گوجرانوالہ کی آئندہ سیاست کیا رخ اختیارکرے گی ؟

 گوجرانوالہ ن لیگ کاگڑھ سمجھا جاتا ہے حالیہ مہینوں میں پیپلز پارٹی کا بلاول بھٹو زرداری کی قیادت میں عوامی مارچ ،مسلم لیگ ن کا محترمہ مریم نوازاور حمزہ شہباز کی قیادت میں جی ٹی روڈ پروگرام اور چیئرمین انصاف کاجناح سٹیڈیم میں جلسہ بڑے ایونٹ تھے سیاسی ڈیروں پر ابھی تک زیر بحث ہے کہ ان میں کتنے لوگ آئے تھے ناقدین کا کہنا ہے کہ بلاول بھٹو زرداری کے ساتھ سندھ سے آنے والے جیالوں کے علاوہ گوجرانوالہ سے زیادہ لوگ شامل نہیں ہوئے تھے گوجرانوالہ سے شامل ہونے والوں کی تعداد چند ہزار سے زیادہ نہیں تھی پاکستان پیپلز پارٹی اس بات کو تسلیم نہیں کرتی ان کا خیال ہے کہ اب پنجاب میں پیپلز پارٹی کے لئے زیادہ لوگ نکل رہے ہیں ن لیگ کے جی ٹی روڈ پروگرام میں شرکت کے لئے مریم نواز اور حمزہ شہباز رات گئے پہنچے اور سٹی ہاؤسنگ سوسائٹی میں سٹی صدرسلمان خالد پومی بٹ کے مہمان بنے تھے اس سے پہلے عوام کی بڑی تعداد رات گئے تک انتظار کر کے گھروں کو واپس جا چکی تھی مدثر ناہرا چوہدری اقبال گجر اور قیصر اقبال سندھو کے جلوس دیہات سے آئے تھے ان لوگوں کو بے مقصد رات گئے تک سڑک پر کھڑا رکھنا سمجھ نہیں آیا ، یہاں بد انتظامی اور اراکین اسمبلی کے درمیان رابطوں کا فقدان صاف نظر آرہاتھا پنجاب کی ن لیگی قیادت خاص طور پر وزیر اعلیٰ حمزہ شہباز شریف گوجرانوالہ میں پومی بٹ پر بہت زیادہ انحصار کرتے ہیں اس میں کوئی شک نہیں کہ پومی بٹ اور انکے بھائیوں کا پارٹی کے لئے کردار اور قربانیاں قابل ستائش ہیں انہوں نے نے بد ترین پولیس گردی کا سامنا کیا ہے اور کھڑے رہے ہیں جی ٹی روڈ پر انتطامات کرنے والی ن لیگی کمیٹی کی غیر ذمہ داری کا یہ عالم تھا کہ رات کو بنایا گیا سٹیج صبح تک غائب ہو چکا تھااور شہر میں کسی کو نہیں پتا تھا کہ یہاں کوئی جلسہ ہونا بھی ہے یا رات کو ہی مریم بی بی گزر کرجاچکی ہیں تب بعض راہنماؤں کی نشاندہی پر مریم نواز کی جھاڑ نے بعض ن لیگی اراکین اسمبلی اور عہدیداران کی دوڑیں لگوائیں شام کو جلسہ ہوا تولائیٹنگ اور سپیکر کے خاطر خواہ انتظامات نہ ہونے کی وجہ سے انکا کرواڈ پوری طرح جم نہ سکا اور لوگوں کی بہت بڑی تعدادمریم نواز اور حمزہ شہباز کے خطاب کو سنے بغیر گھروں کو لوٹ گئی گوجرانوالہ میں مسلم لیگ ن کے لئے یہاں سب سے بڑا چیلنج اپنی طویل برتری کو برقرار رکھناہے گوجرانوالہ میں سابقہ برتری کو برقرار رکھنے کے لئے سینئر راہنماؤں غلام دستگیر خان، عثمان ابراہیم اور چوہدری محمود بشیر ورک کی مکمل مشاور ت اور تعاون کے بغیر ن لیگ کومشکلات ہو سکتی ہیں ، اس حوالے سے اب ن لیگ حکومت میں آنے کے باعث مقدمات اور پکڑ دھکڑ سے نکل آئی لیکن ابھی تک ان کے راہنماؤں اور کارکن پر اعتماد نظر نہیں آتے چارسال کی اعصاب شکن اپوزیشن کاٹنے سے جیسے ن لیگی شاہین اڑان بھرنا بھول گئے ہیں حکومت کے بوجھ نے رہی سہی کسر نکال دی ہے عوام میں جہاں پی ٹی آئی کے ٹکٹ ہولڈرز کا جانا محال تھا اب ن لیگی راہنما ؤں کو عوام کے تیکھے اور چبھتے ہوئے سوالات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے عوام یہ جاننے سے قاصر ہیں کہ ابتر معاشی صورتحال میں حکومت لینے کا فیصلہ کیوں کیا گیا ، کیا شہباز شریف اور حمزہ شہباز شریف نے مقدمات اور فرد جرم کے دباؤمیں آکر یہ غلطی کی ہے اسکا جواب تو بہر حال آنے والا وقت ہی دے گا لیکن اس وقت تو سیاسی حالات ن لیگ کے حق میں نظر نہیں آتے مہنگائی کے طوفان نے ملک بھر کے عوام کو ذہنی مریض بنا کے رکھ دیا ہے تحریک انصاف نے 18مئی کو جناح سٹیڈیم میں یک بڑا اور شاندار جلسہ کر کے ناقدین کو ورطہء حیرت میں مبتلا کر دیا تھا یوں محسوس ہورہا تھا کہ ن لیگ کی طویل سبقت کے خاتمے کی جانب پیشقدمی شروع ہوگئی ہے یہاں عمران خان کو وزارت عظمی ٰ سے الگ کرنے پر بھی رد عمل میں کافی لوگ باہر نکلے تھے اس سے قبل پی ٹی آئی کو گوجرانوالہ میں کبھی اس قسم کی عوامی پذیرائی نہیں ملی تھی ، عمران خان کے جلسے میں ملک بھر ہی نہیں بلکہ بیرون ملک سے پاکستانی بھی بہت بڑی تعداد میں موجود تھے تاہم اہل گوجرانوالہ کی بھی بڑی تعداد نے جلسہ میں شرکت کی تھی پی ٹی آئی کی مقامی قیادت کو کو عمران خان کے ساتھ عوامی ہمدردی کے تاثر کا فائدہ ہوا اس سے بھی پہلے یہ بھی سیاسی فائدہ ہوا کہ تھا کہ ٹکٹ ہولڈرزمیں سے کئی پیپلز پارٹی میں واپسی کے لئے پر تول رہے تھے لیکن عمران خان کے ساتھ عوامی ہمدری نے انکے ارادے تبدیل کرادئیے امتیاز صفدر وڑائچ کو پہلے پتا ہوتا تو شاید وہ بھی کبھی پیپلز پارٹی میں نہ جاتے پی ٹی آئی کے گوجرانوالہ جلسے کی کامیابی کا تاثر زیادہ دن تک قائم نہیں رکھا جاسکا پی ٹی آئی ٹکٹ ہولڈرز کی 25 مئی کو عمران خان کی کال پر خراب پرفارمنس نے انکے جلسے کا سارا مزہ کرکرا کر کے رکھ دیا یہ سوال ہر کوئی پوچھ رہا ہے کہ آخر اس دن پی ٹی آئی کہاں چلی گئی تھی اور گوجرانوالہ کو فتح کرنے کے سارے دعوے کیا ہوئے تھے ، اس ناکامی کے باوجود علی اشرف مغل رضوان اسلم بٹ اور چوہدری طارق گجر شہر میں کافی متحرک نظر آرہے ہیں لالہ اسداﷲ پاپا بھی انصاری برادران کی ن لیگ میں واپسی کے بعد خود کوکافی ہلکا پھلکا محسوس کر رہے ہوں گے اور انکے ٹکٹ پر بھی اب کوئی سوالیہ نشان باقی نہیں رہا دیکھنا یہ ہے کہ پی ٹی آئی اپنا وجود الیکشن میں کیسے ثابت کرتی ہے گوجرانوالہ کے انصاری برادران نے ن لیگ میں واپسی سے سیاسی پنڈتوں کو چکرا کر رکھ دیا ہے انصاری برادران جب پی ٹی آئی میں تھے تب انکی مقامی قیادت سے نہیں بنی وہ جتنی دیر وہاں رہے وزیر اعلیٰ سردار عثمان بزدار اور بعد میں چیئرمین عمران خان کے ساتھ ملاقاتوں کے بل بوتے پر سیاست کرتے رہے ن لیگ میں انکی واپسی ہوئی اس حوالے سے منعقدہ پریس کانفرنس میں رانا مشہود احمد خان نے انکی واپسی کو رضاکارانہ اور غیر مشروط قرار دیا جسے سیاست کی زبان میں سمجھنا مشکل نہیں سو انصاری برادران جتنے پی ٹی آئی میں مس فٹ تھے ن لیگ میں واپسی کے بعد بھی انکی حالت جوں کی توں ہے اور مقامی قیادت کو راضی کئے بغیر ن لیگی کارکنوں کے لئے گھر کے دروازے کھلے رکھنے کے ا نکے ا علانات ناکافی ہیں انصاری برادران آخری وقت تک اندر کی بات کو چھپاتے رہے تاوقتیکہ انکے معاملات طے نہیں ہوگئے اورآخر میں انہوں نے ایک بڑا سرپرائز دے دیا ذرائع کا یہ بھی کہنا ہے کہ چوہدری اشرف علی انصاری نے شمولیت کرانے والے دوستوں کے ذریعے وزیر اعلیٰ حمزہ شہباز شریف سے جھنڈے والی گاڑی کی فرمائش بھی کی ہوئی ہے دیکھتے ہیں ن لیگی قیادت انہیں پارٹی میں کتنا مقام دیتی ہے یا پھر مشکل حالات میں انہیں استعمال کر کے آگے کی راہ لیتی ہے اس میں ان جذباتی کارکنوں کے لئے سبق ہے جو سیاستدانوں سے وابستگی کے لئے ذاتی تعلقات اور رشتے داریاں تک خرب کر لیتے ہیں پنجاب کابینہ میں گوجرانوالہ سے چوہدری اقبال گجر ، عمران خالد بٹ ،حاجی عبدالرؤف مغل اور بلال فاروق تارڑ کے نام لئے جا رہے ہیں حاجی عبدالرؤف مغل ن لیگ میں سنیارٹی کے لحاظ سے پہلے نمبر پر آتے ہیں انکا بے داغ ماضی اور حال اور پارٹی کے لئے طویل خدمات بھی اس بات کی متقاضی ہیں کہ انہیں پنجاب کابینہ کا حصہ بنایا جائے چوہدری اقبال گجر بھی میاں شہباز شریف کے ہمیشہ فیورٹ رہے ہیں انہیں بھی وزیر بنایا جا سکتا ہے جبکہ عمران خالد بٹ کے بھائی پومی بٹ کا حمزہ شہباز شریف سے بھائیوں جیسا تعلق ہے تارڑ خاندان کی شریف خاندان سے قربت بھی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے ن لیگی راہنما توفیق بٹ کو ایسے وقت میں پرائس کنٹرول کمیٹی کا چیئرمین بنا دیا گیا ہے جب ملک میں شدید مہنگائی کی لہر ہے اور مہنگائی کے جن کو قابو کرنے کی ذمہ داری دینا کسی سزا سے کم نہیں ہے وہ مقامی انتظامیہ کے ہمراہ فلور ملز پر چھاپے مارنے نکل کھڑے ہوئے ہیں سابق ایم پی اے پیر غلام فرید کی لندن میں قائد میاں نواز شریف سے ملاقات ہوئی ہے جسکے بعد پیر غلام فرید نے عام انتخابات سے قبل قائد مسلم لیگ ن میاں نواز شریف کی وطن واپسی کا عندیہ دیا ہے اگر یہ بات درست ثابت ہوگئی تو ملکی سیاست کا سار امنظر نامہ ہی تبدیل ہو جائے گا پیر غلام فرید کے مطابق انکے اگلے الیکشن میں ٹکٹ کے حوالے سبھی مثبت گفت و شنیدہوئی ہے جبکہ انکی صاحبزادی اپنی ایک الگ پہچان رکھتی ہیں اور شنید ہے کہ انکی مخصوص نشست پر واپسی بھی ممکن ہو جائے گی فی الحال تو کمر توڑ مہنگائی نے عوام کو جیتے جی مارڈالا ہے آنے والے مہینوں میں عوام کو ریلیف دئیے بغیر ن لیگ کا اپنی برتری کو رقرا رکھنا مشکل ہو جائے گا -
 

Prof Riffat Mazhar
About the Author: Prof Riffat Mazhar Read More Articles by Prof Riffat Mazhar: 893 Articles with 643064 views Prof Riffat Mazhar( University of Education Lahore)
Writter & Columnist at
Daily Naibaat/Daily Insaf

" پروفیسر رفعت مظہر کالمسٹ “روز نامہ نئی ب
.. View More