ملکی تاریخ میں پہلی مرتبہ پنجاب کا بجٹ بغیر شور شرابہ
اور ہنگامے کے سنا گیا ۔ وگرنہ جب سے ہوش سنبھالا ہے قومی اسمبلی سمیت
چاروں صوبائی اسمبلیوں میں ہنگامہ آرائی کے دوران ہی بجٹ پیش اور منظور
ہوتے دیکھا ہے۔ اپوزیشن کی ’’مزاحمت‘‘ کا تماشہ ساری دنیا دیکھتی ہے جس سے
ہماری سیاست کی خوب سبکی ہوتی ہے ۔ گو کہ اس پر کوئی نادم و شرمسار نہیں
ہوتا اور یہ عمل ہر سال ہمیں دیکھنے کو ملتا ہے ۔ البتہ انہیں منتخب کر کے
اسمبلیوں میں بھیجنے والوں کو اپنے ’’ــانتخاب‘‘ پر ضرور شرمندگی ہوتی ہے
کہ جس طبقے کو ہم نے اپنی نمائندگی کا حق دیا وہ ایک معتبر پلیٹ فارم پر جا
کر کیسی کیسی حرکتیں کر رہا ہے ۔
پنجاب میں گذشتہ دو مہینوں سے سیاسی عمل کی روانی میں جس طرح رکاوٹیں پیدا
ہوئیں وہ ملکی تاریخ کا اک سیاہ باب بن چکا ہے ۔ انہی رکاوٹوں کا تسلسل بجٹ
اجلاس میں بھی دیکھنے کو ملا جب متعین کردہ تاریخ پر بجٹ پیش نہ کیا جا سکا
اور اجلاس مسلسل چند سیاستدان دوستوں کی ہٹ دھرمی کی نظر ہوتا رہا ۔
حکومت پنجاب نے اجلاس کو پنجاب اسمبلی سے منتقل کرکے کسی دوسری جگہ منعقد
کرنے کا صائب فیصلہ کیا ۔ یہ فیصلہ وزیر اعلیٰ پنجاب حمزہ شہباز اور گورنر
پنجاب بلیغ الرحمن کی دور اندیشی اور سیاسی بلوغت کا پتہ دیتا ہے۔ یہ فیصلہ
اپوزیشن پر بھی باور کرواتا ہے کہ ان کے بغیر نظامِ سیاست چل سکتا ہے ۔
لہذا اگر وہ سیاسی عمل کی روانی میں رکاوٹ پیدا کرتے رہیں گے تو حکومت کے
پاس ان کا نہ صرف علاج بلکہ متبادل حل بھی موجود ہے ۔
متبادل جگہ پر بجٹ اجلاس نہایت پرسکون ماحول میں منعقد ہوا اور یہ پاکستان
کی کسی بھی اسمبلی کا پہلا پُرسکون بجٹ اجلاس تھا جو ہنگامہ آرائی اور
اراکین اسمبلی کی بچگانہ حرکتوں کے بغیر ہوا ۔ اگر ہمارے منتخب نمائندے
اسمبلیوں میں یوں ہی ذمہ داری کا مظاہرہ کریں اور اک دوسرے کو برداشت کرنے
کا حوصلہ پیدا کر لیں تو دنیا میں ہماری سیاست کا تماشہ نہ لگے ۔ بلاشبہ
ملکی تاریخ کے ایسے پہلے اجلاس کا اعزاز مسلم لیگ ن کے حصے میں آیا ہے جس
پر وزیر اعلیٰ پنجاب کے علاوہ قائد مسلم لیگ نواز شریف اور وزیر اعظم شہباز
شریف بھی مبارکباد کے مستحق ہیں ۔
موجودہ معاشی حالات میں عوام دوست بجٹ پیش کرنا اک امتحان تھا ، اور اس میں
سرخرو ہونا دوسرا بڑا امتحان تھا ۔ مسلم لیگ (ن) اور حمزہ شہباز ان دونوں
امتحانوں میں کامیاب ٹھہرے ۔ ملکی حالات اور عوام کو درپیش معاشی چینلجز کے
تناظر میں پنجاب کا بجٹ حقیقی معنوں میں فرینڈلی ہے ۔ امید ہے بجٹ متوسط
طبقے پر زیادہ بوجھ نہیں ڈالے گا ۔ اس کے ساتھ ساتھ اس امر کی بھی ضرورت ہے
کہ حکومت بجٹ میں پیش کئے گئے ایک ایک فیصلے پر عملدرآمد یقینی بنائے ۔ اس
وقت عوام کی نظریں اور تمام تر امیدیں مسلم لیگ (ن) سے وابستہ ہیں ۔ عوام
جانتے ہیں کہ مسلم لیگ (ن) کے پاس منجھے ہوئے افراد پر مشتمل تجربہ کار ٹیم
ہے ، جنہوں نے گذشتہ ادوار میں بھی ڈیلیور کیا، اب بھی اسی عزم کے ساتھ
کھڑے ہیں ۔ نواز لیگ ’’کیا تھا ، کر کے دکھائیں گے‘‘ کی عملی تصویر ہے ، وہ
اس کی تعبیر کیلئے ماضی کی طرح اب بھی پوری طرح متحرک ہے ۔
بدقسمتی یہ ہے کہ گذشتہ چند مہینوں سے ہماری سیاست جس طرح زہر آلود ہوتی جا
رہی ہے وہ کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے ۔ ’’کامیاب ہوئے نہ ہونے دیں گے‘‘ کے
منشور کو اپناتے ہوئے ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالنا، الزام تراشی ، بہتان بازی
، اک دوسرے کی ٹانگیں کھینچنا ہماری سیاست میں لازم و ملزوم ہو چکا ہے ۔
بالخصوص پنجاب میں بعض امور پر ہمارے کچھ سیاستدانوں کا ’’پرسنل‘‘ ہو جانا
، اور ہاؤس کو چلنے نہ دینا بھی سیاست دانوں کی ذہنیت کو خوب آشکار کرتا ہے
۔ اس رویے کی وجہ سے جہاں صوبے میں ترقیاتی کام سست روی کا شکار ہیں ، وہیں
بے شمار عوامی مسائل بھی حل کے منتظر ہیں ۔
کیا ہی اچھا ہو اگر سیاستدان اپنی اپنی لڑائی الیکشن کے دوران لڑا کریں ۔
جب ہاؤس میں آ چکے تو اس فورم کا پہلا حق یہی ہے کہ اسے عوام کے مسائل کے
حل اور صوبے کی سماجی و معاشی ترقی کیلئے مل جل کر استعمال کیا جائے ۔ اس
سے ہٹ کر اس پلیٹ فارم پر کوئی بھی منفی سرگرمی نہ صرف اس فورم کی توہین ہے
بلکہ عہد شکنی بھی ہے جو اس فورم کیلئے منتخب ہونے کے لئے حلف اٹھاتے وقت
کیا گیا تھا ۔ ہمارے ہاں عہد شکنی زیادہ ہو رہی ہے یا فورم کا احترام؟ ،
فیصلہ خود کر لیجئے ۔
|