دنیا کی دوسری بڑی عالمی معاشی طاقت چین نے "ایک صدی میں
نظر نہ آنے والی" بڑی تبدیلیوں اور معاشی ترقی میں "سنگین تنزلی" کے تناظر
میں ایک مرتبہ پھر دنیا پر زور دیا ہے کہ وہ یکجہتی اور کھلے پن کا مظاہرہ
کرئے اور اتحاد سے موجودہ بحرانی کیفیت سے باہر نکلا جائے۔ایک بڑے ملک کے
رہنماء اور دنیا کے سرکردہ قائدین میں شمار کیے جانے والے چینی صدر شی جن
پھنگ نے حال ہی میں برکس بزنس فورم سے خطاب کرتے ہوئے واضح کیا کہ ابھرتی
ہوئی عالمی تبدیلیوں کے باوجود کھلے پن اور ترقی کا تاریخی رجحان واپس نہیں
پلٹے گا اور تعاون کے ذریعے مل کر چیلنجوں کا مقابلہ کرنے کی دنیا کی
مشترکہ خواہش ہمیشہ کی طرح مضبوط رہے گی۔
یہ فورم برکس کے 14ویں سربراہی اجلاس کی ایک اہم سرگرمی رہی ہے۔برکس کو
دنیا کی پانچ ابھرتی ہوئی منڈیوں کا نمائندہ گروپ سمجھا جاتا ہے جبکہ چین
رواں سال برکس کی گردشی صدارت سنبھال رہا ہے۔ یہ سربراہی اجلاس طویل عرصے
سے جاری کووڈ۔19 کی وبائی صورتحال، سست عالمی اقتصادی بحالی اور روس۔یوکرین
تنازعہ کے پس منظر میں سامنے آنے والے مسائل کے باعث نمایاں اہمیت کی حامل
سرگرمی ہے۔
شی جن پھنگ نے بزنس فورم سے خطاب میں عالمی معاشی بحالی کے حوالے سے اہم
تجاویز پیش کیں اور اقتصادی مسائل سے نمٹنے کا عمدہ فارمولہ پیش کیا۔انہوں
نے واضح کیا کہ حالیہ عرصے میں اقتصادی عالمگیریت کو مشکلات کا سامنا کرنا
ہے۔ بعض ممالک "الگ" ہونے کی کوشش کر رہے ہیں۔ عالمی برادری کو تشویش لاحق
ہے کہ عالمی معیشت منقسم ہو جائے گی ۔تاہم اس حقیقت کا ادراک لازم ہے کہ
اقتصادی عالمگیریت پیداواری قوتوں کی ترقی کے عین مطابق ہے۔ جو دوسروں کی
ترقی میں رخنہ اندازی کر رہے ہیں ، اُن کا اپنا ترقی کا راستہ بھی رک جائے
گا۔ انہوں نے عالمی معیشت کو سیاسی رنگ دینے کی کوششوں کے خلاف خبردار کرتے
ہوئے کہا کہ دنیا بھر کے ممالک کو پائیدار عالمی ترقی کو فروغ دینے اور
سودمند تعاون کو آگے بڑھانے کے لیے مل کر کام کرنا چاہیے۔
چین کی جانب سے واضح کیا گیا کہ اس وقت تقریباً 70 ممالک میں تقریباً 1.2
بلین افراد کووڈ-19، خوراک، توانائی اور قرضوں کے بحرانوں کا سامنا ہے ایسے
میں ترقی مختلف مسائل کو حل کرنے اور لوگوں کو بہتر زندگیاں فراہم کرنے کی
کلید ہے۔ بین الاقوامی برادری کو خوراک اور توانائی کے تحفظ کے لیے تعاون
کو فروغ دینا چاہیے، اختراع کو اپنانا چاہیے اور ترقی پذیر ممالک کی سبز
تبدیلی کو آگے بڑھانے اور کووڈ۔19سے لڑنے میں مدد کرنی چاہیے۔
شی جن پھنگ نے مزید کہا کہ ہمیں کھلے پن اور جامعیت پر قائم رہنا چاہیے،
پیداواری قوتوں کی ترقی میں حائل تمام رکاوٹوں کو دور کرنا چاہیے،
عالمگیریت کی صحت مند ترقی کو فروغ دینا چاہیے، سرمائے اور ٹیکنالوجی کے
آزادانہ بہاؤ اور جدت اور دانش کو مکمل طور پر ابھرنے کی اجازت دینی چاہیے،
اور عالمی اقتصادی ترقی کی ہم آہنگی کو یکجا کرنا چاہیے۔
چین نے اپنے اس موقف کا اعادہ کیا کہ عالمی تجارتی تنظیم کے ساتھ مل کر
کثیر الجہتی تجارتی نظام کو برقرار رکھا جائے، تجارت، سرمایہ کاری اور
تکنیکی رکاوٹوں کو ختم کیا جائے، اور کھلی عالمی معیشت کی تعمیر کو فروغ
دیا جائے۔دنیا کو وسیع مشاورت، مشترکہ شراکت اور مشترکہ فوائد پر عمل پیرا
ہونا چاہیے، عالمی اقتصادی نظم و نسق کو مضبوط بنانا چاہیے، ابھرتی ہوئی
منڈیوں اور ترقی پذیر ممالک کی نمائندگی اور آواز کو بڑھانا چاہیے، اور
تمام ممالک کے لیے مساوی حقوق، قوانین اور مواقع کو یقینی بنانا چاہیے۔
چینی صدر نے مزید کہا کہ برکس تعاون میکانزم ابھرتی ہوئی منڈیوں اور ترقی
پذیر ممالک کے درمیان تعاون کا ایک اہم پلیٹ فارم ہے۔ کاروباری برادری برکس
کے عملی تعاون کو فروغ دینے میں ایک نئی قوت ہے۔ اس وقت، برکس تعاون اعلیٰ
معیار کی ترقی کے ایک نئے مرحلے میں داخل ہو چکا ہے۔ انہوں نے امید ظاہر کی
کہ تاجر اور صنعت کار استقامت اور بہادری کے جذبے کے ساتھ کھلی ترقی کو آگے
بڑھانے ، اختراعی ترقی کے رہنما کردار کو آگے بڑھانے ، اور مشترکہ ترقی سے
فائدہ اٹھانے کی کوشش کریں گے تاکہ برکس تعاون کو فروغ دیا جائے ۔ شی جن
پھنگ نے اس جانب اشارہ کیا کہ چین اپنی میکرو پالیسی ایڈجسٹمنٹ کو تیز کرے
گا، مزید موثر اقدامات کرے گا، سالانہ اقتصادی اور سماجی ترقی کے اہداف کے
حصول کے لیے کوشش کرے گا اور وبا کے اثرات کو کم سے کم کرے گا۔چین بیرونی
دنیا کے لیے اپنے کھلے پن کی سطح کو بہتر بناتا رہے گا، اعلیٰ سطح کی کھلی
معیشت کا نیا نظام بنائے گا، اور مارکیٹ پر مبنی، قانون کی حکمرانی اور بین
الاقوامی کاروباری ماحول کی تشکیل جاری رکھے گا۔یہاں انہوں نے ایک مرتبہ
دنیا بھر کے ممالک اور کاروباری اداروں کو بھی ایک واضح پیغام دیا کہ چین
ملک میں سرمایہ کاری کرنے، اقتصادی اور تجارتی تعاون کو مضبوط بنانے اور
ترقی کے مواقع بانٹنے کے لیے ہر کسی کا پرتپاک خیرمقدم کرئے گا۔
اس فورم کے ذریعے چین کی جانب سے بڑے ترقی یافتہ ممالک کو ایک مرتبہ پھر یہ
باور کروایا گیا ہے کہ وہ ذمہ دارانہ اقتصادی پالیسیاں اپنائیں اور ایسی
تمام منفی پالیسیوں کے پھیلاؤ سے گریز کریں جو ترقی پذیر ممالک کو سنگین
نقصان پہنچا سکتی ہیں۔یوں چین نے اپنی ماضی کی روایات کو برقرار رکھتے ہوئے
ہمیشہ کی طرح اہم عالمی فورمز پر ترقی پذیر ممالک کے حقوق کی عمدہ ترجمانی
کی ہے اور اُن کے مفادات کے تحفظ کی خاطر اپنی آواز بلند کی ہے۔
|