تنزیلِ اٰیات اور زوالِ عُزٰی و لات و منات !!

#العلمAlilmعلمُ الکتابسُورٙةُالنجم ، اٰیت 19 تا 25 اخترکاشمیری
علمُ الکتاب اُرد زبان کی پہلی تفسیر آن لائن ہے جس سے روزانہ ایک لاکھ سے زیادہ اٙفراد اِستفادہ کرتے ہیں !!
برائے مہربانی ہمارے تمام دوست اپنے تمام دوستوں کے ساتھ قُرآن کا یہ پیغام زیادہ سے زیادہ شیئر کریں !!
اٰیات و مفہومِ اٰیات !!
افرءیتم
اللّٰت والعزٰی 19
و منوٰة الثالثة الاخرٰی
20 الکم الذکر ولہ الانثٰی
21 تلک اذا قسمة ضیزٰی 22
ان ھی الا اسماء سمیتموھا انتم
و اٰباءکم ما انزل اللہ بھا من سلطٰن
ان یتبعون الاالظن و ما تھوی الانفس و
لقد جاءھم من ربھم الھدٰی 23 ام للانسان
ما تمنٰی 24 فللہ الآخرة والاولٰی 25
اے ہمارے رسول ! آپ مُنکرینِ حق سے یہ سوال ضرور کریں کہ ایک طرف تو تُمہارے سامنے اللہ کا یہ دینِ حق ہے جس کی حقیقت کو تُم جانتے ہو اور اِس دینِ حق کی دعوت دینے والا جو رسُولِ برحق تُمہارے درمیان موجُود ہے اُس کی صداقت کو بھی تُم مانتے ہو اور دُوسری طرف اِس دینِ حق اور اِس رسُولِ حق کی دعوتِ برحق کے مقابلے میں تُمہارے وہ بتانِ لات و عُزی اور منات ہیں جن کی حقیقت اِس سے زیادہ کُچھ نہیں ہے کہ وہ تُمہارے وہ خیالی خُدا ہیں جن خیالی خداوں کی تُم پرستش کرتے ہو اور مزید ستم یہ کہ جس طرح تُم اِن دیوتاوں کی خُدائی کے خیالات دل میں سجائے ہوئے ہیں اسی طرح تُم اُن دیویوں کی خدائی کے تصورات بھی دل میں بسائے ہوئے ہو جن دیویوں کو تُم خُدا کی بیٹیاں کہتے ہو اور یہ خیال اللہ کی وحی کے اعتبار سے اس لیئے باطل ہے کہ اللہ کی ذات اٙبویت و اِبنیت کے اِن رشتوں سے ایک بلند تر ذات ہے اور انسانی عقل و فکر کے لحاظ سے بھی یہ اِس لیئے ایک احمقانہ خیال ہے کہ انسان ایک ہی وقت میں جن بیٹیوں کو اپنے لیئے ناپسندیدہ اٙولاد سمجھتا ہے اللہ کے لیئے اُن ہی بیٹیوں کو ایک پسندیدہ اٙولاد بھی قرار دیتا ہے حالانکہ وہ جانتا ہے کہ اِن دیویوں اور اِن دیوتاوں کے یہ نام اُس کے بڑوں نے کسی دلیل کے بغیر رکھے ہیں اور کسی دلیل کے بغیر ہی ان کی پُوجا کی جاتی ہے اور اِس پُوجا سے اُن کی حاجت روائی کی انسانی تمنا پہلے بھی کبھی نہیں پُوری ہوئی اور آئندہ بھی کبھی نہیں پُوری ہوگی !
مطالبِ اٰیات و مقاصدِ اٰیات. !
انسانی تاریخ کا گزشتہ سارا دور اِس اٙمر کا شاہد ہے کہ دُنیا میں ایسے انسان ہمیشہ ہی کم سے کم رہے ہیں جن میں خُدا پرستی کا وہ عاقلانہ جذبہ بیدار ہوتا ہے جو عاقلانہ جذبہ انسان کو شرک کے اندھیروں سے نکال کر توحید کی روشنی میں لاتا ہے اور دُنیا میں ایسے انسان ہمیشہ ہی زیادہ سے زیادہ رہے ہیں جن میں خود پرستی کا وہ جاہلانہ جذبہ ہی بیدار ہوتا ہے جو جاہلانہ جذبہ انسان کو توحید کی روشنی سے نکال کر شرک کے اندھیرے میں لے جاتا ہے اور جب کوئی انسان توحید کی روشنی سے نکل کر شرک کے اندھیرے میں پُہنچ جاتا ہے تو وہ اپنی گُم راہی کا جو پہلا گُم کُن عمل اٙنجام دیتا ہے وہ یہ عمل ہوتا ہے کہ وہ اپنے ہاتھ سے کسی انسان و حیوان یا کسی شاخ و شجر اور کوہ و حجر کا ایک بُت بناتا ہے اور پھر اِس خیال سے اپنے اُس خود ساختہ بُت کے سامنے اپنا سر جُھکاتا ہے کہ جس طرح اُس نے خاک میں رُلی ہوئی ایک بے جان چیز سے ایک جسم بنایا ہے اور اُس جسم کو ایک محفوظ جگہ پر محفوظ کر کے آلامِ جہان سے بچایا ہے تو اسی طرح اُس کا بنایا ہوا وہ بے جان جسم بھی اُس کے جسم و جان کو آلامِ جہان سے بچا سکتا ہے اور اپنی حفاظت سے محفوظ بھی بنا سکتا ہے جس طرح اُس نے اُس کے اُس جسم کو زمانے کی آندھیوں سے بچایا اور حفوظ بنایا ہے ، قُرآنِ کریم کے مُتعدد بیانات سے معلوم ہوتا ہے کہ نُوح علیہ السلام کی اُمت وہ پہلی اُمت تھی جس اُمت نے پہلی بار رحمٰن کے مُثبت علم کو ترک کر کے شیطٰن کے مٙنفی علم کو اختیار کیا تھا اور پھر اُس سے یہ مٙنفی نتیجہ بھی اخذ کیا تھا کہ اِس مادی عالٙم کے ہر مُفرد عنصر میں ایک ایسی پوشیدہ قوت موجُود ہوتی ہے کہ جب اُس مادے کا ایک عنصر دُوسرے عنصر کے ساتھ ملتا ہے تو اُن دو عناصر کے جذب و انجذاب سے ایک تیسری اور چوتھی نئی سی نئی چیز پیدا ہوتی چلی جاتی ہے یہاں تک کہ اُس مادے کے مُختلف اٙجزا سے جو آخری حرکت و عمل کی حامل ایک حیوانی شکل پیدا ہوتی ہے انسان کی شکل بھی اُسی حیوانی شکل کی ایک ترقی یافتہ شکل ہوتی ہے لیکن شیطان نے انسان کے اِس انسانی خیال میں اپنا یہ شیطانی خیال ملا کر انسانی ذہن میں اپنا یہ بُت پرستی کا یہ فلسفہ اُس کے ذہن میں ڈال دیا کہ انسان جو خیالی مُجسمے بناتا ہے اگر انسان اپنے اُن خیالی انسانی و حیوانی مجسموں کی پُوجا بھی کرنے لگ جائے تو اُس کے بنائے ہوئے وہ خیالی مُجسمے اُس انسان کے مُشکل کے وقت میں اُس انسان کی مُشکل کشائی اور حاجت روائی بھی کرنے لگ جاتے ہیں اور اسی طرح جب ایک انسان کا مادی وجُود مرنے کے بعد زمین کے مادی وجُود میں مل جاتا ہے تو انسان کا وہ مادی وجُود بھی زیرِ زمین جاکر اُن مُعجزاتی قُوتوں کا حامل بن جاتا ہے جو مُعجزاتی قُوتیں اُن زندہ انسانوں کی حاجت روائی اور مُشکل کشائی کرتی ہیں جو زندہ انسان اُن مُردہ انسانوں کی قبروں پر جا کر اپنی حاجت روائی اور مُشکل کشائی کی درخواست کرتے ہیں ، انسانی ذہن کا یہی وہ شیطانی اعتقاد ہے جس پر نُوح علیہ السلام کے زمانے سے لے کر آج کے علمی عروج کے زمانے تک انسانی اکثریت کار بند رہی ہے اور اِس طرح انسان پر شیطان کا وہ تسلط مضبوط سے مضبوط تر ہوتا رہا ہے جس شیطانی تسلط کو ختم کرنے کے لئے اللہ تعالٰی نے سیدنا محمد علیہ السلام پر یہ کتاب نازل کی ہے جس کے جن مُختلف مقامات پر اِس کتاب نے انسانی بُت گری و بُت پرستی کا جو احوال بیان کیا ہے اُن مقامات میں سے ایک مقام اِس سُورت کی اِن اٰیت کا یہ مقام ہے جس مقام پر عربوں کے بیشمار بتوں میں سے اُن تین بڑے بتوں ، لات و منات اور عُزٰی کا ذکر کیا گیا ہے جن بڑے بتوں کی عربوں کے تین بڑے قبائل پُوجا کیا کرتے تھے اور علمی دُنیا میں جس بات کے صحیح و غلط ہونے کا دار و مدار دلیل پر ہوتا ہے وہ اُس عملی دُنیا میں دلیل کے بجائے چرب زبانی سے کام لیا کرتے تھے اور اسی بے تُکی چرب زبانی کو دلیل قرار دینے پر اصرار بھی کیا کرتے تھے اِس لیئے قُرآن نے اِس سُورت کی اِن اٰیات میں اصولِ دین کے طور پر دلیل کے درست یا غیر درست ہونے کا یہ معیار مُقرر کیا ہے کہ ہر وہ دلیل جس کا مرجع ہوتا ہے وہی دلیل درست ہوتی ہے اور جس دلیل کا مٙخرج خارج اٙز وحی ہوتا ہے وہ دلیل باطل ہوتی ہے ، اِس اصول اور اِس معیار کے مطابق ایک بندہِ مُسلم کے لیئے دین کے حوالے سے دی گئی وہی دلیل درست قرار پاتی ہے جو قُرآنی اٙحکام کے مطابق ہوتی ہے اور جو دلیل قُرآن کے اِس معیار اور اصولِ معیار سے خارج ہوتی ہے وہ دلیل قابلِ توجہ نہیں ہوتی ، اِس دلیل اور معیارِ دلیل کے اعتبار سے اٰیاتِ بالا میں اللہ تعالٰی نے توحید کا جو حامل دین سیدنا محمد علیہ السلام پر نازل کیا ہے وہی ایک دین مٙبنی بر وحی اور مٙبنی بر حق دین ہے اِس دین سے باہر جس کتاب میں جو دین ہے وہ دلیلِ باطل کا ایک باطل دین ہے اور جہاں تک مُشرکینِ جہان کا اپنے بتوں پر ایمان رکھنے کا تعلق ہے تو وہ اُن کے نفس کا ایک نفسانی اور اُن کے شیطان کا ایک شیطانی گمان ہے جس کی علمی دُنیا میں کوئی حقیقت نہیں ہے !!
 

Babar Alyas
About the Author: Babar Alyas Read More Articles by Babar Alyas : 876 Articles with 559585 views استاد ہونے کے ناطے میرا مشن ہے کہ دائرہ اسلام کی حدود میں رہتے ہوۓ لکھو اور مقصد اپنی اصلاح ہو,
ایم اے مطالعہ پاکستان کرنے بعد کے درس نظامی کا کورس
.. View More