جنگ آزادی میں شعرا کا کردار

ملک کی آزادی میں جہاں اصحاب فکرو نظر ، اصحاب قلم ،علما، صلحا،ادبا،صحافی، قائدین اور مجاہدین نے اہم کردار ادا کیا ہے۔وہیںشعراءکرام کا بھی بہت بڑا کردار رہا ہے۔

ہمارے ملک میںصدیوں کی غلامی کی وجہ سے ساری فضا پر ذہنی، نظریاتی، تہذیبی اور عملی نقطئہ نظر سے مرعوبیت طاری تھی۔یہاں تک کہ جو طور طریق مغرب سے ’سند جواز ‘ پائیں وہ یہاں قابل تقلید تھے، چاہے وہ ہندوستانی معاشرے کے مزاج کے مطابق ہوں یا نہ ہوں۔ ظاہر ہے یہ کیفیت بڑی تشویش ناک تھی۔ اتنے بڑے قومی خسارے کا مداوا بس حصول ِ آزادی ہی کی صورت میں ہوسکتاتھا۔ محمد علی جوہر کی وہ تقریر جو سن ۰۳۹۱ء میں گول میز کانفرنس کے موقع پر لندن میں کی گئی اس پر شاہد عدل ہے۔ یہ محض الفاظ نہ تھے بلکہ ایک سچے محب وطن کے دل کی آواز تھی جن کو پڑھ کر آج بھی دل تڑپ جاتاہے۔ یہاں اس کا ایک چھوٹا سا اقتباس دیکھتے چلئے : ’میں آپ سے درجہ ءمستعمرات لینے کے لئے نہیں آیا، میں مکمل آزادی کے عقیدے کا قائل ہوںمیں اسی وقت اپنے ملک کو واپس جاؤں گا جب آزادی کا منشور میرے ہاتھ میں ہوگا۔ میں ایک غلام ملک کو لوٹ کر نہیں جاؤں گا۔ مجھے ایک غیر ملک میں جو آزاد ہے مسافری کی موت منظور ہے۔ اگر تم مجھے آزادی نہیں دوگے تو پھر تمھیں میرے لئے ایک قبر کی جگہ دینی ہوگی،،

اگرچہ اس وقت آزادی نہیں ملی مگر قدرت نے اس شہیدِ آزادی کو خالی ہاتھ لوٹ آنے کی ذلت سے بچالیا۔ برسوں پہلے غالب نے کہاتھا:
مارا دیارِ غیر میں لاکر وطن سے دور
رکھ لی مرے خدا نے مری بے کسی کی لاج

عجیب بات تھی کہ وہ خود بھی اپنے متعلق پیشین گوئی کر چکے تھے کہ :
ہے رشک ایک خلق کو جوہر کی موت پر
یہ اس کی دین ہے جسے پروردگار دے

ہمارے دیگر شعرا بھی غلامی کی وجہ سے زندگی پر پڑنے والے اثرات کو ظاہر کرتے رہے مثلاً محروم نے کہا :
غریبی بدنصیبی تلخ کامی بڑھتی جاتی ہے
وطن کی آہ میعادِ غلامی بڑھتی جاتی ہے
محروم وطن جب تک آزاد نہیںہوتا
سوبار بسنت آئے دل شاد نہیں ہوتا

ظفر علی خاں نے ظاہری کوششوں کے علاوہ خدا سے دعا کا بھی اہتمام کیا تھا:
جب تک آزادی نہ ہوگی ہم نہ ہوں گے شادکام
دیکھئے یہ عمر کب تک تلخ کامی میں کٹے
ہند کو بھی اے خدا قیدِ غلامی سے چھڑا
اپنے گھر کا ہم کو بھی مالک بنا، مختار کر

ان کے ماسوا بہت سے ایسے بھی تھے جو جد و جہد ِ آزادی کی راہ میں تن من دھن کی قربانیاںپیش کررہے تھے۔ سیف الدین کچلو اپنی چلتی ہوئی پریکٹس چھوڑ کر تحریکِ آزادی میں شریک ہوگئے۔ اپنا سوا لاکھ کا لینن پرائز بھی آل انڈیا پیس کونسل کے حوالے کردیا۔ حسرت موہانی نے کئی بار جیل کی ہوا کھائی۔ جلیل قدوائی نے درست کہاتھا کہ مسلسل قیدو بند کے باعث ان کی طبیعت میں مستقل مزاجی، صبرو رضا،توکل و استغنا، کی جو صفات پیدا ہوگئی تھیں ان کا عکس شاعری میں جھلکے بغیرنہ رہا۔ مثلاً یہ اشعار ملاحظہ ہوں :
ہے مشقِ سخن جاری چکی کی مشقت بھی
اک طرُفہ تماشا ہے حسرت کی طبیعت بھی
پابند · عیش نہ ہوسکے بندگانِ عشق
گرچہ ساماں سحر کا تھا نہ افطاری کا
کٹ گیا قید میں ماہِ رمضاں بھی حسرت
گو ختم قید کی وہ میعاد کرچکے
حریت کامل کی قسم لے کے اٹھے ہیں
اب سایہءبرٹش کی طرف جائیں گے ہم کیا

جہاں تک ان کی صحافت کا تعلق ہے وہ ان کے لئے ایک عقیدے سے کم نہ تھی۔ عقیدئہ حریت کے بغیر وہ صحافت کو دُکان داری کہتے تھے ۔ انھیںباتوں کی وجہ سے انھیں سید الاحرار کا خطاب دیا گیا تھا۔

اسی طرح بیسیوں جان نثار ان وطن نے قید و بند کی مصیبتیں سہیں۔آصف علی نے سات سال جیل کاٹی۔ انھیں چکی کی مشقت تو نہیں ملی مگر تنہائی کی مصیبت دور کرنے کے لئے انھوں نے کاغذقلم سے کام لے کرزندانی ادب کی بنا ڈالی۔ اس طرح ہمارے عظیم لیڈروں ، مثلاً گاندھی، نہرو، آزاد وغیرہ نے قید کے زمانے میں نہایت قیمتی تحریریںسپرد قلم کیں۔اسی کی عکاسی کرتے ہوئے وحید الدین سلیم نے کہا تھا:
اگر آزاد · ہندوستان پنہاں ہے جیلوں میں
تو ہے مشتاق ہر ہندی درودیوارِ زنداں کا
کبھی روکے سے رکتا ہے کہیں یہ ذوقِ آزادی
دہانے سے بھڑک اٹھتا ہے شعلہ آہِ سوزاں کا

اس جدو جہد کے دوران گاندھی جی وغیرہ نے عدم تشدد کی ایک فضا بنائی تھی۔ اس کے مثبت پہلوکو ذہن نشیں کرانے کی فکریں برابر جاری تھی۔لیکن ہر سوسائٹی میں کچھ جلد باز طبیعتیں بھی ہوا کرتی ہیں۔آزادی کے متوالوں میں بھی ایسوں کی کمی نہ تھی۔ انگریزوں سے نفرت کئے جانے کی معقول وجہیںبھی تھیں تو اپنے طور پر لوگوں نے انتقامی اقدامات کئے۔ان انقلابیوں سے بے شک کچھ زیادتیاں بھی ہوئیں مگر کسی نے بربریت سے کام نہیں لیا۔بہ ہر حال وہ پکڑے جاتے رہے اور انھیں قیدیں اور سزائیں ہوتی رہیں۔انھیں لوگوں میں بھگت سنگھ، اشفاق اللہ خاں، رام پرساد بسمل، چندسیکھر آزاد وغیرہ ہیں۔

اسی زمانے میں غلام بھیک نیرنگ کی دعوتِ عمل نہال کی وطن رواں کی ہندوستان جگر بریلوی کی بھارت صفی کیصحیفہءقوممحمود اسرائیلی کی نالہءعندلیب شفیق کیمیرا دیسشاد کی مادرِ وطن اور خوابِ وطن آزاد انصاری کی پیغامِ وطن نامی نظمیں کافی مشہور ہوئیں۔ آخر الذکر کی ایک نظم تعلیم ِبیداری کا یہ حصہ نظم کے عمومی لہجے کا اندازہ لگانے میں مدد دے گا۔
فکر عبث ہے جان نہ جائے ٭ جان کا کیا غم آن نہ جائے
ملکی قومی شان نہ جائے ٭مرد بنو میدان نہ جائے
توپوں کے تک وار نہ مانو ٭ جانیں دے دو ہار نہ مانو
بڈھو جوانو عورتو مردو ٭ کردو ترک غلامی کر دو
گھردو دردو زردو مردو ٭ بھر دو ملک کو ہُن سے بھر دو
گھر گھر شمعیں روشن کردو ٭ چپہ چپہ گلشن کردو

انور صابری کی نظم دیوانے میں بھی اسی تاثر کا اظہار ہے:
شیدا ہوں آزادی کا آزادنگر میں ڈیرا ہے
کیا بتلاؤں میرے بھیا کون جہاں میں میرا ہے
وہ میرا جو آزادی کی زلفوں کا دیوانہ ہے
وہ میرا جو شمع وطن کا شیدائی پروانہ ہے
وہ میرا جو موت کے آگے بے جگری سے تنتا ہے
وہ میرا جو آپ نہ ہو کچھ جس کی سب کچھ جنتا ہے
وہ میرا جو ہنستے ہنستے پھانسی پر چڑھ جاتاہے
وہ میرا جو موت سے بھی دوچار قدم بڑھ جاتاہے
آزادی کے طالب سن لے موت ہی میری منزل ہے
تو دنیا کا بن سکتاہے میرا بننا مشکل ہے

یحییٰ اعظمی نے اپنی قربانی کو ،حصولِ مقصد تک پہنچادینے پر زور دیا۔
چلیں گر گولیاں بھی عرصہ ءپیکار میں تم پر
تو سینہ تان کر اک آ ہنی دیوار ہو جاؤ
بڑھو ہاتھوں میں لے کر جنگِ آزادی کے پرچم کو
جوانانِ وطن کے قافلہ سالار ہوجاؤ

ساغر نظامی نے آزادی پر بہت ہی دل کو لگنے والے اشعارلکھے : نمونہ دیکھئے :
درد ملت ہے یہی احساسِ غیرت ہے یہی
راہِ آزادی میں موت آئے شہادت ہے یہی

جمیل مظہری کی نوائے جرس کا تیکھا لہجہ نظم کے ان اشعار سے ظاہر ہے :
سروں سے باندھ کر کفن، بڑھے چلو بڑھے چلو
امیدِمادرِوطن، بڑھے چلو بڑھے چلو
دعائیں دے رہی ہے ماں،بڑھے چلو بڑھے چلو
برادرانِ نوجواں، بڑھے چلو بڑھے چلو
جو راہ میں ٹھہر گئے، نہیں مقام پیش و پس
جو ہم سفر بچھڑگئے، تو چھیڑو نالہ ءجرس
سنو جمیل کی فغاں ، بڑھے چلو بڑھے چلو
برادرانِ نوجواں ، بڑھے چلو بڑھے چلو

شورش کاشمیری نے اس موضوع پر نئے دور کا فرماں، ذرا صبر وغیرہ نظمیں لکھیں ۔ اول الذکر کے اس ایک شعر سے ساری نظم کا اندازہ ہوجائے گا۔
تقدیر کو تدبیر کے بازو سے جھکادو
ناموس وطن کے لئے جانوں کو لڑادو

اس زمانے میں اختر شیرانی کی لوری کی بہت شہرت تھی نمونتاً یہ شعرملاحظہ ہوں :
وطن کی جنگِ آزادی میں جس نے سر کٹایا ہے
یہ اس شیدائے ملت باپ کا پرُجوش بیٹاہے
ابھی سے عالمِ طفلی کا مہر انداز کہتاہے
وطن کا پاسباں ہوگا، مرا ننھا جواں ہوگا

قدرتی طور پر ان کی نظم اُٹھ ساقی تلوار اُٹھا کا لہجہ بہت تیز تھا اور بڑھے چلوبھی اس سے کچھ کم درجے کی نظم نہ تھی۔اس کے چند شعر دیکھئے :
سپاہیانہ زندگی جو قسمت سعید ہے
تو رزم گہِ موت بھی سپاہیانہ عید ہے
جیا تو فخرِقوم ہے مرا تو وہ شہید ہے
سروں سے باندھ کر کفن بڑھے چلو بڑھے چلو
دلاورانِ تیغ زن بڑھے چلو بڑھے چلو
بہادرانِ صفت شکن بڑھے چلو بڑھے چلو

مجازکی نظم اندھیری رات کا مسافر، میں ہزار رکاوٹوں کے باوجود قوم کے آگے بڑھتے رہنے کا عزمِ صمیم ملتاہے۔
حکومت کے مظاہر جنگ کے پُر ہول نقشے ہیں
کدالوں کے مقابل توپ بندوقیںہیں نیزے ہیں
سلاسل، تازیانے، بیڑیاں، پھانسی کے تختے ہیں
مگر میں اپنی منزل کی طرف بڑھتا ہی جاتاہوں

مخدوم محی الدین کے جوشیلے لہجے میں بھی وہی گرمی تھی جس کا اثر سارے نوجوان شاعروں پر تھا :
کہو ہندوستان کی جے، کہو ہندوستان کی جے

سردار جعفری نے اس وقت کی نشان دہی کی جب مظلوموں کے دن پھریں گے۔شاعر کے جس سوال کا جواب خود آزادی نے دیا تھا اسے سنئے ۔
صبر ایوبی کا جب لبریز ہوتا ہے سُبو
سوزِ غم سے کھولتا ہے جب غلامی کا لہو
غاصبوں سے بڑھ کے جب کرتاہے حق اپنا سوال
جب نظر آتا ہے مظلوموں کے چہرے پر جلال
تفرقہ پڑتا ہے جب دنیا میں نسل و رنگ کا
لے کے میں آتی ہوں پرچم انقلاب و جنگ کا

ان دنوں الطاف مشہدی اپنی نظم جھوم کر اُٹھو وطن آزاد کرنے کے لئے کی وجہ سے مشہور ہوئے ، اور شمیم کرہانی کا یہ شعر زبان زد خاص و عام ہوگیا تھا۔
ہم پرچم قومی کو لہرا کے ہمالہ پر
دشمن کی حکومت کے جھنڈے کو جھکادیں گے

انھوں نے جنگ ِ عظیم پرتفصیل سے اظہار ِ خیال کیا مگر تان یہاں توڑی :
ماں تونہیں اس جنگ کی حامی ٭قتل ہوں جس میں ہند کے نامی
پر نہیں اٹھتا بارِ غلامی ٭گرتی ہوں میں اٹھ کے سنبھال
جاگ مرے نو عمر سپاہی ٭جاگ بھی میرے لال

مطّلبی فرید آبادی کے اٹھ رے سپہیا باورے لشکر تیرا کوچ اور جیل چلا دیس سپاہی رانی تجھ کو چھوڑ والے گیت بھی اسی جوش و جذبہ کے تحت لکھے گئے ۔ سکندر علی وجد بھی اپنے کسی ہم عصر سے پیچھے نہ تھے۔ وہ نوجوانوں کو اپنی پُرانی دل چسپیوں کو چھوڑ کر نئی ذمہ داریوں کو اپنے سر لینے پر آمادہ کرگئے۔
بتانِ سیم و زر پر مرنے والے نوجوانوں کو
وطن پر جان دینے کے لئے تیار کرنا ہے
غلامی کے اندھیرے میں نظر آتی نہیں منزل
چراغ عزم سے آساں رہِ دشوار کرنا ہے

امیں سلونوی نے قوم سے خطاب میں کہا کہ آزادی کی جدو جہد میں ہمت مردانہ سب سے اہم چیز ہے :
مثلِ قاروں نہ شوقِ مال و دولت چاہئے
مثل شاہوں کے نہ فکرِ جاہ و حشمت چاہئے
آسماں کی سی نہ تجھ کو حرص و رفعت چاہئے
ہاں یہ سب بے کار ہیں تھوڑی سی ہمت چاہئے
اپنی ملت اپنا ملک اپنا وطن آزاد کر
جس قدر بربادیاں ہیں اٹھ انھیں برباد کر

جوش ملیح آبادی اپنی گھن گرج کے لئے بہت مشہور تھے۔ مثلاً
دور محکومی میں راحت کفر، عشرت ہے حرام
دوستوں کی چاہ آپس کی محبت ہے حرام
علم ناجائز دستارِ فضیلت ہے حرام
انتہا یہ کہ غلامی کی عبادت ہے حرام
سایہءذلت سے مومن کا گزرنا ہے حرام
صرف جینا ہی نہیں بلکہ مرنا ہے حرام

لیکن ایسا بھی نہیں کہ موڈ ہمیشہ یکساں رہتا ہو بلکہ کبھی کبھی مضمون کی اہمیت کے پیش نظر ان کے طرز میں سنجیدگی اور متانت بھی نظر آجاتی تھی مثلاً :
سنو اے ساکنانِ خاکِ پستی
ندا کیا آرہی ہے آسماں سے
کہ آزادی کا اک لمحہ ہے بہتر
غلامی کی حیاتِ جاوداں سے

احمق پھپھوندوی بھی عنوانِ آزادی پر برابر لکھے جارہے تھے۔ سلام مچھلی شہری اور دوسرے شعرانے ایک نئے رجحان کو اپنے فن میں داخل کیا جسے سبھوں نے بہت پسند کیا۔ مثلاً
مجھے نفرت نہیں ہے عشقیہ اشعار سے لیکن
ابھی ان کو غلام آباد میں میں گا نہیں سکتا
مجھے نفرت نہیں پازیب کی جھنکار سے لیکن
ابھی دوزخ میں اس جنت سے دل بہلا نہیں سکتا
ابھی ہندوستاں کو آتشیں نغمے سنانے دو
ابھی چنگاریوں کو اک گلِ رنگیں بنانے دو
اسی طرح فیض احمد فیض کا کہنا کہ ع اور بھی کام ہیں دنیا میں محبت کے سوا
اور اختر شیرانی کے یہ الفاظ :
عشق و آزادی بہارِ زیست کا عنوان ہے
عشق میری جان ہے آزادی مرا ایمان ہے
عشق پر کردوں فدا میں اپنی ساری زندگی
لیکن آزادی پر میرا عشق بھی قربان ہے

اس بات کا ثبوت ہیں کہ اب شعرا اپنے روایتی محبوب سے زیادہ معشوقہء وطن کے دل دادہ ہیں۔ ایک سیدھے سادے ہندوستانی کے ذہن میں آزادی کے بعد ملک کا جو نقشہ تھاوہ ظفر علی خاں کے الفاظ میںیہ تھا :
برہمن مندروں میں اپنی پوجا کر رہے ہوں گے
مسلماں دے رہا اپنی مساجد میں اذاں ہوگا
جنھیں دو وقت کی روٹی میسر اب نہیں ہوتی
بچھا ان کے لئے دنیا کی ہر نعمت کا خواں ہوگا
من و تو کے یہ جتنے خرخشے ہیں مٹ چکے ہوں گے
نصیب اس وقت ہندو ومسلماں کا جواں ہوگا

لیکن حصولِ آزادی کے بعد آنکھوں نے جو دیکھا اور دل نے جو محسوس کیا وہ بھی شاعروں کی زبانوں پر آئے بغیر نہ رہا۔ فیض کے لہجے کی یہ تڑپ، جب انھوں نے اعلان کیا :
یہ داغ داغ اجالا، یہ شب گزیدہ سحر
وہ انتظار تھا جس کا، یہ وہ سحر تو نہیں

جگر کا یہ جذبہ ء احتساب جب انھوں نے لکھا :
کام بڑا ہے اور آزادی، نام بڑے اور درشن چھوٹے
شمع ہے لیکن دھندلی دھندلی، سایہ ہے لیکن روشن روشن

دونوں باتیں کسی اور ہی چیز کی غماز ہیں۔اکثر لوگ یہ کہنے پر مجبور تھے:
غلط کہ چھٹ گئیں تاریکیاں - اندھیرا ہے
افق کو دیکھو ابھی تک وہی اندھیرا ہے
وہ ملتفت ہیں مگر حدِ بے نیازی تک
گھنا درخت ہے سایہ کہاں گھنیرا ہے
سفیرِ روشنی سمجھو نقیبِ نور کہو
مگر چراغ تلے ہر جگہ اندھیرا ہے

جہاں تک آزادی کے خیر مقدم پر اور اس کی ہر سال گرہ پر لکھی جانے والی نظموں اور مضامین کا سوال ہے ان کے مجموعے شائع ہوچکے ہیں۔دعوے کے ساتھ کہا جاسکتا ہے کہ ہندوستان کی کسی اور زبان میں اتنی چیزیں نہ لکھی گئی ہوں گی جتنی اردو میں لکھی گئیں ۔

۵۱ اگست اور ۶۲ جنوری کی خوشی و مسرت ہر شخص کو ہوتی ہے مگر اس سے زیادہ ضروری خود اپنا احتساب ہے کہ ہم نے کہاں تک ان کا حق ادا کیااور کوتاہیوں کا کیا علاج کیا۔آزادی سے پہلے انگریزی حکومت پر نکتہ چینی کرنے والوں کو محب وطن کا سرٹیفکٹ مل رہا تھا مگر سن ۷۴کے بعد اپنوں کے خلاف بول کر ان کی ناخوشی مول لینا معمولی بات نہ تھی۔اہل اردو میں یہ ہمت تھی کہ وہ اہل اقتدار کو ٹوکیں۔ جوش نے جشنِ آزادی کے موقعہ پر ایک نظم سنائی جس میں تقریباً سارے ہی لیڈروں کی جھوٹی قوم پرستی اور دوغلے پن کا برملا اظہار کیا، یہاں تک کہ پنڈت نہروکے بارے میں یہ کہہ دیا :
فکرو نظر بھی تیشہءالفاظ بھی ہیں پاس
مشکل تو تیرے سامنے کوہِ انا کی ہے
Abdullah Salman Riaz
About the Author: Abdullah Salman Riaz Read More Articles by Abdullah Salman Riaz: 2 Articles with 5545 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.