیں ہیں یا پھر کوئی خاص ذاتی مقاصد شامل ہیں
۔ عوام اس وقت مشکل ترین حالات سے گزر رہے ہیں اور سیاست دان ان کو مسلسل
نظر انداز کر رہے ہیں۔سیاستدانوں کو چاہیے کہ وہ عوام کو تعلیم ،روزگار اور
دوسری بنیادی سہولیات فراہم کریں تاکہ عوام خوش ہوں اور وہ اپنے اندر دلی
جذبے کے ساتھ ملک کے لئے کام کریں۔عوام کے ساتھ زیادتی یا انہیں ظلم و جبر
کا نشانہ نہ بنایا جائے ۔یتیموں، غریبوں اور بیواﺅں کی زکواة کا پیسہ خادم
اعلیٰ کے تندوروں اور دسترخوانوں میں جل چکا ہے۔پنجاب میں بیروزگاری اور
حالات سے تنگ آکر لوگ خودکشیاں کرنے پر مجبور ہو چکے ہیں لوگ بچوں سمیت
خودکشیاں کر رہے ہیں اور عوام ریلیف سے کوسوں دور ہیں۔اللہ تعالٰی جوکہ بڑا
غفور الرحیم ہے ہمارے اوپر کرم اور رحم کر تا ہے، اور ہمیں اپنے عذاب اور
بلاﺅں سے محفوظ رکھتا ہے۔ اگر کسی کے اندر دوسرا انسان اور ضمیر جاگ رہا ہو
تو پھر کوئی وجہ نہیں کہ کسی کا دل ایک ہزار روپے بلکہ ایک کروڑ روپے کے
لئے بھی خیرہ ہو جائے۔ مگر ہماری بد قسمتی یہ ہے کہ ہم ایک اللہ اور پیغمبر
ﷺ کے ماننے والے اتنے ضعیف الاعتقاد ہو گئے ہیں،کہ ہم سمجھ رہے ہوتے ہیں کہ
نغوذ باللہ ہمیں سب کچھ اللہ نہیں بلکہ ایک انسان دے رہا ہو تا ہے۔ ہمارا
ضمیر مردہ ہو چکا ہے اور جب کسی کا ضمیر اور انکے اندر کا انسان مردہ ہو
جائے تو پھر اسکے پاس بڑے وسائل ہونے کے باوجود بھی انکا دل پیسے کے لئے
دھڑ کتا رہتا ہے۔ اپنے حکمرانوں جس میں ہمارے بیورو کریٹس،سیاست دان، فوجی
، ملا شامل ہیں، کو دیکھتا رہتا ہوں، بڑے بڑے جاگیروں ، کا رخانوں،
فیکٹریوں، تنخواہوں کے باوجود بھی اس ملک اور قوم کے غریبوں، لاچاروں اور
پسے ہوئے طبقوں کے پیسوں کو اتنے بے دردی اور سفاکی سے لوٹ رہے ہو تے ہیں
کہ دل خون کے آنسو روتا ہے۔ملک اور قوم کے سولہ کروڑ غریبوں کے وسائل کو
انتہائی بے دردی سے استعمال کر رہا ہوتا ہے بلکہ زکواة ، بیت المال اور ملا
زمین کے بینیولونٹ فنڈز کے پیسوں کو بے دردی اور سفاکی سے لوٹ رہے ہو تے
ہیں۔ہم ورلڈ بینک اور بین الا قوامی مالیاتی فنڈز سے اربوں ڈالر غریبوں کے
نام پر لیکر اپنی جیبیں بھرتے اور اپنے بینک اکاﺅنٹس میں جمع کرتے رہتے ہیں
اور پھر ان پیسوں کا بو جھ ملک کے غریب اور لا چاروں پر ڈالتے ہیں۔ جب ہم
کسی جلسے یا پبلک میٹنگ میں تقریر کر رہے ہو تے ہیں ، تو فخریہ انداز میں
سینہ تان کرایک دوسرے پر الزام تراشی کر رہے ہوتے ہیں کہ ہمیں خراب اقتصا
دیات ورثے میں ملی ہے۔ یہ کتنی بے حسی کی بات ہے کہ حکمرانوں کی شاہ خر
چیوں کی وجہ سے پاکستان کا خا رجہ قرضہ پینتالیس ارب ڈالر تک پہنچ گیا ہے
ہم اکیسویں صدی میں کس مقام پے کھڑے ہیں ،جہاں پر بجلی، تیل ،پانی ، سوئی
گیس اور خوراکی اشیاءنہ صرف ناپید بلکہ انتہائی مہنگے دام دستیاب ہیں اور
مہنگائی، آئے دن بجلی، گیس، پانی کے بلوں میں اضافہ، لاقانونیت،غربت کا دور
دورا ہے ، یہ ہمارے حکمرانوں کی کرپشن، شاہ خر چیوں کی وجہ سے ہے۔ہمارے
حکمرانوں خواہ ان کا تعلق حزب اقتدار سے ہو یا حزب اختلاف سے ہو انکی
لاکھوں ایکڑ کی زمینیں، فیکٹریاں ، بینک اکا ﺅنٹس اور بڑے بڑے لا جز ہیں
مگر پھر بھی یہ لوگ ملک کے سولہ کروڑ غریبوں ، لا چاروں بیواﺅں اور مظلوموں
کے پیسے باپ دادا کی جائیداد سمجھ کر لوٹ رہے ہوتے ہیں،پاکستان پیپلز پارٹی
(پارلیمنٹیرین)، پاکستان پیپلز پارٹی (شیر پاﺅ)،پاکستان پیپلز پارٹی (غنویٰ)،پاکستان
پیپلز پارٹی (بلاول)،پاکستان مسلم لیگ (جونیجو)،پاکستان مسلم لیگ (نوازشریف)،پاکستان
مسلم لیگ (قاف)،پاکستان مسلم لیگ (فینگشنل)،، نیشنل پیپلز
پارٹی(جتوئی)،پاکستان تحریک انصاف، عوامی مسلم لیگ،متحدہ قومی موومنٹ،
جماعت اسلامی، جمیعت علماءکرام، جماعت اہلسنت، جماعت اہلحدیث، سنی تحریک،
سپاہ صحابہ، سپاہ محمد اور بے شمار سیاسی جماعتیں پاکستان کی عوام میں شامل
ہیں لیکن ان سب جماعتوں کو توفیق میسر نہ آئی کہ حقدار کو ڈھونڈتے ہوئے ان
تک ان کا حق پہنچا دیں اگر پاکستان کی تمام سیاسی جماعتوں کے لیڈران،
عہدیداران و کارکنان اپنے زکوٰة، صدقہ،خیرات، فطرہ کو سچائی و ایمانداری کے
ساتھ ادا کردیں تو خدا کی قسم پاکستانی عوام کی غربت کا خاتمہ یقینی بن
جائے گااسی طرح نوکر شاہی کے تمام بڑے افسران بشمول پولیس اور عدلیہ بھی
زکوٰة، صدقہ،خیرات، فطرہ پوری ایمانداری سے ادا کراکریں تو یقینا معاشرے
میں توازن پیدا ہوگا اور معاشرے سے بھوک و افلاس کا خاتمہ ضور ہوجائے گا۔اس
وقت صدر آصف علی زرداری،سید یوسف رضا گیلانی، نواز شریف اور متحدہ قومی
موومنٹ کی سینٹرل ایگزیکٹیو کمیٹی کے ممبران اپنی زکوٰة، صدقہ،خیرات، فطرہ
حقداروں تک پہنچادیں تو ان کے قول و فعل میں کوئی تضاد نہ رہے گا اور اللہ
کی رحمتیں ان پر جاری رہیں گی۔ سیاستدانوں کی دولت اس قدر ہیں کہ اگر یہ
اپنی دولت و املاک پر اسلامی طریقہ کار کے تحت ادائیگی اپنائیں تو بہت ساری
معاشرتی برائیاںو بیماریاں خود بہ خود ختم ہوجائیں گی اور لوگوں میں احساس
محبت، اخوت، بھائی چارگی یگانگت جیسے جذبہ جنم لیں گے لیکن پاکستان کے بننے
کے صرف چند سال ہی میں ایسے سیاستدانوں نے قدم جمالیئے جنھوں نے اپنی
سازشوں کے ذریعے اس وطن عزیز کی دولت کو نوچنے لگے جو آج تک یہ سلسلہ چلا
آرہا ہے اور نجانے کب تگ جاری رہیگا۔۔۔٭٭٭ |