پنجاب میں آئندہ ماہ ضمنی الیکشن ہونے جا رہے ہیں ۔
الیکشن کوئی بھی ہوں ، سیاستدانوں کے حوالے سے مجموعی طور پر عوام کو
مایوسی ہی ملی ہے ۔ عوامی نمائندہ کیسا ہو؟ لوگوں نے اس حوالے سے اپنے
ذہنوں میں اک خاص شبیہ بنا رکھی ہوتی ہے ۔ مگر مقام افسوس ہے کہ ہمیں مشکل
سے ہی کوئی منتخب عوامی نمائندہ ایسا ملتا ہے جو اپنے عہدے کا صحیح حق ادا
کرتا ہے ۔ہمیں آج تک کسی بھی پارٹی کے جتنے بھی صوبائی یا قومی اسمبلی کے
نمائندے میسر آئے ہیں ، ہم نے انہیں ’’روتے‘‘ ہوئے ہی دیکھا ہے ۔ حلقے یا
علاقے کی عوام ترقیاتی کاموں اور اپنے بیشتر مسائل کے حل کیلئے منتخب
نمائندوں کی جانب دیکھتے ہیں لیکن وہ مسائل کے حل کی کوششوں کی بجائے حلقے
اور اسمبلیوں میں غیر سنجیدگی کا مظاہرہ کرتے پائے جاتے ہیں ۔ لمحہ فکریہ
تو یہ ہے کہ عوامی نمائندے اپنے علاقے کے مسائل سے ہی بے خبر ہوتے ہیں ۔
ترقیاتی کاموں کے علاوہ فلاح و بہبود کے کام کرتے بھی یہ کبھی نہیں پائے
گئے ۔ منتخب ہونے کے بعد حلقے سے غائب رہنا اور ووٹرز کے ہاتھ آنے کی بجائے
انہیں ٹال مٹول کرتے رہنا ، ان کی روایت بن چکی ہے ۔ ایسے میں کوئی عوامی
نمائندہ ، جو عوام کا درد لئے ان کی فلاح کیلئے کام کرنے کا ’’سر درد‘‘ لے،
ہمیں بڑی مشکل سے دکھائی دیتا ہے۔
ہماری ضرورت کیسا عوامی نمائندہ ہے ، اس کیلئے ایک مثال پیش کرتا ہوں ۔
لاہور کے ایک حلقے میں عمر منشاء نامی ایک مقامی سیاستدان ہے۔ عمر منشاء
گذشتہ کئی سالوں سے محض ایک سیاسی امیدوار کی حیثیت سے حلقے کے عوام کیلئے
کام کر رہا ہے ۔ اس کے پاس کوئی سیاسی یا عوامی عہدہ نہیں ۔ لیکن اس کے
باوجود اپنے علاقے کے بیشتر مسائل رضاکارانہ طور پر ذاتی تگ و دو سے حل
کرتا دکھائی دیتا ہے ۔ وہ علاقے کے ہر مسئلہ پر نظر اور لوگوں کو اس سے
باخبر رکھتا تھا۔ اس نے کبھی نہیں کہا کہ میرے پاس وسائل نہیں ہیں ، یا میں
منتخب نمائندہ نہیں ہوں ، تو میں کیوں کام کروں؟ ۔ حلقے کا ٹیوب ویل خراب
ہو، بجلی کا نظام متاثر ہو ، سوئی گیس کی سپلائی کا مسئلہ ہو ، وپانی کی
کمی یا کوئی اور ایشو، عمر منشاء موقع پر موجود رہ کر ، مسائل کے جلد از
جلد حل کیلئے نہ صرف کوشاں رہتا بلکہ عوام کو حوصلہ دیتے ہوئے اس کی
پراگریس (اپ ڈیٹ) سے بھی مسلسل باخبر رکھتا تھا ۔ فی الوقت عمر منشاء نہ تو
ایم پی اے ہے، نہ ہی ایم این اے ، وہ یہ بھی جانتا ہے کہ اتنے بے شمار ’’سینئر‘‘
سیاستدانوں کی موجودگی میں اس کی منزل ابھی بہت دور ہے ۔ لیکن اس کے باوجود
اس نے عوام کی خدمت کا سفر بنا کسی لالچ کے جاری رکھا ہوا ہے۔
اسے کہیں سے معلوم ہوتا ہے کہ فلاں علاقے ، محلہ میں فلاں مسئلہ ہے ، خود
متحرک ہو کر اسے حل کرواتا ہے ۔ اس ضمن میں متعلقہ ادارے میں شنوائی نہ
ہونے پر وہ اوپر تک دروازہ کھٹکھٹاتا ہے ۔ محض ایک سیاسی ، عوامی (مگر غیر
منتخب) نمائندہ ہونے کی حیثیت سے اختیارات نہ ہونے کے باوجود عمر منشاء نے
علاقے اور عوام کا ہر وہ کام کروایا اور کروا رہا ہے جو دراصل وہاں کے
منتخب عوامی نمائندے کی ذمہ داری ہے ۔ مگر ہمارے منتخب نمائندے عمومی طور
پر موقع سے غائب رہتے ہیں ، یا پھر وسائل نہ ہونے کا رونا روتے ہوئے آئیں
بائیں شائیں کر کے پوری حکومتی مدت گزار دیتے ہیں ، اور عوام مسائل کے
ازالے کیلئے ترستے رہتے ہیں ۔
یہ منتخب عوامی نمائندے کی ذمہ داری ہے کہ اس کے حلقہ کے کسی بھی فرد کو
کوئی مسئلہ درپیش ہے ، لوگوں کو موقع پر میسر رہے ، خود ساتھ چل کر جائے
اور مسئلہ حل کروائے ۔ بدقسمتی سے ہمیں منتخب عوامی نمائندوں میں یہ خوبیاں
نہیں ملتیں ۔ ہمارے سیاسی نظام کو عمر منشاء جیسے ہی عوامی نمائندوں کی اشد
ضرورت ہے جو کہ ہمارے ہاں بہت نایاب ہیں ۔ ہم بہت امید کے ساتھ اپنے مسائل
کے حل کیلئے کسی کو منتخب کرتے ہیں ۔ جب وہ ہماری امیدوں پر پورا نہ اترے
تو ہمیں اپنے حق رائے دہی استعمال کرنے پر ندامت ہوتی ہے۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ عوام ہی ہر مرتبہ نادم کیوں ہوں؟ ۔ ہمارے سیاسی
نظام میں کتنے عمر منشاء ہیں جو حلقے کی عوام کے ساتھ تھانے کچہریوں تک جا
کر انہیں انصاف دلوا سکیں ۔ حلقے کے بنیادی مسائل ذاتی دلچسپی لے کر حل
کروا سکیں؟ ۔ پنجاب میں 17 جولائی کو ہونے والے ضمنی انتخابات میں حصہ لینے
والے امیدوار عوام میں جانے سے پہلے کم از کم ایک دفعہ اپنے گریبان میں
ضرور جھانک لیں ۔ بالخصوص وہ امیدوار جو کچھ مہینے پہلے تک منتخب تھے ،
حکومت میں تھے ، مگر پھر بوجودہ ڈی سیٹ ہوئے اور اب دوبارہ پارٹی بدل کر
انتخاب میں حصہ لے رہے ہیں ۔ وہ یہ ضرور سوچیں کہ جب ان کے پاس اختیار تھا
تو انہوں نے اپنے حلقے اور اس کی عوام کیلئے کیا کیا ؟ ۔ اگر انہیں خود میں
عمر منشاء کی جھلک دکھائی دے تو وہ سرخرو ہیں ، وگرنہ انہیں اپنے سیاسی
کردار پر ضرور غور کرنا چاہئے ۔ کیونکہ ایسے ہی سیاستدانوں کی وجہ سے لوگوں
کا انتخابی عمل سے دل اچاٹ ہوتا جا رہا ہے ۔ حالیہ چند ضمنی انتخابات کا
ٹرن آؤٹ یہی بتاتا ہے ۔
|