پاکستان کی تعمیر وترقی کے نئے راستے کھولنے کے دعوے
کرنے والے ملک کے حالات تو نہ سنوار سکے البتہ چڑھتے سورج کے پجاری بننے کی
مشق جاری رکھی گئی،یعنی وفاداریاں تبدیل کرنے کا چلن زندہ رکھا گیا،یہ کوئی
آج رواج پانے والی سرگرمی نہیں،یہ قیام پاکستان سے پہلے بھی رواج تھا سیاسی
وفاداریاں تبدیل کرنا معمول کی بات رہی،کچھ فیصلے تو بہت خوب تھے جیسے
واقعہ کربلا میں'' حر ''کے کردار کو امر کرنے والا چلن نئی تاریخ رقم
کرگیا،اس حوالے سے پھر حق کے لئے اقتدار کو ٹھوکر مارنے والوں کی تعظیم
تاریخ بھی سنہری حروف سے کرتی رہی،یہ واقعہ اچھائی اور برائی کے درمیان فرق
کو واضح کرگیا،اس حوالے سے آج کالم نگار اور شاعر حسن نثاراپنے اس شعر میں
تاحال خود کو یزیدی پیروکار تسلیم کرتے ہوئے امام عالی مقام کے منتظر
دکھائی دیتے ہیں۔ع
مراحسین ابھی کربلا نہیں پہنچا
میں حر ہوں اور ابھی لشکریزید میں ہوں
جبکہ اس عہد میں وفاداریاں بدلنے کا معیار یکسر مختلف ہے،اس عہد میں حکومت
ملنے کی امید پر ''فیورٹ''پارٹی کو جوائن کرنے کا رواج عام ہے،یہ طریقہ کار
پاکستان میں شروع سے اب تک مروج ہے۔حالانکہ ماضی میں سیاسی وفاداریاں تبدیل
کرنے کی اس روایت کی حوصلہ شکنی کی جاتی تھی مگر اب ایسا تو
ہرگزنہیں،بہرحال الیکشن جیتنے والے ارکان حکومت سازی کے عمل کے دوران بھی
سیاسی وفاداریاں تبدیل کرنے کی روایت عام کررہے ہیں،یہ کام ماضی میں تو
عظیم مقصد کے لئے تھا مگر اب محض اپنے ذاتی فائدے کی خاطر وفاداریاں تبدیل
کرنے کی روایت کو آگے بڑھایا گیا ہے۔قیام پاکستان سے قبل بھی سیاسی
وفاداریاں بدلنے کا رواج تھا، 1946 کے انتخابات میں یونینسٹ پارٹی 175 کے
ایوان میں صرف 18 نشستوں پر کامیابی حاصل کر پائی۔صرف نو برس کی مختصر مدت
میں وہ سب کچھ ہو گیا جس کا 1937 میں خواب بھی نہیں دیکھا جا سکتا تھا۔
انتخابات کے بعد ان 18 نشستوں پر کامیاب ہونے والے نصف سے زیادہ ارکان آل
انڈیا مسلم لیگ سے آ ملے۔ یہی وہ زمانہ تھا جب پنجاب کے مشہور سیاست دان
ڈاکٹر محمد عالم لوٹا کو بار بار سیاسی وابستگیاں تبدیل کرنے کی وجہ سے
’لوٹا‘ کا خطاب دیا گیا۔
قیام پاکستان کے بعد بھی سیاسی وابستگیاں تبدیل کرنے کی یہ روایت قائم رہی۔
1957 میں جب صدر اسکندر مرزا نے پارلیمنٹ میں اپنی سیاسی جماعت ری پبلکن
پارٹی بنانے کا اعلان کیا تو مسلم لیگ میں شامل متعدد ارکان فوری طور پر اس
نومولود پارٹی کا حصہ بن گئے، یا بالفاظ دیگر پاکستان کی سیاسی تاریخ کے
پہلے باضابطہ لوٹے بن گئے۔اس وقت اس لوٹا گروپ کی سربراہی نواب افتخار حسین
ممدوٹ نے کی جب کہ اس گروپ میں شامل دوسرے سیاست دانوں میں احمد نواز
گردیزی، عبدالمجید دستی، چوہدری فضل الٰہی، قاضی فضل اﷲ، سید جمیل حسین
رضوی، ارباب نور محمد، مخدوم زادہ حسن محمود اور کرنل عابد حسین کے نام
سرفہرست تھے۔ سیاسی وابستگیاں تبدیل کرنے کا یہ سلسلہ ایوب خان کے دور میں
بھی جاری رہا۔ کچھ افراد کو دولت کے ذریعے، کچھ کو وزارتی ترغیبات کے ذریعے
اور کچھ کوحکومتی دباو? کے ذریعے اپنا ہمنوا بنایا گیا۔قصہ مختصر کہ پھر یہ
روایت ایسی چلی کہ ذوالفقار علی بھٹو، جنرل ضیاء الحق، محترمہ بے نظیر بھٹو،
نوازشریف،جنرل پرویز مشرف اور عمران خان تک سبھی اس کے اسیر ہوتے رہے۔مختلف
ادوار میں اپنے چھوٹے چھوٹے مفادات کے لئے کچھ سیاسی رہنماؤں نے وفاداریاں
تبدیل کرنے کو معمول بنائے رکھا،ہر عہد میں ایسے کردار بکثرت پائے گئے جو
قومی مفاد کے نام پر پاکستان کے عوام کی مشکلات کو بڑھانے والوں سے
جاملے،مسلسل وفاداریاں تبدیل کرنے والوں کی کہانی لکھنے بیٹھ جاؤں تو پھر
ایک وسیع میدان میں بولی کیلئے سج کر آنے والے ارکان کی خریدوفروخت کی طویل
فہرست اور انکے کردار موجود ہیں جو اپنے ہر غلط یوٹرن کو بڑی ڈھٹائی سے
قومی مفاد کا نام دیتے رہے۔ہر دور میں سیاسی وفاداری تبدیل کرنے کی وجہ بھی
مل جاتی ہے اور حالات ایسے بے وفاؤں کے عمل کو غلط بھی ثابت کردیتے ہیں،ان
سب کے باوجود سیاسی وفاداریاں تبدیل کرنے کا چلن جاری رکھا جاتا ہے۔مختلف
ادوار میں حسب ضرورت سیاست دانوں نے اپنا حصہ ڈالا،ان سب کے باوجود کچھ
بااصول سیاسی رہنماؤں نے وفاداریاں تبدیل کرنے کو غلط جان کر اپنے نفع
ونقصان کی پروا نہیں کی،کچھ تو ظلم کے سامنے ڈٹ گئے اور جانیں بھی نچھاور
کردیں،ایسے سیاست دانوں کو تاریخ ہمیشہ زندہ رکھتی ہے،قائداعظم محمدعلء
جناح کا کانگریس سے مسلم لیگ کی جانب سفر حر کی پیروی کا اعلان تھا اور پھر
وہ اپنے مقصد پر عمر بھر ڈٹے رہے پاکستان بنانے کا خواب پوراکردکھایا،قائد
اعظم محمد علی جناح نے مقصد پر قائم رہنے کی ایسی مثال قائم کردی جو تمام
سیاسی جماعتوں اورسیاستدانوں کے لیے مشعل راہ ہے،اپنے مفاد اور اقتدار تک
رسائی کی خاطر سیاسی وفاداریاں تبدیل کرنے کا چلن کسی طور بھی اچھا عمل
نہیں ہے۔تاریخ ایسے کرداروں کو بے نقاب کرتی رہے گی
|