شعبہ اردو ،جامعہ ملیہ اسلامیہ ،
نئی دہلی
نئے شاعروں میں جن لوگوں نے مشاعروں کے توسط سے اپنی پہچان بنائی ہے ان میں
معین شاداب کا نام بہت نمایاں ہے۔ حالانکہ اس زمانے میں مشاعروں کی شاعری
کو بہت زیادہ اہمیت نہیں دی جاتی بلکہ عام خیال یہی ہے کہ مشاعرے اب ہماری
تہذیبی زندگی کی نمائندگی کے بجائے پیش کش کا ادارہ بن چکے ہیں۔ حالات
حاضرہ اور دل پر چوٹ کرنے والے اشعار زیادہ پسند کئے جاتے ہیں۔ معین شاداب
کی شاعری میں بھی یہ ساری چیزیں موجود ہیں۔
مشاعروں کے سا معین کی ذہنی سطح کو سامنے رکھتے ہوئے معین شاداب نے بھی
شاعری کی ہے اور اس پر انہیں داد و تحسین بھی ملی لیکن ان سب کے ساتھ ساتھ
ایک چیز جو ان کی شاعری کے قاری کو اپنی طرف کھینچتی ہے وہ معین شاداب کا
شعری اسلوب ہے۔ غزل کے فنی رموز یعنی ایمائیت ، استعارہ سازی اور پیکر
تراشی کے بہت سے اچھے عمدہ نمونے ان کی شاعری میں جلوہ گر ہیں۔
معین شاداب کی شاعری کی ایک بڑی خوبی یہ بھی ہے کہ وہ سامعین کے حافظہ کا
بہت جلد حصہ بن جاتی ہے ۔ چونکہ ان کے شعروں میں برجستگی صفائی اور روانی
بہت ہے اس لئے بھی یہ اشعار جلد حافظے کاحصہ بننے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ اس
طرح کی شاعری کو ہم سہل ممتنع کی حامل بھی کہہ سکتے ہیں۔ ایک دوسرا زاویہ
نظر یہ بھی ہے کہ معین شاداب کے شعروں میں کیفیت کا رنگ بہت زیادہ غالب ہے۔
کہیں بھی آگ لگے اس کا نام آتاہے
اسے چراغ جلانے کی عادتیں تھیں بہت
ہر دن زندہ رہنے میں ہے خرچ بہت
آؤ چلو اک دو دن کو مرجاتے ہیں
تمہیں تو کوئی بھی مل جائے گا تمہارا کیا
یہ رشتہ توڑ کے ہوگا مگر ہمارا کیا
عرض ہی کرتے رہنے میں گھاٹا ہے بہت
کبھی کبھی ارشاد بھی کرنا پڑتا ہے
ان اشعار میں سب سے قابل غور پہلو زبان و بیان کی صفائی ہے۔ اور گزشتہ سطور
میں جو یہ کہا گیا تھا کہ کیفیت اور سہل ممتنع والے اشعار معین شاداب کے
یہاں زیادہ ہیں تو ان اشعار سے اس بات کی بھی تائید ہوتی ہے۔ شعر بنانے کے
لئے معین شاداب نے اس کے ظاہری در وبست کو قائم رکھنے کی کوشش کی ہے۔ ان
اشعار میں کوئی بہت زیادہ معنوی گہرائی تو نہیں ہے مگر شاعری کے جو ظاہری
آداب اور رسومیات ہیں فن کاران کو برتنے میں بہر حال کامیاب ہے اور یہی
معین شاداب کا فن ہے۔
اک زمانہ تھا جب زبان اور محاورے کے اشعار کاچلن عام تھا۔ ان اشعار کو بڑی
قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا۔ اب یہ روایت بہت کمزور ہو گئی ہے۔مگر معین
شاداب کے یہاں زبان اور محاوروں کی رعایت سے شعر بنانے کا ہنر بھی ہمیں
دکھائی دیتا ہے۔ نئی شاعری کے حوالے سے ایک قابل غور پہلو یہ بھی ہے کہ نئے
کے چکر میں بیشتر شعرا ایسا شعری تجربہ پیش کرتے ہیں کہ ان تک رسائی ناممکن
ہوجاتی ہے۔ اکثر ایسا ہوا ہے کہ نفس مضمون کو زیادہ اہمیت دی گئی اور اس کی
ادائیگی کے لئے جن الفاظ کا سہارا لیا گیا وہ اس کا ساتھ نہیں دیتے۔ شعری
مناسبات اور تلازمات کا فقدان بھی اسے کہا جاسکتا ہے غالبا ایسے ہی لوگوں
کے حوالے سے ظفر اقبال نے کہا تھا کہ کچھ لوگوں نے نئی شاعری اوپر سے اوڑھ
رکھی ہے۔ معین شاداب نئے اور اچھوتے مضامین کے لئے سرگرداں رہتے ہیں۔ کوشش
ان کی یہ ہوتی ہے کہ اگر نیا پن مضمون کی سطح پر نہ ہو تو کم از کم اظہار
ہی میں ندرت ہو۔ ان کی یہ کوشش بیشتر مواقع پر کامیاب کہی جاسکتی ہے۔
کسی کو دل سے بھلانے میں دیر لگتی ہے
یہ کپڑے کمرے کے اندر سکھانے پڑتے ہیں
تری نگاہ بھی اس دور کی زکوٰۃ ہوئی
جو مستحق ہے اسی تک نہیں پہنچتی ہے
دل سے اتر جاؤں گا یہ معلوم نہیں تھا
میں تو اس کے دل میں اتر کر دیکھا رہا تھا
کشیدگی ہے مری اس سے ہند پاک کی سی
مذاکرات ہمیشہ ہی بے نتیجہ رہے
دل کا سودا ان کے بس کی بات نہیں
اونے پونے دام لگا کر جاتے ہیں
پہلے شعر میں جو لہجہ اختیار کیا گیا ہے اسے دیکھیے۔ یہاں تخلیق کار دل سے
بھلانے میں دیر لگنے کا سبب جو بیان کررہا ہے اس کی ایک وجہ تو وہی دوسرا
مصرعہ ہے لیکن مصرعے میں بھی اس کا سبب پوشیدہ ہے یعنی دل سے بھلانے میں تو
دیر لگتی ہے اس مضمون کے دیگر اشعار کو اب ذہن میں تازہ کیجئے اور پھر معین
شاداب کے شعر کو پڑھیے تو اس کا اور ہی لطف ملے گا۔ میر صاحب کا شعر تو
مشہور زمانہ ہے۔
میرے رونے کی حقیقت جس میں تھی
ایک مدت تک وہ کاغذ نم رہا
فراق نے کہا کہ :
یک مدت سے تری یاد بھی آئی نہ ہمیں
اور ہم بھول گیے ہوں تجھے ایسا بھی نہیں
دوسرا شعر ندرت اوراظہار بیان کی عمدہ مثال ہے اور طنز بھی ۔ تیسرے شعر میں
محاورے کا کامیاب استعمال ہے شعر میں حسن و عشق کے معاملات کو سیاسی صورت
حال کے تناظر میں پیش کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ اور آخری شعر میں بھی بیان
اور تلاش مضمون کا حسن پوشیدہ ہے۔
معین شاداب کی شاعری کے کینوس کو بہت بڑا تونہیں کہا جاسکتا لیکن جو بھی ہے
وہ بہت بھرپور اور اپنی طرف متوجہ کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اساتذہ سخن
اچھی طرح اندازہ لگا سکتے ہیں کہ شاداب کے یہاں تخلیقی ہنر مندی اور وفور
دونوں ہیں۔ ان کی شاعری کا دائرہ بھی بہت محدود نہین اب یہ خود معین شاداب
پر منحصر ہے کہ وہ اپنی ان صلاحیتوں کو کس طرح بروئے کار لائیں کہ ان کی
شاعری اور زیادہ بامعنیٰ ہوجائے۔ زبان و بیان کی رنگا رنگی کے ساتھ موضوعات
میں مزید گیرائی اور گہرائی بھی پیدا ہو جائے۔ |