عشرہ ذی الحجہ کی مناسبت سے ، بعض دینی حلقوں کی
طرف سے ، مختلف اذکار و عبادات ، مختلف وظائف و نوافل تجویز کیے جاتے ہیں
کہ فلاں فلاں تسبیح، اتنے نفل، اور ان میں فلاں فلاں آیات یا کلمات اتنی
اور اتنی تعداد میں پڑھے جائیں ۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ اسلام نے چودہ سو سال
پہلے ہی سے ہر موقع و محل اور ایام کی مناسبت سے ، اپنی تمام تعلیمات اور
احکامات کی فرائض ، واجبات ، سنتیں اور نوافل کے لحاظ سے درجہ بندی کرکے
ہماری رہنمائی فرما دی ہے۔ لہٰذا عشرہ ذی الحجہ کے حوالے سے بھی ہمیں اپنی
تمام تر ترجیحات کا تعین اسی روشنی میں کرنا چاہیے۔ لہذا اس بنیادی اصول کی
روشنی میں۔۔۔۔
***۔۔۔۔۔۔۔۔ عشرہ ذی الحجہ میں بھی سرفہرست فرائض ہی کی بجا آوری ہونی
چاہیے کیونکہ بقول حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالٰی عنہ فرائض سے صرفِ نظر
کرکے نفل نیکیاں قبولیت کی سند نہیں پاتیں اور پھر حدیث قدسی بھی ہے کہ
"میرا بندہ جن چیزوں سے میرا قرب حاصل کرتا ہے، ان میں سے کوئی چیز مجھ کو
اتنی پسند نہیں، جتنی کہ وہ چیزیں جو میں نے اس پر فرض کی ہیں"۔ خواہ ان کا
تعلق حقوق اللہ سے ہو یا حقوق العباد سے،یعنی اذکار و عبادات ہوں یا دوسروں
کے ساتھ معاملات یا اپنی ذمہ داریوں کی ادائیگی۔ اور پھر عشرہ ذوالحجہ میں
چونکہ ہر نیکی کی اللہ کے ہاں محبوبیت اور مقبولیت کو چار چاند لگ جاتے
ہیں۔ لہٰذا ان دنوں کو خوش قسمتی کی دلیل سمجھ کر ، ان میں اپنی فرض عبادات
اور ذمہ داریوں کو ہمیشہ سے بڑھ کر زیادہ اخلاص، زیادہ دلجمعی، زیادہ تندہی
اور زیادہ خشوع و خضوع کے ساتھ ادا کرنے کی کوشش ہونی چاہیے۔ بلکہ ان دنوں
کی مناسبت سے حق تو یہ ہے کہ ہر نیکی ایثار و قربانی اور احسان کے درجے پر
آکر کی جائے۔ مگر اس حوالے سے ایک بات سمجھنے کی ہے کہ جہاں تک حقوق العباد
سے متعلق نیکیوں کا تعلق ہے تو فقہ کے اصول "الاقرب فی الاقرب" ( یعنی جو
رشتے اور قربت میں جتنا زیادہ قریب ہے، اس کا اتنا ہی زیادہ حق ہے) کے اصول
کے تحت ، عشرہ ذی الحجہ میں جو بھی نیکی ہو ۔ مثلاً بزرگوں کا احترام ،
چھوٹوں پر شفقت ، صلہ رحمی ، آپس میں محبت ، الفت ، خیر خواہی ، ایک دوسرے
کی مدد ، خدمت ، درگزر ، ایثار ، قربانی اور پھر نیکی کرنے ، برائی سے بچنے
کی ترغیب و تلقین ۔۔۔۔۔۔ یعنی جو بھی نیکی ہو ، شروعات گھر سے اور اہل خانہ
سے ہونی چاہئیں ۔ مگر یاد رہے کہ یہ سلسلہ گھر سے گھر تک ہی نہ رہے۔ بلکہ
گھر سے لے کر خاندان تک۔۔۔۔ خاندان سے لیکر معاشرے تک۔۔۔۔ معاشرے سے لے کر
ملک تک۔۔۔۔ اور پھر ملک سے لے کر پوری انسانیت تک۔۔۔۔ وسیع ہوتا چلا جانا
چاہئے ۔بےشک یہ فرض نیکیوں سے لیکر نفل نیکیوں تک کی فطری اور شرعی ترتیب
ہے، جو عموماً ہماری کم فہمی یا خود پسندی کی وجہ سے الٹ پلٹ یا افراط و
تفریط کا شکار رہتی ہے۔
***۔۔۔۔۔۔۔۔۔ علاوہ ازیں عشرہ ذی الحجہ میں ایک اہم ترین اور مسنون ترین
عمل تکبیرات پڑھنا ہے اور ان دنوں کی مناسبت سے، اللہ کی نظر میں یہ
پسندیدہ ترین عمل ہے۔ جس کی کثرت کی تلقین خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم
نے فرمائی کہ "کوئی بھی دن ایسے نہیں ہیں جن میں عمل کرنا اللہ تعالی کے
نزدیک ان دس دنوں سے زیادہ پرعظمت اور پسندیدہ ہوں۔ اس لئے ان میں کثرت سے
یہ ذکر کیا کرو ، لا الہ الا اللہ ، اللہ اکبر اور الحمد للہ" (احمد)
بعض روایات میں تکبیرات کے دیگر الفاظ بھی ملتے ہیں۔ مثلاً "اللہ اکبر اللہ
اکبر لا الہ الا اللہ واللہ اکبر وللہ الحمد" اور "اللہ اکبر اللہ اکبر
کبیرا والحمدللہ کثیرا وسبحان اللہ بکرۃ واصیلا"۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ اور حضرت مسعود رضی اللہ عنہ کے بقول 9 ذی الحجہ کو
نماز فجر سے لے کر 13 ذی الحجہ کی نماز عصر تک بآواز بلند تکبیریں پڑھنی
چاہئیں۔ عشرہ ذی الحجہ کے ضمن میں امام بخاری لکھتے ہیں کہ "(ان دنوں میں)
حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہ اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ
بازاروں کی طرف نکلتے اور تکبیریں کہتے۔ پھر بعض دوسرے صحابہ کرام رضی اللہ
تعالی عنہ کا بھی اسوہ تھا کہ "وہ منی میں اونچی آواز میں تکبیریں کہتے۔ ان
کی آواز مسجد تک پہنچتی تو مسجد والے بھی تکبیریں پڑھنے لگتے۔مسجد والوں کی
آواز بازار تک پہنچتی تو تمام غافل لوگ بھی اس عمل میں شریک ہو جاتے۔ یہاں
تک کہ ہر جگہ بلکہ پوری فضا تکبیرات سے گونج اٹھتی"۔
تصور کریں یہ کتنا روح پرور اور ایمان افروز منظر ہوگا۔ ہمیں بھی اپنے گھر
کے مردوں اور بیٹوں کے ذریعے اس مسنون عمل کو کو رواج اور فروغ دینا چاہیے
( بجائے شرمانے اور جھجھکنے (hesitation) کے). ہم خواتین کو بھی تکبیرات
پڑھنی چاہئیں مگر آہستہ آواز سے اور یہ بھی یاد رکھیں کہ والدین کی عادات
اور اعمال کا براہ راست اثر اور نقش ان کے بچوں پر ضرور ہوتا ہے۔ خود میرے
بچپن کی ہر عید کی یاد کے ساتھ میرے ابوجان کی تکبیرات کی آوازیں۔۔۔۔ ان کی
گونج ، آج بھی میرے حافظے میں محفوظ ہے اور میرے ایمان کو جلا بخشتی ہے۔
مگر تکبیرات کے حوالے سے ایک اہم ترین نکتہ یہ بھی ہے کہ اگرچہ تکبیرات دل
و زبان کی ہم آہنگی کے ساتھ ہی پڑھی جانی چاہئے۔ مگر پھر یہ بھی یاد رکھیں
کہ اللہ کے ہاں یہ معتبر اور مقبول اسی صورت ہوتی ہیں۔ جب ہم عملاً بھی اس
تکبیرات کے تقاضے پورے کرنے کے لیے تیار اور کوشاں ہوں۔ ہاتھ میں تسبیح اور
زبان پر اللہ کے ذکر کا ورد ہو۔۔۔ فضا تکبیرات سے گونج رہی ہوں۔۔۔ مگر
عملاً ہم اللہ کی نافرمانی کی روش پر قائم ہوں، تو یہ ذکر۔۔۔ یہ تسبیح ۔۔۔
یہ تکبیرات۔۔۔ اللہ کے ساتھ استہزاء یعنی مذاق کے سوا کچھ نہیں. افسوس یہ
ہے کہ آج ہمارے ہاں اسی کا چلن عام ہے ۔ جبکہ علمائے کرام کے نزدیک یہ غفلت
سے بھی زیادہ نقصان دہ ہے۔ بخاری کی روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ
وآلہ وسلم نے فرمایا : "تمام لوگوں میں سب سے زیادہ میری شفاعت کا مستحق وہ
شخص ہے، جس نے دل کے اخلاص کے ساتھ لا الہ الا اللہ کہا" ۔ اور طبرانی کی
روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا: "لا الہ الا اللہ اخلاص
سے کہنے کا کیا مطلب ہے؟" فرمایا: "اس کا مطلب یہ ہے کہ پھر لا الہ الا
اللہ اسے حرام کاموں سے بھی روک دے" یعنی اخلاص سے یہ مراد ہےکہ تسبیح کی
تصدیق عمل سے بھی ہو۔
***۔۔۔۔۔۔۔ پھر عشرہ ذی الحجہ کا ایک مسنون ترین عمل روزہ بھی ہے۔ "نبی
کریم صلی اللہ علیہ وسلم عشرہ ذوالحجہ کے پہلے نو دنوں کے روزے کبھی نہیں
چھوڑتے تھے ( ابن ماجہ،ابی داؤد)۔
ان میں قضاء روزوں کی نیت بھی کی جاسکتی ہے۔ تاکہ ایک کام دو کاج ہو جائیں۔
سوائے نو عرفہ کے روزے کے کیونکہ اس کی بذاتِ خود خود بہت فضیلت ہے۔ نبی
اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : "وہ (یعنی نو عرفہ کا روزہ)
گزشتہ اور آئندہ دونوں سالوں کے گناہوں کا کفارہ بن جاتاہے"(مسلم) (اگر
گناہ نہ ہوں تو درجات کی بلندی کا ذریعہ بن جاتا ہے)۔ مگر علماء کے نزدیک
یہ صغیرہ گناہوں کا کفارہ ہوتا ہے یا جن کا تعلق حقوق اللہ سے ہو۔ کیوںکہ
کبیرہ گناہ بغیر توبہ کے ،اور حقوق العباد ان لوگوں سے معاف کرائے بغیر، جن
کی حق تلفیاں کی گئی ہوں، معاف نہیں ہوتے۔ مزید برآں "یوم عرفہ اس قدر عظیم
دن ہے کہ اللہ تعالی اس دن سے زیادہ کسی بھی دن اپنے بندوں کو جہنم سے
آزادی نصیب نہیں فرماتا" (مسلم)
***۔۔۔۔۔۔۔۔اور پھر جیسا کہ الدیلمی کی روایت ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے
فرمایا: "میری امت کی بہترین عبادت تلاوت قرآن پاک ہے" چنانچہ ان دنوں میں
اس کا بھی خصوصی اہتمام ہونا چاہیے۔ مگر اس سلسلے میں بھی یہ بنیادی نکتہ
ذہن میں رہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "غور و تدبر کے ساتھ
تلاوت کی گئی دو آیتیں ایک سو نوافل پڑھنے سے بہتر ہیں"۔
*۔۔۔۔۔۔۔۔ عشرہ ذوالحجہ کی اہمیت و فضیلت کے پیش نظر اس میں نوافل کا بھی
اہتمام ہو ، مگر یہاں بھی تعداد (quantity) سے زیادہ فوکس (focus) ان کے
معیار (quality) پر ہو ۔ احیا العلوم جلد 4 میں حضرت ابن عباس رضی اللہ
تعالی عنہ سے مروی ہے، فرمایا کہ "فکر وتدبر یعنی خشوع وخضوع کے ساتھ پڑھی
ہوئی درمیانے درجے کی دورکعتیں اس رات بھر کی عبادت سے بہتر ہیں جن میں
تفکر نہ ہو" (خشوع و خضوع نہ ہو)۔ اور پھر نوافل کا مطلب نفلی نماز ہی نہیں
بلکہ ہر نفل نیکی ہے ۔
***۔۔۔۔۔۔۔اور نفل نیکیوں میں ایک اہم ترین نیکی صدقہ بھی ہے اور بےشک ان
دنوں میں صدقہ کرنا سارا سال صدقہ کرنے سے افضل ہے۔ لہٰذا موقع اچھا ہے۔ ہر
زائد ضرورت چیز صدقہ کرنے کی کوشش کریں۔ (وما یَسْــٴَـلُوْنَكَ مَا ذَا
یُنْفِقُوْنَؕ) "وہ پوچھتے ہیں راہ خدا میں کیا خرچ کریں۔۔۔؟" (قُلْ العفو)
"کہو جو کچھ بھی ضرورت سے زائد ہو "۔ بلکہ اگر ہو سکے تو (لَنْ تَنَالُوا
الْبِرَّ حَتّٰى تُنْفِقُوْا مِمَّا تُحِبُّوْنَ) "تم نیکی کو نہیں پہنچ
سکتے، جب تک کہ اپنی عزیز ترین چیز اللہ کے رستے میں قربان نہ کرو" کی عملی
تفسیر کے طور پر اپنی ذاتی استعمال کی چیزوں میں سے کوئی ایسی چیز جو ہمیں
بہت پسند ہو۔۔۔ بہت محبوب ہو۔۔۔جو ہماری کمزوری ہو۔۔۔ اسے اللہ کے رستے میں
لگانے کا تجربہ کر کے دیکھیں (پھر جو دل پر کھچ پڑے گی) اس کے نتیجے میں جو
ایمان کی حلاوت، جو ایمان کا مزہ نصیب ہوگا، اس کے کیا ہی کہنے۔
***۔۔۔۔۔۔۔اور قربانی کے موقع کی مناسبت سے بہت ضروری بات۔۔۔ رسول اللہ صلی
اللہ علیہ وسلم کا فرمان عظیم کہ "قربانی کے دن اللہ تعالٰی کو ابنِ آدم کا
کوئی عمل بھی (یعنی نیک سے نیک کوئی عمل بھی) قربانی سے زیادہ محبوب نہیں"
۔۔۔۔۔اور قربانی کیا ہے۔۔۔؟ یہی سوال جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
سے پوچھا گیا تو فرمایا : "یہ تمہارے باپ ابراہیم کی سنت ہے"
گویا اسی سنت کی تجدید میں ہم بھی ہر سال جانوروں کی قربانی کرکے، عید
قربان مناتے ہیں اور ایک باپ کی طرف سے بیٹے کی بے مثال قربانی کے واقعات
کی یاد تازہ کرتے ہیں اور ہر سال اس یاددہانی کا مقصد اور اس کی روح ، اس
کے سوا کیا ہو سکتی ہے کہ جانوروں کی ظاہری قربانی کے پسِ پردہ ہمارے اندر
بھی ان ہستیوں کی طرح اللہ کے لیے برضاورغبت ، کامل اطاعت کا جذبہ پیدا
ہو۔۔۔۔ انہی کی طرح مکمل خودسپردگی کی کیفیت اور انہی کی طرح قربانی کے
جذبات و احساسات، دنیا کے ہر رشتے۔۔۔ ہر چیز سے بڑھ کر ہم پر غالب آ جائیں۔
چنانچہ اس نسبت سے سرِ دست اپنے آپ سے یہ سوال کرنا تو لازمی بنتا ہے کہ
حضرت ابراہیم علیہ السلام نے تو ایک، دو دفعہ نہیں۔۔۔۔ چار ، چھ ، دس دفعہ
نہیں۔۔۔۔ ساری زندگی ۔۔۔۔اور ساری زندگی کے ہر ہر دن اور ہر ہر پل۔۔۔۔
(یعنی ہوش سنبھالنے سے لے کر زندگی کے آخری لمحے تک) اپنا مال، اولاد، زوج
، گھر بار۔۔۔۔ یعنی اپنا تن من دھن سب کچھ اللہ کے رستے میں قربان کر دیا۔
مگر میں اور آپ۔۔۔ اللہ کے لیے۔۔۔ اس کے دین کے لیے ۔۔۔۔کیا کیا کچھ قربان
کرنے کے لیے تیار ہیں۔۔۔۔؟ اپنے وقت میں سے۔۔۔؟ بلکہ اپنے پرائم ٹائم میں
سے۔۔۔؟ اپنے علم و ہنر ،اپنی صلاحیتوں ،اپنی قوتوں میں سے۔۔۔۔؟ اپنے مال،
اولاد، گھر بار میں سے۔۔۔۔؟ اپنے ہر قسم کے ذرائع ووسائل میں سے۔۔۔۔؟
کیوںکہ کہیں ایسا نہ ہو یہ موقع ہمارے لیے بھی خالی خولی صرف ایک رسم ، ایک
meat ceremony بن کر رہ جائے اور حقیقت میں ہم خالی ہاتھ کھڑے ہوں ۔
( مسز تنویر ندیم ، فیصل آباد)
|