اگنی پتھ کے اگنی ویر : چار سال کی نوکری پھر اندھیری رات

 ملک کےنوجوانوں کی نظر میں اگنی پتھ اسکیم ان کے مستقبل اور کیریئر سے کھلواڑہے۔ انہیں اس بات کاقلق ہے کہ کسی کو اس بات کی فکر نہیں ہے کہ محض چار سالوں کے اندر سبکدوش ہونے والے اگنی ویروں کو دوبارہ روزگار کہاں اور کیسے ملے گا؟ احتجاج کرنے والے نوجوانوں کو شکایت ہے اگنی پتھ اسکیم برسوں سے فوج میں تقرری کے لئے تیاری کرنے والوں کے مستقبل کو تاریک کر دے گی ۔سہارنپور میں سپرنٹنڈنٹ آف پولیس نے نعرے بازی کرنے والے مظاہرین کو بہلا پھسلا کر واپس بھیجا۔ یہی سلوک اگر ایک ہفتہ قبل مسلم نوجوانوں کے ساتھ کیا جاتا تو تشدد نہیں پھوٹتا لیکن وہاں تو چھوٹتے ہی لاٹھی ڈنڈا اور گولی تک کا معاملہ تھا ۔ اس کے بعد پوسٹر اور بلڈوزر چھوڑ دیا جاتا۔ضلع آگرہ کے مشتعل نوجوانوں نے متعدد مقامات پر احتجاج کرکے بس کو نقصان پہنچایا۔ صدر علاقے میں آرمی تقرری آفس سے شروع ہونے والا احتجاج شہر کے دیگر حصوں میں پھیل گیا۔ مظاہرین نے آگرہ۔لکھنؤ ایکسپریس وے اور ایم جی روڈ کو بلاک کر دیا ۔اس موقع پر نوجوانوں نے کہا کہ 20؍جون تک مرکزی حکومت نے اس اسکیم کو واپس نہیں لیا تو وہ دہلی کی جانب مارچ کرنے کومجبور ہوں گے۔ ان نوجوانوں پر طاقت کا استعمال کیا جاتا تو یقیناً اس کے نتیجے میں مجمع پر تشدد ہوجاتا۔

وزیر اعلی یوگی آدتیہ ناتھ کا معاملہ یہ ہے کہ اگر مسلمان احتجاج کا اعلان کرتے ہیں تو وہ انتظامیہ کو اسے سختی سے کچلنے کے احکامات جاری کردیتے ہیں اس کے برعکس جب ہندووں کا مظاہرہ ہوتا ہےتو بڑی نرمی کے ساتھ ٹوئٹر کے سہارے نوجوانوں سے گزارش کی جاتی ہے کہ : ’نوجوان ساتھیو! اگنی پتھ اسکیم آپ کے زندگی کو نئے امکانات فراہم کرنے کے ساتھ روشن مستقبل کی بنیاد بنے گی۔ اس لیے آپ کسی بہکاوے میں نہ آئیں۔‘ مظاہرین کا غم و غصہ کم کرنے کی خاطر یہ لکھا جاتا ہے کہ :’ مادر ہند کی خدمت کے جذبے سے سرشار ہمارے ’اگنی ویر‘ قوم کا بیش قیمتی سرمایہ ہوں گے اور یوپی حکومت اگنی ویروں کو پولیس و دیگر خدمات میں ترجیح دے گی‘۔ کسی بھی حکمراں کا راج دھرم یہی ہے لیکن یہ معاملہ بلا تفریق مذیب و ملت سبھی کے ساتھ ہونا چاہیے۔ یہ نہیں کہ ایک کو تو بڑے پیار سمجھایا جائے اور دوسرے کو پوسٹرلگا کر یا بلڈوزر چلاکر دھمکایا جائے۔ کسی مظاہرہ کرنے والے کو بلوائی کہا جائے اور کبھی بلوائیوں کو مظاہرین کا نام دے دیا جائے۔ یہ راج دھرم کی خلاف ورزی ہے؟ گیروا لباس زیب تن کرکے یوگی کہلانے والا حکمراں اگر اس طرح کا بھید بھاو کرے تو ایسا کرکے وہ اپنے دھرم کو بدنام کرتا ہے۔

فوج کے حوالے سے سرکاری اسکیم 'اگنی پتھ' کے خلاف طلبہ اور نوجوانوں کے مظاہروں کا سلسلہ جس صوبہ بہا رسے شروع ہوا،اتفاق سے وہاں مرکز میں برسرِ اقتدار قومی جمہوری محاذ کی حکومت ہے اور اس میں سب سے بڑی جماعت بی جے پی ہے۔ اس کے باوجود مظاہرے پرتشدد ہوگئے اور 22 ٹرینوں کو رد کرنا پڑا نیز پانچ ٹرینوں کو جزوی طور پر درمیانی روک دیا گیا۔ ریل گاڑی روکنے سے ڈبوں کو جلانے تک کی وارداتیں ہوئیں اور بی جے پی رہنماوں پر حملے بھی ہوئے ۔ نائب وزیر اعلیٰ ارونا دیوی کے قافلہ پر نوادہ شہر کے ریلوے کراسنگ پر بڑی تعداد میں مظاہرین نے پتھراؤ کیا۔ وہ خود تو کسی طرح بچ گئیں لیکن ان کے ڈرائیور کو معمولی چوٹیں آئیں۔ اسی طرح چھپرا کے رکن اسمبلی سی این گپتا کے گھر پر بھی پتھر بازی ہوئی ۔ بیتیاہ میں بہار کے اند ر بی جے پی کےصوبائی صدر سنجئے جیسوال کے گھر پر مظاہرین نے حملہ کردیا اور اس میں ایک پولیس والا بھی زخمی ہوگیا ۔

بھارتیہ جنتا پارٹی نے اس اہم مسئلہ پر حزب اختلاف اور این ڈی اے تو بی جے پی رہنماوں تک سے بات نہیں کی۔ مرکزی وزیر اور سابق آرمی چیف جنرل وی کے سنگھ سے جب اس بابت استفسار کیا گیا تو ان کا جواب تھا کہ وہ اس اسکیم کی تیاری میں شامل نہیں تھے۔ اس لیے اس کے بارے میں بہت زیادہ نہیں جانتے۔ جب اسے نافذ کیا جائے گا تب کچھ چیزیں واضح ہو جائیں گی۔نرگسیت کا شکار مودی جی کسی کام کو کرنے سے قبل این ڈی اے میں شامل جماعتوں کو اعتماد میں لینے کی ضرورت محسوس نہیں کرتے ۔ یہی وجہ ہے کہ جنتا دل (یو) کے ترجمان کے سی تیاگی نے کہا ،’’ اب جبکہ طلبا احتجاج کررہے ہیں مرکز کو کوئی درمیانی راستہ نکالنا پڑے گا کیونکہ وہ نوجوانوں کو اگنی پتھ کی تفہیم کرانے میں ناکام ہوگیا ہے۔تیاگی نے واضح کیا کہ وہ سرکاری املاک کے نقصان کی حمایت نہیں کرتے۔ اس سے قبل بہار میں جنتا دل کے وزیر توانائی برجیندر پرساد یادو نے کہا تھا حالانکہ ہم مرکزی حکومت کی اسکیم پر تبصرہ نہیں کرسکتے لیکن مرکز کو طلبا کے رہنماوں سے بات چیت کرنی چاہیے۔ جو لوگ اپنے آپ کو عقل کل سمجھتے ہیں وہ شرافت کے ساتھ کسی سے بات چیت نہیں کرتے بلکہ طاقت کے بل بوتے پر اپنی من مانی کرتے ہیں لیکن جب حالات بے قابو ہوجائیں تو ان کا دماغ درست ہوجاتا ہے۔

بی جے پی کی حلیف جماعت جنتا دل (یو) کے قومی صدر نے تو بلا لاگ لپیٹ کے صاف صاف کہہ دیا کہ: ’اگنی پتھ اسکیم کا اعلان کرنے کے بعد بیروزگاری کے سبب ناراضی ، مایوسی اور اپنے مستقبل کے تئیں ایک خوف کا ماحول پایا جارہا ہے۔ مرکز کو چاہیے کہ وہ اگنی پتھ اسکیم پر فوراً ازسرِ نو غورو خوض کرے کیونکہ یہ ملک کی حفاظت اور تحفظ سے متعلق معاملہ ہے‘۔ بی جے پی کے چاپلوس اور ابن الوقت لوگوں میں سے کسی کی مجال نہیں ہے کہ مودی کی مخالفت کرے لیکن گاندھی خاندان کے ورون گاندھی نے اس نئی اسکیم کے خلاف زبان کھولنے کی جرأت کا مظاہرہ کیا ہے۔ بی جے پی کے اس رکن پارلیمان نے نتائج سے بے پروا ہوکر وزیر دفاع راجناتھ سنگھ سے اس اسکیم کے تعلق سے کھڑے ہونے والے سوالوں کا جواب دینے کی گزارش کی ہے۔ انہوں نے اپنے ٹویٹ میں لکھا کہ نوجوانوں کو تذبذب کی کیفیت سے باہر نکالنے کے لیے سرکار فوراً اگنی پتھ سے متعلق پالیسی کو سامنے رکھ کر اپنا موقف واضح کرے۔

ورون گاندھی کے مطابق فوج میں پندرہ سال گزارنے والے فوجیوں میں بھی کارپوریٹ زیادہ دلچسپی نہیں دکھاتا ایسے میں محض چار سال کی مدت کے بعد اگنی ویروں کا کیا ہوگا؟ انہوں نے یہ منطق پیش کی کہ اس اسکیم کے تحت تربیت پر خرچ ہونے والی رقم ضائع ہوجائے گی کیونکہ فوج تو تربیت یافتہ جوانوں میں سے صرف 25فیصد کا استعمال کرسکے گی۔ اس سے دفاع کے بجٹ پر غیر ضروری بوجھ پڑے گا ۔ ہر سال بھرتی کیے جانے والے 75 فیصد جوان بیروزگار ہوجائیں گے ۔ یہ تعداد ہر سال بڑھتی چلی جائے گی ۔ اس سے جوانوں میں اور زیادہ بے چینی پنپے گی۔ موجودہ حکومت کی حالت لاتوں کے بھوت کی سی ہے۔ وہ شرافت کی زبان نہیں سمجھتی ۔ بی جے پی کے اندر کسی میں مودی پر تنقید کرنے کی ہمت نہیں ہے۔ سبرامنیم سوامی وغیرہ کچھ بولتے ہیں تو انہیں نظر انداز کردیا جاتاہے۔

موجودہ حکومت میں حلیف جماعتوں کےمشورے کو کسی قابل نہیں سمجھا جاتا اور حزب اختلاف کا مذاق اڑایا جاتا ہے۔ ایسے میں احتجاج کے علاوہ کوئی راستہ نہیں بچتا ۔ پہلے مسلمان سڑکوں پر آئے ۔مسلم دنیا نے ان کا نوٹس لیا اور سرکار ہوش میں آئی۔ اب نوجوان جھنجھوڑ کر سرکارکو جگانے اور غلطی کا احساس کرانے پر مجبور ہیں۔ اس احتجاج کا پہلا فائدہ تو یہ ہوا کہ مرکزی حکومت 'اگنی پتھ' فوجی بھرتی اسکیم کے لیے عمر کی حد 21 سال سے بڑھا کر 23 سال کر دی کیونکہ پچھلے دو سالوں میں کوئی بھرتی نہیں ہوئی ہےتاہم عمر کی حد میں صرف ایک بار توسیع کی گئی ہے، اس کے بعد عمر کی حد 21 سال ہی رہے گی لیکن جب دوسالوں سے بھرتی نہیں ہوئی تو دو سال تک چھوٹ ملنی چاہیے تھی۔
سرکار کے اس لالی پاپ سے بھی بات نہیں بنی اور بہار بند بھی ہوگیا تو مرکزی حکومت نے ’اگنی ویروں‘ کو مرکزی مسلح پولیس فورسز (سی اے پی ایف) اور آسام رائفلز میں 10 فیصد ریزرویشن فراہم کرنے کا اعلان کردیا ۔ ہ وہی پرانی روش ہے جو نوٹ بندی اور جی ایس ٹی کے وقت سامنے آئی تھی کہ ہر روز ایک نیا فیصلہ یا ترمیم ہوتی تھی ۔ یہ حکومت کی نااہلی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ یہ لوگ بغیر سوچے سمجھے جلدبازی میں احمقانہ فیصلہ کرتے ہیں اور اس کا خمیازہ پوری قوم کو بھگتنا پڑتا ہے ۔ایسے میں جو سرکاری املاک کا یا جانی نقصان ہورہا ہے اس کے لیے حکومت ذمہ دار ہے۔ یوگی جی تو املاک کے نقصان کی بھرپائی کی بات ہی بھول گئے ہیں لیکن راہل گاندھی نے یاد دلایا ہے کہ :’’نہ رینک نہ پنشن ، نہ دو سال سے کوئی بھرتی، نہ 4 سال کے بعد مستحکم مستقبل، نہ حکومت کی فوج کے تئیں عزت۔ ملک کے بے روزگار نوجوانوں کی آواز سنیے، انھیں ’اگنی پتھ‘ پر چلا کر ان کے صبر کی ’اگنی پریکشا‘ (امتحان) مت لیجیے، وزیر اعظم جی۔‘‘مودی جی کی بھلائی اس میں ہے کہ راہل کا یہ مشورہ مان لیں ورنہ معافی ویر بن کر کسان قانون کی طرح اسے بھی ناک گھس کر واپس لینا ہوگا۔

 
Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2124 Articles with 1452846 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.