ایک شخص بہت ہی غریب تھا۔ اس نے اپنی بیوی سے مشورہ کیا
کہ کیوں نہ شہر جا کر محنت مزدوری کر کے قسمت آزمائی جائے ۔ اس کی بیوی نے
اجازت دے دی۔ اس کی بیوی نے ابھی پہلا بیٹا ہی نہیں پیدا کیا تھا۔ کہ اپنی
بیوی کو بھری جوانی میں چھوڑ کر دور دراز شہر چلا گیا۔ تاکہ آنے والے بچے
کا بہتر مستقبل بن جائے۔ اتفاق سے اسے ایک رئیس کے ہاں ملازمت مل گئی۔ جوان
نے 20 سال اس رئیس آدمی کی خدمت کی۔ 20 سال بعد رئیس آدمی سے اجازت لی کہ
وہ اب گھر جانا چاہتا ہے۔ رئیس آدمی سخی بھی تھا۔ اس نے بہت ساری بکریاں،
گائے، بھینس اور اونٹ دیئے۔ اور امیر اور مالا مال بنا کر واپس بھیجا۔ وہ
واپس آ رہا تھا۔ کہ صحرا سے گزر ہوا۔ اور راستے میں اسے ایک جھونپڑی ملی۔
اس میں ایک درویش رہتا تھا۔ اس کے پاس رات گزاری۔ غریب شخص نے رات کو درویش
آدمی سے گزارش کی کہ وہ اسے نصیحت کرے۔ درویش نے کہا کہ میں نصیحت تو کروں
گا۔ لیکن میں نصیحت کرنے کی قیمت وصول کرتا ہوں۔ اس نے قیمت پوچھی۔ کہا کہ
ہر نصیحت کے بدلے ایک اونٹ۔اس نے کہا کہ میں مال دار ہوں نصیحت مل جائے۔ تو
اونٹ کی کوئی بات نہیں۔ اس نے قیمت ادا کی۔ بزرگ نے نصیحت کی۔
۱۔ جب بھی آسمان پر تارے ایک لائن میں دیکھو تو فوراََ کسی پہاڑ پر چلے
جانا، سیلاب آے گا۔
اس شخص نے کہا کہ یہ نصحیت کسی کام کی نہیں۔ مجھے کوئی اور نصیحت کی جائے۔
درویش نے کہا کہ نئی قیمت ادا کرو ۔ اس شخص نے ایک اور اونٹ دیا۔
۲۔ بزرگ نے کہا کہ جب بھی کسی شخص کی آنکھوں میں شیطانی چمک دیکھو، تو اس
سے بچنا، وہ تمہیں قتل کر دے گا۔
اس شخص نے کہا کہ یہ نصحیت کسی کام کی نہیں۔ مجھے کوئی اور نصیحت کی جائے۔
درویش نے کہا کہ نئی قیمت ادا کرو۔ اس شخص نے ایک اور اونٹ دیا۔
۳۔ بزرگ نے پھر نصیحت کی کہ رات کو پچھتا کر سو جانا۔ لیکن کبھی بھی کسی
انسان کو قتل نہ کرنا۔
اس شخص نے سوچا کہ تین اونٹ ضائع ہو گئے ۔ اور چپ کر کے سو گیا۔
صبح وہ چل دیا۔ سفر لمبا ہونے اور کئی دن کا سفر ہونے کی وجہ سے وہ ۳
نصحتیں بھول گیا۔ کہ وہ ایک رات ایک گاوٗں میں پہنچتا ہے۔ رات کو جب وہ
سونے لگتا ہے تو آسمان پر دیکھتا ہے کہ تمام ستارے ایک لائن میں آ گئے
ہیں ۔ اس کو درویش کی نصیحت یاد آ جاتی ہے۔ وہ شور مچاتا ہے۔ گاؤں والو!
پہاڑ پر چلو، سیلاب آنے والا ہے۔ لوگ اس کا مذاق اڑاتے ہیں۔ وہ اپنا مال ۔
کھول کر پہاڑ پر لے جاتا ہے۔ اور سو جاتا ہے۔ صبح اٹھتا ہے تو دیکھتا ہے کہ
نیچے سیلاب آیا ہوا ہے۔ اور سارے گاوٗں والے غرق ہو گئے ہیں۔ اُس نے بچ
جانے پر اللّٰـــہ پاک کا شُکر ادا کیا ۔
وہ کچھ دن پہاڑ پر رہتا ہے۔ سیلاب کا پانی اترتا ہے۔ تو وہ اگلی منزل پر چل
پڑتا ہے۔
ایک اور گاؤں میں پڑاو ڈالتا ہے۔ ایک شخص کے گھر قیام کرتا ہے۔ وہ باتوں سے
ایک بھلا شخص معلوم ہوتا تھا۔ لیکن اس کی آنکھوں میں وہی شیطانی چمک دیکھ
کر چونک جاتا ہے۔ بزرگ کی نصیحت اسے یاد آتی ہے۔ رات کو وہ اسی کش مکش میں
اسے نیند نہیں آتی۔ وہ اٹھا اور بستر کو اس انداز سے پھیلا دیا۔ کہ معلوم
ہوتا تھا کہ کوئی سویا ہوا ہے۔ وہ آدمی آیا۔ اس کے ہاتھ میں خنجر دیکھ کر
وہ پریشان ہوا ۔ وہ آیا اور بستر پر خنجر مارنا شروع کر دیا۔ یہ آیا اور
اس کو پیچھے سے پکڑ کر مارنا شروع کر دیا۔ اور اسے باندھ دیا۔ اور گاؤں
والوں کے حوالے کیا۔ اور صبح کو وہاں سے بھی چل دیا۔
آخر کار وہ رات کو اپنے گاوٗں میں پہنچتا ہے۔ اور اپنے گھر کے پاس پہنچ کر
دیکھتا ہے۔ گھر میں اس کی بیوی کسی کڑیئل جوان کے ساتھ والی چارپائی پر
سوئی پڑی ہے۔ اس شخص کو غصہ آیا۔ اور دل میں خیال آیا کہ میں اس نوجوان
کو قتل کر دوں ۔ جیسے ہی وہ ارادہ کرتا ہے۔ اسے اس درویش کی بات یاد آتی
ہے۔ کہ کبھی بھی قتل کر کے نہ سونا۔ پچھتا کر سو جانا۔ وہ سوچتا ہے۔ کہ
پہلی بھی نصیت کام کر گئی ۔ دوسری نصیت نے بھی کام کیا۔ لہٰذا وہ گاؤں سے
باہر آ جاتا ہے۔ صبح ہوئی اس کے دل میں خیال آیا کہ گاؤں والوں سے اپنا
حال دریافت کروں۔ جیسے ہی گاؤں میں جاتا ہے۔ اپنے بارے میں دریافت کرتا ہے۔
گاؤں والے بتاتے ہیں۔ کہ وہ شخص بہت ہی غریب تھا۔ اور برسوں پہلے روزی روٹی
کے لیے چلا گیا۔ اس نے مزید دریافت کیا کہ جب وہ جانے لگا تو بچہ ہونے والا
تھا۔ گاؤں والوں نے بتایا۔ ہاں اللہ نے اسے ایک بیٹا دیا ہے۔ جو کہ اب کڑیل
جوان ہو گیا ہے۔ اس کے ذہن میں آیا جو رات کو نوجوان تھا وہ میرا ہی بیٹا
تھا۔ جسے قتل کرنے کا خیال اس کے دل میں آیا تھا۔ وہ گھر گیا۔ اور بیوی
اور بیٹے سے ملا۔
اگر کوئی بھی بڑا نصیحت کرے تو اس کو پلَے سے باندھ لینا چاہیئے ۔ آج کل
بزرگ نصیحت کرے تو اولاد آگے سے ڈانٹ دیتے ہیں۔ ہر نصیحت پر غور کرنا
چاہیئے ۔ جو غور نہیں کرتے وہ پھر پچھتاتے ہیں۔
|