وزیرخزانہ مفتاح اسماعیل فرماتے ہیں پٹرولیم مصنوعات
کی قیمتوں میں موجودہ اضافے کے بعد سبسڈی صفر ہوگئی ہے ۔ آئی ایم ایف
معاہدے کی بناپر ہمارے ہاتھ بندھے ہوئے ہیں ، معاشی بحران پر جلد قابو
پالیں گے ۔یہاں مجھے ایک برا سا واقعہ یاد آگیا ہے ۔ایک گورکن سخت بیمار
تھا ،اس کے بیٹے قریب ہی بیٹھے ہوئے باپ سے باتیں کررہے تھے ، باپ نے بیٹوں
سے مخاطب ہو کر کہا ۔میں ساری عمر مردوں کے کفن اتارتا رہا ۔ لوگ میرے مرنے
کی خبر سنیں گے تو کہیں گے اچھا ہوا کفن چور مرگیا ۔ باپ کی باتیں سن کر
بیٹوں نے کہا ابا جی آپ پریشان نہ ہوں ، لوگ آپ کو یاد کیاکرینگے ۔چند دن
بعد باپ فوت ہوگیا ، بیٹوں نے کفن اتارنے کے بعد مردے کی بے حرمتی شروع
کردی ۔ جب لوگوں نے صبح قبرستان میں جا کر دیکھا تو وہ بولے۔ پہلا گورکن ہی
اچھا تھا جو کفن ہی اتارتا تھا، بے حرمتی تو نہیں کرتا تھا ۔عمران خان جب
مہنگائی ، بے روزگاری ، پٹرول ، بجلی اور گیس کی قیمتوں کو مسلسل بڑھانے کی
وجہ سے اپنی ناکامیوں کے عروج پر تھے تو ووٹ دینے والے بھی ان کے خلاف
ہوچکے تھے ۔اس لمحے شہباز شریف کی قیادت میں اتحادی حکومت نے اقتدار
سنبھالا۔ یوں محسوس ہورہا تھا کہ وہ ملک کو معاشی بحران سے نکالنے کے ساتھ
ساتھ عوام کے زخموں پر بھی مرحم رکھیں ۔ کیونکہ شہباز شریف جب پنجاب کے
وزیراعلی تھے تو ان کی کارکردگی پر نہ صرف پنجاب کے عوام بلکہ بیرون ملک
بھی ان کی کارکردگی کو تحسین کی نظر سے دیکھا جا تا تھا ۔ شہباز سپیڈ کا
لفظ تو ہر کسی کی زبان پر تھا لیکن میاں شہباز شریف نے جیسے ہی وزیرخزانہ
کے منصب پر مفتاح اسماعیل جیسے نا اہل شخص کو فائز کیا تو اسی دن سے آئی
ایم ایف کے نام لے کر کند چھری سے عوام کے گلے کو کاٹنے کا نہ ختم ہونے
والا سلسلہ شروع کررکھا ہے ۔ تو دوسری جانب عمران خان کو رگیدتے ہوئے
فرماتے ہیں کہ انہوں نے راستے میں بارودی سرنگیں بچھائی ہیں ، جس کی وجہ سے
معیشت کی بہتری کے نام پر مہنگائی کا ایسا طوفان برپا کیا جا رہا ہے کہ ہر
گھر میں صف ماتم بچھ چکا ہے ۔ اس نااہل شخص نے پہلے یکے بعد دیگرے تیس تیس
روپے پٹرول کی قیمتوں میں اضافہ کیا ۔ اب جبکہ عوام نے پچھلے اضافے کو اپنی
قسمت سمجھ کر خاموشی اختیار کرلی تھی تو ایک ہی جھٹکے میں پٹرول میں 24
روپے، ڈیزل کی قیمت میں 59روپے اور مٹی کے تیل کی قیمت میں 40 روپے اضافہ
کرکے ایک بار پھر مندمل ہونے والے زخموں کو کرید ڈالا ہے ۔اس لمحے مجھے یہ
کہنے کی اجازت دیجیئے کہ حکمران کوئی بھی ہو ۔ قربانی صرف عوام کے ہی نصیب
میں آتی ہے ۔ صرف پٹرول کی قیمتیں ہی نہیں بڑھیں ،بجلی کے نرخوں میں بھی
ہوشربا اضافہ ہوچکا ہے جبکہ نہ ختم ہونے والی بجلی کی لووڈشیڈنگ عوام کو بے
حال کررکھاہے ۔ یہ بتانا ضروری سمجھتا ہوں کہ مہنگائی کے دور میں ہر کسی کے
پاس اتنی بچت نہیں ہوتی ہے کہ یو پی ایس اور بیٹری خرید کراپنے گھروالوں کو
بجلی کے بے تحاشا لوڈ شیڈنگ سے بچا ئے ۔ میرے گھر کے سامنے دو بزرگ میاں
بیوی کے روپ میں رہتے ہیں جب دن میں بجلی بند ہو جاتی ہے تو وہ بیچارے اپنے
گھر سے نکل کر کسی دیوار کے سائے میں بیٹھ جاتے ہیں۔ جب کہ میرے اپنے گھر
میں بھی لوڈشیڈنگ نے عذاب نازل کررکھا ہے۔ میں جس گلی میں رہتا ہوں اس میں
80 مکان ہیں ۔صرف بیس گھروں میں یوپی ایس ہوگا باقی ساٹھ گھرانوں میں ہر
گھنٹے بعد جب بجلی بند ہونے کی وجہ سے صف ماتم بچھ جاتی ہے ۔اس لمحے وفاقی
وزیر بجلی خرم دستگیر صاحب کوٹ پینٹ پہن کر گویا ایئرکنڈیشنڈ دفتر میں بیٹھ
کر عوام کو دلاسہ دیتے ہوئے نظر آتے ہیں کہ یکم جولائی تک لوڈ شیڈنگ کم ہو
کر دو گھنٹے رہ جائے گی ۔میں یہ پوچھنے کی جسارت کررہاہوں کہ اگر عوام کے
گھروں میں ہر ایک گھنٹے بعد بجلی بند کر دی جاتی ہے تو کیا حکمرانوں کو
سرخاب کے پر لگے ہیں کہ ان کو بلاتعطل بجلی فراہم کی جارہی ہے ۔ حکمران ہی
نہیں تمام چھوٹے بڑے سرکاری افسروں کے دفتروں اور گھروں کو لوڈشیڈنگ سے
مبرا کررکھا ہے ۔یہ عجیب بات ہے کہ پاکستان میں جو لوگ بجلی کا ہر مہینے بل
اپنی جیب سے ادا کرتے ہیں لوڈ شیڈنگ کا عذاب بھی انہی پر نازل ہوتا ہے اور
جن کے بلوں کی عدم ادائیگی حکومت کرتی ہے ان کو بلا تعطل اور مفت بجلی
فراہم کی جارہی ہے۔واپڈا اور بجلی سپلائی کرنے والی تمام کمپنیوں کے افسروں
اور ملازمین کو اربوں یونٹ سالانہ مفت بجلی دی جارہی ہے اس بجلی کی قیمت
بھی عوام کے بلوں میں شامل کردی جاتی ہے۔اس صورت حال کو دیکھ کر تو یہی
کہنا پڑتا ہے کہ ہر آسائش خواص کے لیے اور ہر عذاب عوام کے مقدرکا حصہ بن
چکا ہے ۔
|