موجودہ حالات میں مسلمانان ہند کا لائحہ عمل کیا ہو
(Syed Ahmed Qadri, India)
گزشتہ دو دنوں میں گجرات فساد میں بے رحمی سے ہلاک کئے جانے والے ممبر
پارلیمنٹ احسان جعفری کی اہلیہ ذکیہ جعفری کی حمایت میں کھڑی اور ان کے لئے
قانونی لڑائی لڑنے والی انسانی حقوق کی سرگرم رکن تیشتا سیتلواڑ او ر ایک
ٹی وی چینل پر نوپور شرما اورنوین جین کے ذریعہ اہانت رسول ﷺ کی کلپ وائرل
کرنے والے آلٹ نیوز کے صحافی محمد زبیر کی گرفتاری اس بات کو ثابت کرتی ہے
کہ موجودہ حکومت مسلمانان ہند پر کئے جانے والے ظلم ، بربریت ،نا انصافی
اور حق تلفی کے خلاف جو کوئی آواز اٹھائے گا اور حمایت کرے گا ۔ایسے لوگوں
کو اس طرح کے نا کردہ گناہ کی پاداش میں سلاخوں کے پیچھے ڈال دیا جائے گا ۔
جس سے مسلمانوں کو خوف و دہشت میں مبتلا کرنے کے ساتھ ساتھ مذہبی منافرت کے
خلاف اور انسانی حقوق کی حمایت میں بولنے ،لکھنے اور احتجاج کرنے والوں کی
بھی ہمّت ، حوصلوں اور جرأ مندانہ اقدام کوکچل دینا چاہتی ہے ۔لیکن ایسے
خوف زدہ اور سراسیمگی کے ماحول میں بھی کچھ لوگ غلط کو غلط کہنے کی جرٔات
رکھنے والے ہیں ۔ کانگریس رہنما نے محمد زبیر کی گرفتاری پر سچ ہی کہا ہے
کہ بی جے پی کے جھوٹ ، تعصب اور منافرت کو بے نقاب کرنے والا ہر شخص حکومت
کے لئے خطرہ ہے ۔ ایک حق کی آواز کو دبانے کے رد عمل میں ہزاروں آوازیں
اٹھیں گی۔ ظلم پر ہمیشہ سچائی کی فتح ہوتی ہے ۔
ہم اس تلخ حقیقت سے انکار نہیں کر سکتے ہیں کہ ملک کا موجودہ مسلم مخالف
منظر نامہ ہم سب کے لئے لمحۂ فکریہ اور تشویشناک ہے ۔ مسلم مکت بھارت کا
نعرہ اور ایجنڈے کے تحت ملک کے مسلمانوں کے تمام تر ایثار و قربانیوں کو
فراموش کرتے ہوئے فرقہ پرستوں اور فاشسٹوں کے ذریعہ ان کے سیاسی ، سماجی ،
معاشرتی ، اقتصادی ، تعلیمی ، مذہبی ، تہذیبی ، لسانی اور ثقافتی تشخص کو
ختم کرنے کی غیر آئینی وغیر انسانی منصوبہ بند اور منظم کوششیں کی جا رہی
ہیں ۔ جن کی تفصیل آئے دن ملک کے طول و عرض سے مسلسل سامنے آتی رہی ہیں ۔
ایسے سانحات اور واقعات کے رونما ہونے کے بعد سیکولرزم پر یقین رکھنے والے
اور سماجی وسیاسی طور متحرک رہنے والے برادران وطن کے ساتھ ساتھ بیرون
ممالک کی بھی سیاسی و سماجی تنظیمیں اور معتبر دانشور نہ صرف ان کی مذمّت
کرتے ہیں بلکہ احتجاج اور مظاہرے بھی کرتے ہیں ۔ایسی سینکڑوں مثالیں بھری
پڑی ہیں ۔تازہ مثال ملک کی مشہورانسانی حقوق کارکن تیستا شیتلواڑجن کا میں
مندرجہ بالا سطور میں ذکر کیا ہے ۔ان کے ساتھ ساتھ بیرون ملک امریکہ میں
امریکی مسلم تنظیم انڈئین مسلم کونسل کی ہے جس نے امریکہ کی ڈیموکریٹک
پارٹی کی رکن پارلیامنٹ الہان عمر کے ذریعہ ایوان میں پیش کئے جانے والی اس
قرارداد کی ،جس میں مبینہ طور پر اقلیتوں خصوصاََ ہندوستان کے مسلمانوں کی
حق تلفی کی تنقید کی گئی ہے اور امریکہ کے صدر جو بائیڈن کی انتظامیہ سے
مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ امریکی اراکین کانگریس رشدہ طالب اور جوان ورگاس
کی پیش کردہ قرارداد میں بین الاقوامی مذہبی آزادی پر امریکی کمیشن کی
سفارشات پر عمل کرتے ہوئے اسے نافذکریں نیز ہندوستان میں مسلسل مذہب کی
بنیاد پرتفرقہ اور منافرت پھیلائے جانے کی کوششوں سے باز نہیں آنے اور مذہب
کی بنیاد پر ہندوستان کے مسلمانوں پر ظلم و تشدد کئے جانے پر بین الاقوامی
مذہبی ایکٹ کے تحت ہندوستان کو خصوصی فکر والا ملک (سی پی سی) قرار دئے
جانے کی بھی مانگ ( 27 اپریل 2022 ) کی گئی ہے ۔ یہ مطالبہ اپنے آپ میں کس
قدر سخت اور شرمناک ہے ۔ ملک و بیرون ممالک کی سیاست پر نظر رکھنے والے اس
سے بہ خوبی واقف ہیں ۔ ان چند مثالوں سے ملک اور بیرون ملک میں ہندوستانی
مسلمانوں کے ساتھ ہو رہے ظلم اور ناانصافیوں کے خلاف ہونے والی سنجیدہ
کوششوں کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے ۔
موجودہ حالات میں ہندوستانی مسلمان اپنی تاریخ کے مشکل ترین دور سے گزر رہے
ہیں۔مسلمان خوف اور مایوسی کے سائے میں جی رہے ہیں۔ اس لئے ایسے کٹھن دور
میں سنجیدہ حلقوں یہ سوال اٹھنا فطری اور لازمی ہے کہ ایسے حالات میں
مسلمانان ہند کیا کریں ۔ ؟
اس سلسلے میں ہم تاریخ کے اوراق پلٹیں تو ہم دیکھیں گے کہ ایسے مشکل حالات
ملک یا بیرون ممالک کے مسلمانوں کے لئے نئے نہیں ہیں ۔ مسلمان اکثر ایسے
سخت امتحان اور آزمائشوں سے گزرے ہیں اور ان پر فتح حاصل کی ہے ۔ اپنے ہی
ملک میں ٹھیک آزادی سے قبل مسلمانوں کے لئے یہاں کی زمین کتنی سخت اور گرم
کر دی گئی تھی ۔ لیکن ہندوستان کے مسلمانوں نے اپنی سیاسی بصیرت اور سماجی
ذمّہ داریوں کا مظاہرہ کرتے ہوئے نہ صرف ان کا مقابلہ کیا بلکہ اپنی اہمیت
اور حیثیت برقرار رکھتے ہوئے ان مشکل حالات پر قابو بھی پایا ۔
اس لئے ضرورت ہے کہ ہندوستان کے مسلمانوں کو وقت اور حالات کے تقاضوں کو
محسوس کرتے ہوئے ہمّت اور حوصلے کے ساتھ ان حالات کے تدارک کے لئے صبر و
تحمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے دانشورانہ ، عالمانہ ، مدبرانہ اور حکمت عملی کے
ساتھ مختصر مدتی اور طویل مدتی منصوبے تیار کریں اور ان پر بہت سنجیدگی سے
عمل کریں۔ آزادی ہند کے بعد ہم چندسیاسی پارٹیوں کے بھروسے اور ان کے جھوٹے
وعدوں پر تکیہ کئے رہے ۔ اپنی بقا اور تشخص کے لئے کبھی کوئی سنجیدہ اور
بڑا فیصلہ یا اقدام نہیں کیا ۔ لیکن اب وقت آ گیا ہے کہ ہم اپنے لئے اور
اپنے آنے والی نسل کے لئے جاگیں ۔ وقت ہمیشہ یکساں نہیں رہتا اور کب کون سا
رخ اختیار کر لے ، نہیں کہا جا سکتا ہے ۔ اس لئے ضروری ہے کہ ہم منظم اور
متحد ہو کر سب سے پہلے ذات پات کی خلیج کو ختم کر یں ۔ موجودہ حالات میں یہ
کام مشکل ضرور ہے لیکن نا ممکن نہیں ہے ۔ اس کے بعد ہمارے دینی رہنمأ اور
علمأ وقت اور حالات کی نزاکت اور تقاضوں کے پیش نظر اپنے مسلکی اختلافات کو
ٹھنڈے بستے میں ڈال کر اسلامی نظریہ حیات کو اپناتے مسلمانوں کے اندر
اتحادو اتفاق کا مظاہرہ کریں ۔ اس بات پر تو تمام مسلک کے لوگ اتفاق کرینگے
کہ قران پاک مکمل ضابطۂ حیات ہے ،جس سے ہمیں روشنی حاصل کرتے ہوئے لائحہ
عمل تیار کرنا ہے ۔اگر ان دو اہم مسئلہ پر اتفاق ہو جائے تو پھر ہم مقامی ،
ریاستی اور پھر قومی سطح پر ایسے قائد تلاش کریں جو اپنے کردار و عمل سے یہ
باور کرائے کہ وہ امت مسلمہ کا بے لوث خادم ہے ۔ اس کے ساتھ ہی ساتھ ہر
ریاست میں ایک’ ’تھنک ٹینک ‘ کی تشکیل دی جائے تاکہ وہ عوام اور قائد کے
درمیان رابطہ رکھے اور دانشمدانہ مشوروں و منصوبوں پر عمل کرے ۔ یہ تھنک
ٹینک اور قائد ملک کی اہم سیکولر شخصیات اور سیاسی و سماجی تنظیموں کے
رابطہ میں رہیں ۔ یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ ہندوستان میں ہمیں سیکولر
طاقتوں کے ساتھ مل کر ہی اپنی حکمت عملی کے ساتھ متعصب ،فرقہ پرستوں اور
فسطائی قوتوں کے مسلم مخالف منصوبوں اور سازشوں کے تیز دھار کو کند کرسکتے
ہیں ۔ مسلمانوں کو مشتعل کرنے کی فرقہ پرستتوں کی کوششوں کو ناکام کرنے کے
لئے یہ بھی ضروری ہے کہ ہم جذباتیت کا شکار نہیں ہوں۔ فرقہ پرستوں کی یہی
کوشش اور منصوبہ ہوتا ہے کہ مسلمانوں کو مشتعل کر انھیں احتجاج اور مظاہرے
کے لئے مجبور کریں اور وہ بغیر کسی منصوبہ اور قائد کے سڑکوں پر نکلیں اور
اس بھیڑ میں غیر سماجی عناصر کو دانستہ طور پر شامل کرکے ، آئینی اور قانون
کے دائرے میں ہونے والے احتجاج اور مظاہرے کے مثبت مقاصد کو فوت کر تے ہوئے
کوئی ایسی حرکت ہو کہ پولیس کے ظلم و بربریت کے مسلمان شکار بنیں ۔ انھیں
گولیاں ماری جائیں ، انھیں جیلوں میں سڑایا جائے ، ان کے گھروں کو منہدم
کیا جائے ۔ اس ضمن میں بہتر یہ ہے کہ فرقہ پرستوں کے نعروں اور ناپسندیدہ
بیانات کا جواب وہی سیکولر جماعت اور شخصیات دیں ، جن کے ہم رابطے میں ہیں
اور جو ہماری مجبوریوں کو بخوبی سمجھ رہے ہیں ۔ یہی ہماری حکمت عملی ہونی
چاہئے ۔اس لئے کہ یہ بات بھی اب پوری طرح عیاں ہو چکی ہے کہ ملک کے مسلمان
کسی بھی قیمت پر اس وقت تک اپنے مثبت منصوبوں پر کامیاب نہیں ہو سکتے جب تک
کہ وہ ملک کے سیکولر طاقتوں کے ساتھ نہیں چلینگے ۔ ہمیں اپنے برادران وطن
کے ساتھ ہم آہنگی کا بھی بھرپور مظاہرہ کرنا ہوگا ، جو ہماری شاندار روایت
اور گنگا جمنی تہذیب کا حصہ رہی ہے ۔ ان کے دُکھ سُکھ ، ان کے پرب تیوہار
میں کثرت سے شامل ہوں ۔ بازار اور دیگر تجارتی ماحول میں اپنے مخلصانہ
کردار و عمل سے ان کے دلوں اپنے لئے محبت اور یکجہتی کا جذبہ پیدا کریں ۔
ان امور کے ساتھ ساتھ ہمیں تعلیم کے میدان میں بھی کامیاب ہونا ہے ۔ اس لئے
کہ تعلیم ہی ترقی کی راہ کو آسان کرتا ہے ۔یہی وجہ ہے کہ قران میں تعلیم کی
اہمیت پر کافی زور دیا گیا ہے ۔ اس کار خیرکے لئے مخیر حضرات اور بہت ساری
فلاحی تنظیمیں ہیں ، جو معاشی طور پر کمزور اور حاشیہ پر پڑے لوگوں کی
مجبوریوں کو سمجھتے ہوئے بچوں کو تعلیم کے حصول کو آسان بنا سکتے ہیں ۔ ملک
میں ہمارے اوقاف کے تحت اتنی دولت ہے کہ ان سے ہم بڑی آسانی سے اور بڑے
پیمانے پر اسکول، تکنیکی کالج اور مدارس کھول سکتے ہیں ، جو ہمارے بچوں کے
تابناک مستقبل کے ضامن بن سکتے ہیں ۔ اوقاف پر جس طرح ناجائز قبضہ لوگوں نے
کر رکھا ہے ، انھیں یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ حکومت کی نگاہ میں ان کی کرتوت
بہت ہی واضح طور پر ہے اور وہ اگر ان ناگفتہ بہ حالات میں بھی اپنی اپنی
ذمّہ داریوں کو ایمانداری سے نہیں نبھاتے ہیں تو وہ دن دور نہیں جب حکومت
کوئی بھی قانون لا کر اوقاف کی دولت کو اپنے مصرف میں لے لیگی اور ہم ہاتھ
ملتے رہ جائینگے۔
ہمیں یہ بھی سمجھنا ہوگا کہ حکومت کی سرپرستی میں فرقہ پرستوں کے حوصلے
بڑھتے جا رہے ہیں حالات بہت تیزی سے ہمارے مخالف ہو رہے ہیں۔ اس لئے بہتر
ہے کہ وقت کی نزاکت اور ضرورت کو سمجھتے ہوئے حکمت عملی سے اپنے ذاتی
مفادات کو ترجیح دینے کے بجائے اجتمائی مفادات کو فوقیت دیں ورنہ اﷲ نہ کرے
کہ علّامہ اقبال کی یہ پیشن گوئی سچ ہو جائے کہ
نہ سمجھوگے تو مٹ جاؤگے ائے ہندوستاں والو تمہاری داستاں تک بھی نہ ہوگی
داستانوں میں
٭٭٭٭٭٭
|
|