مُلکوں مُلکوں دیکھا چاند‘ سفر نامہ طارق محمود مرزا

مُلکوں مُلکوں دیکھا چاند‘ سفر نامہ طارق محمود مرزا
ڈنمارک، سویڈن، ناروے، قطر (سفر نامہ)
٭
ڈاکٹر رئیس احمد صمدانی
ابن انشا نے چاند اور ملکوں ملکوں، شہروں شہروں چاند دیکھا تھا جس پر یہ شعر کہا ؎
ملکوں ملکوں، شہروں شہروں ، کیسا کیسا دیکھا چاند
ہر اک چاند کی اپنی دھج تھی، ہر اک چاند کا اپنا روپ
اب دیکھنا یہ ہے کہ آسٹریلیا کے پاکستانی طارق محمود مرزا نے یورپ کے ممالک ڈنمارک، سویڈن، ناروے کے علاوہ قطر کے حسین نظاروں میں چاند کی سچھ دھج کو کیسا کیسا دیکھا۔میں نے تا حال یورپ کے کسی بھی ملک کے چاند کا نظارہ نہیں کیا، البتہ میری بیٹی جو یورپ کے ایک خوبصورت چاند ملک جرمنی کے شہر ڈوزولڈورف کی باسی ہے اور میرے نواسی و نواسہ مجھے اپنے وطن میں ہی جرمنی اور دیگر یورپی ممالک کی سیر اکثر کراتے رہتے ہیں۔ میری زندگی کے ایجنڈے میں جرمنی جانا توہے، نہیں معلوم اس پر عمل ہوتا بھی ہے یا چاند اس سے قبل ہی بادلوں میں چھپ جاتا ہے۔ میں حجازِ مقدس متعدد بار جاچکا، ہر وقت ہر لمحہ سرزمین مقدس جانے کی کسک سی لگی رہتی ہے اور مقدس سرزمین پر جو دنیا کے حسین ترین چاند جلوہ افروز ہیں ان کی آب و تاب، ان کی حساسیت، ان کی خوبصورتی، ان کا حسن،ان سے لگاؤ، ان کی تعظیم، ان سے عقیدت دنیا کے لاکھوں چاندوں سے بڑھ کر ہے کا نظارہ خوب خوب کیا ہے۔ طارق محمود مرزانے حجاز مقدس کے سفر کو ’سفر عشق‘ کے نام سے قرطاس پر منتقل کیا ہے۔ اس سفرعشق پر ڈاکٹر عبد القدیر خان کی رائے کس قدر خوبصورت اور کتنی حسین ہے۔ خان صاحب کی یہ رائے پیش نظر سفر نامے کے پس سرِ ورق(بیک ٹائیٹل) پر موجود ہے۔ ڈاکٹر قدیر خان نے لکھا ”مرزا صاحب نے کتاب کیا لکھی ہے عشقِ روسولﷺ میں کلیجہ نکال کر رکھ دیا ہے۔ یہ کتاب دلی جذبات، عشق رسول ﷺ عشق الہٰی کی نہایت اعلیٰ عکاسی ہے“۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اللہ کے گھر اور روضہ رسول ﷺ پر حاضری کے وقت جو کیفیت ہوتی ہے اسے الفاظ میں بیان نہیں کیا جاسکتا۔پہلی بارمجھے2011 ء میں خانہ کعبہ اور روضہ رسول ﷺ پر حاضری کی سعادت نصیب ہوئی۔ خانہ کعبہ پر حاضری کی کیفیت کچھ اس طرح تھی۔
مانگنے تو بہت کچھ گیا تھا، پر ہوا عجب حال
تھے اشک جاری، اندر تھا ایک تلاطم بر پا
سوچتا ہی رہا کروں پیش اپنی سیاہ کاریاں
نہ دل نے دیا ساتھ نہ زباں پہ ہی کچھ آسکا
آسٹریلیا طارق محمود مرزا کا وطن ثانی ہے اصلاً نسلاً وہ پاکستانی اور پاکستان ان کا وطن اول ہے۔ وہ کئی تصانیف تحریر کرچکے ہیں ان میں سفرِ عشق، تلاشِ راہ،خوشبو کا سفر،دُنیا رنگ رنگیلی اور اب یورپ کے چند ممالک کا سفر نامہ بعنوان’’ملکوں ملکوں دیکھا چاند“۔ مرزا صاحب سے تعلق بہت دیر میں قائم ہوا، اس کاذریعہ بھی آسٹریلیا میں مقیم میرے محترم دوست افضل رضوی صاحب اور پھر ڈاکٹر محسن علی آرزو اور ادارہ ’پاک آسٹریلیا لٹرری فورم (پالف) بنا، کورونا نے ایک جانب لوگوں کو ایک دوسرے سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے جدا کردیا تو دوسری جانب آن لائن منعقد ہونے والی علمی و ادبی تقریبات نے بہت سے اجنبیوں کو جو ایک دوسرے سے کوسوں دور اور اجنبی تھے شناسا اور دوست بنا دیا، احباب کو قربتوں کے تعلق میں باندھ دیا۔ طارق مرزا سے بھی تعلق کورونا کے دنوں میں ہونے والی ادبی نششتیں جو پالف کے زیر اہتمام منعقد ہوا کرتی تھیں بنیاد ہیں، آسٹریلیا کے احباب مجھے بھی شریک محفل کر لیا کرتے تھے، یوں دیگر کے علاوہ طارق محمود مرزا بھی انہی نشستوں کو حصہ ہوا کرتے تھے۔ ان کے اس سفر نامے سے اندازہ ہوا کہ طارق محمود مرزا کے قلم میں طاقت ہے الفاظ کو خوبصورت جملوں میں پرونے کی۔ ڈاکٹر علی محمد خان نے پروفیسر رئیس علوی صاحب کی رائے طارق مرزا کی تحریر کے بارے میں نقل کی جوکچھ اس طرح سے ہے۔ ”طارق محمود مرزا لفظوں میں منظر کشی کا فن جانتے ہیں۔ وہ چلتے پھرتے لوگوں،بہتے ہوئے دریا، ٹھہری ہوئی جھیلوں، بلند و بالا عمارتوں، گنگناتی ہوئی آبشاروں، مہکتے ہوئے سبزازاروں اور گھومتی ہوئی پیچیدہ شاہراہوں کی رنگا رنگ تصویر کشی اس کمال کے ساتھ کرتے ہیں کہ قاری دیر تک ان کے لفظون کی پہنائیوں میں کھو جاتا ہے“۔پروفیسر رئیس علوی کا ذکر آیا تو ان کے بارے میں اس قدر کہوں گا کہ وہ میرے ہم نام تھے، آن لائن تقریبات میں جب بھی وہ شریک ہوتے میں انہیں ’میرے ہم نام پروفیسر‘ کہہ کر ہی مخاطب کیا کرتا تھا۔ رئیس علوی صاحب کی زندگی کراچی شہرسے وابستہ ہے، آخر میں وہ آسٹریلیا منتقل ہوگئے تھے اور وہی پر ابدی آرام فرما ہیں۔اپنے ایک مضمون میں اپنے ہم نام کو خراج تحسین پیش کر چکا ہوں۔
طارق محمود مرزا کے سفر نامے میں جن ممالک کا ذکر ہے ان کے بارے میں کچھ لکھنا اس لیے اچھا معلوم نہیں ہورہا کہ طارق محمود مرزا کی تحریر ان ممالک کا جو تعارف کراتی وہ قاری کو زیادہ لطف دے گی۔ جن ممالک کا سفر کیا اس کی ایک ایک جگہ کی تفصیل خوبصورت الفاظ میں بیان کی گئی ہے۔ ایک بات جو معروف شاعر جوش ملیح آبادی کے بارے میں کہی جاتی ہے وہ میں طارق محمود مرزا کے بارے میں کہنے میں ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرونگا کہ الفاظ طارق محمود مرزا کے آگے ہاتھ باندھے ہوئے ہوتے ہیں اور وہ انہیں جیسا چاہتے ہیں، جب چاہتے ہیں اپنی تحریر میں استعمال کرتے ہیں۔اتنے خوبصورت الفاظ سے جملوں کی کہکشاں سجانے والا یقینا خود بھی مزاجاً خوب سے خوب تر ہوگا۔ ایسی حسین شخصیات کم کم ملا کرتی ہیں۔
پیش نظر کتاب کا پہلا سفر ڈنمارک کا ہے جسے سفرنامہ نگار نے خوش و خرم لوگوں کا ملک کہا ہے۔شمالی یورپ کے ممالک دنمارک، سوئیڈن اور ناروے، ان ممالک کو اسکینڈے نیویا بھی کہا جاتا ہے۔آسٹریلیااور اسکینڈے نیویا گویا ایک سرِ پر دوسرا دوسرے سرے پر۔ گویا سیاح نے دنیا کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک کا سفر کیا۔ سیاح اس سے قبل بھی برطانیہ، فرانس، سوئیذرلینڈ، جرمنی، ہالینڈ اور بیلجیم کا سیاحتی سفر کر چکے ہیں۔ تفصیل ان کے سفر ناموں میں درج ہے۔ پیش نظر سفر مامے میں اپنے سفر کا آغاز کرتے ہوئے مرزا صاحب لکھتے ہیں کہ ”ایک چاند کھڑکی کے باہر اورستاروں کے جُھرمٹ میں میرے ساتھ ساتھ چل رہا تھا اور ایک چاند کھڑکی والی سیٹ پر میرے ساتھ برجمان تھا۔ سنہری زلفوں، نیلی آنکھوں اور ملیح چہرے والی درمیانی عُمر کی یورپی خاتون اور میرے درمیان والی سیٹ خالی تھی۔ نیلی جینز اور سُرخ بلاؤز میں اس کا گداز بدن جھانکتا بلکہ لشکارے مارتا تھا۔ بیٹھتے ہی میں نے ہیلو کہا۔ اُس نے کانوں سے ہیڈ فون اُتارا۔ مسکراہٹ کی بجلیاں گرائیں اور مترنم لہجے میں ہیلو کہا اور پھر موبائل کی طرف متوجہ ہوگئی۔حسن خود پر نازاں تھا۔ اُدھر ہم بھی انا پر قائم تھے لہٰذا آدھ پون گھنٹے وہ اپنے موبائل فون اور میں اپنی کتاب میں گم رہا۔ اس دوران ہمارا طیارہ سڈنی کی پُر شکوہ عمارتوں، وسیع سبزہ زاروں اور نیلے پانیوں والے ساحلوں سے بلند ہوتا فضاؤں میں پہنچ گیا۔زمین سے دورہوتے ہی سارے ارضی منظر کھو گئے۔ اب کھڑکی سے باہر دبیز تاریکی اور ہجوم ِ انجم میں درخشاں و فرحاں ماہتاب کے علا وہ کچھ دکھائی نہیں دیتا تھا۔ میں آسماں کی وسعتوں میں ضوفشاں چاند کو دیکھ رہا تھا کہ قریب سے آواز آئی”آپ کہاں جارہے ہیں“؟میں نے نظریں گھمائیں تو دیکھا نیلی آنکھیں اور سُرخ لب گویا تھے۔میں نے کہا۔”میری منزل ڈنمارک ہے“۔ او اچھا آپ وہاں رہتے ہیں یا وزٹ پر جارہے ہیں؟ مسکراتی نیلی آنکھوں نے پوچھا۔ ”سیاحت کے لیے جارہا ہوں۔ ڈنمارک،سویدن، ناروے، فن لینڈ اور واپسی پر قطر بھی جاؤں گا“۔ اس کی یاقوتی ہونٹوں سے سیٹی کی آواز نکلی ’بہت خوب! بہت اچھا روٹ ہے۔ یہ تمام ملک انتہائی دلکش اور دیکھنے سے تعلق رکھتے ہیں۔ آپ یقینا لطف اندوز ہوں گے۔ ان کی سیر کر کے“۔مرزا صاحب کی اس تحریر کے بعد اب گنجائش نہیں کہ کوئی اور مثال پیش کی جائے۔ دل تو چاہتا ہے کہ ہر ہر ملک کے سفر کی داستان یہاں بیان کروں لیکن ایسا ممکن نہیں۔ آپ کتاب کا مطالعہ کریں گے تو آپ کو احساس ہوگا کہ طارق محمود مرزا کی سیاحت کے نتیجے میں تخلیق پانے والا ادب کس قدر لاجواب ہے۔ میں نے جس صفحہ کا مطالعہ شروع کیا دل نہیں چاہتا تھا کہ بس کرجاؤں لیکن تبصرہ پھر تبصرہ ہوتا ہے۔ ویسے بھی میرے قارئین مجھ سے یہ گلہ کر تے ہیں کہ میں لمبی بات کرتا ہوں، میری تحریریں طویل ہوتی ہیں۔ چنانچہ خوبصورت سفر نامہ قلم بند کرنے پر سفرنامہ نگار کو دلی مبارک باد کے ساتھ اپنی بات ختم کرتا ہوں۔ (28جون 2022ء)
Prof. Dr Rais Ahmed Samdani
About the Author: Prof. Dr Rais Ahmed Samdani Read More Articles by Prof. Dr Rais Ahmed Samdani: 866 Articles with 1438747 views Ph D from Hamdard University on Hakim Muhammad Said . First PhD on Hakim Muhammad Said. topic of thesis was “Role of Hakim Mohammad Said Shaheed in t.. View More