مہاراشٹر میں سیاسی بحران کی ابتدا یوں ہوئی کہ ممبئی
میں قانون ساز کونسل کے دس ارکان کا انتخاب ہونا تھا اس میں اپنی طاقت کے
لحاظ سے مہاراشٹر وکاس اگھاڑی کے 6؍ اور بی جے پی کے 4؍ امیدوار کا میاب
ہوسکتے تھے۔ امیدواروں کی تعداد اگر اسی طرح سے ہوتی تو رائے شماری ضرورت
ہی پیش نہیں آتی۔ مہاوکاس اگھاڑی نے اپنے 6؍ امیدواروں کی آپس میں مساوی
تقسیم کردی لیکن ارکان اسمبلی یکساں نہیں تھے ۔ کانگریس کے پاس کم اور
شیوسینا کے پاس فاضل تعداد تھی۔ اس کا فائدہ اٹھانے کی خاطر بی جے پی نے
اپنا پانچواں امیدوار بھی میدان میں اتاردیا ۔ دیویندر فڈنویس ایوان بالا
میں اضافی ووٹ کو لے کر پر جوش تھے اور ان کی خواہش تھی کہ اس داوں کو پھر
سے آزمایا جائے ۔ بی جے پی نے سوچا اگر شیوسینا کے یہ اضافی ووٹ کانگریس
کے بجائے اس کی جھولی میں آجائیں تو ایم وی اے کو زک پہنچانے کا ایک موقع
ہاتھ آسکتا ہے۔
فی زمانہ ارکان اسمبلی یا پارلیمان سے زیادہ بکاو مال تو کوئی ہےنہیں؟ اور
بی جے پی کے پاس دھن دولت کی بھرمار ہے اس لیے اسے استعمال کرکے پانچواں
کمل بھی کھلا دیا گیا ۔ اس طرح کانگریس کا ایک ہاتھ ٹوٹ گیا ۔بی جے پی کو
دوسری جماعتوں کی رسوائی کے مقابلے کا نگریس کو ذلیل کرنے میں زیادہ خوشی
ہوتی ہے کیونکہ فی الحال مودی کو منہ توڑ جواب دینے میں پہلا نمبر راہل
گاندھی کا ہے اسی لیے انہیں ای ڈی کے ذریعہ پریشان کیا جارہا ہے۔ بات یہیں
پر ختم ہوجاتی تو ٹھیک تھا لیکن جن ارکان اسمبلی نے کانگریسی امیدوار کو
ہرا کر بی جے پی کے ایم ایل سی کو کامیاب کیا تھا انہیں جشن مناکر ’مان دھن
‘ (رشوت) لینے کا حق تھا ۔ اس لیے ان سب کو یہ کہہ کر بس میں بٹھایا گیا کہ
ایکناتھ شندے کے شہرتھانے میں کھانے کی دعوت ہے۔ یہ قصد اگر ہوائی جہاز سے
کرنے کے لیے کہا جاتا تو سب سمجھ جاتے کہ رخت سفر کہیں اور کے لیے باندھا
جارہاہےکیونکہ ہنوز تھانے میں ایکناتھ شندے کے گرو آنند دیگھے کے نام پر
کوئی ہوائی اڈہ تعمیر نہیں ہوسکا ہے۔
لکژری بس میں سوار ہونے والوں کو توقع رہی ہوگی کہ تھانے میں آنند دیگھے
کی یادگار پر اظہار عقیدت کے بعد سارے معاملات طے ہوجائیں گے اور اپنی اجرت
لینے کے بعد گھر واپسی ہوجائے گی لیکن ان کے ساتھ جو کچھ ہوا اس کی دلچسپ
کہانی شندے کا ساتھ چھوڑ کر فرار ہونے والے شولا پورکے رکن اسمبلی کیلاش
پاٹل نے اس طرح سنائی کہ رامسے کی سسپنس تھرلر بھی اس کے سامنے فیل ہے۔
کیلاش نے کہا کہ ارکان اسمبلی کا گروپ جب مذکورہ پارٹی میں شرکت کے لئے
تھانے جارہا تھا تو اچانک گاڑی نے اپنا راستہ بدلا اور وہ گھوڑبندر روڈ سے
گجرات کی سمت چل پڑی ۔گجرات کا نام سن کر آج کل اچھے اچھوں کو جھرجھری
محسوس ہونے لگتی ہیں ایسے میں کیلاش پاٹل بھی شکوک و شبہات کا شکار ہو گئے
۔ یہ قافلہ جب مہاراشٹر اور گجرات کی سرحد پر واقع پولیس چیک پوسٹ پر پہنچا
تو رفع حاجت کے بہانہ کیلاش گاڑی سے اترگئے اور پھر نہیں لوٹے ۔ اتنی کم
تعداد میں جانے پہچانے لوگوں کے اندر سے ایک فرد کے کم ہونے کا پتہ نہیں
چلنا سواریوں کی کیفیت کو واضح کرتا ہے۔ اس کی ایک وجہ ان پر نیند کا غلبہ
اور دوسری ان کا نشے میں دھت ہونا ہوسکتا ہے ۔ یہ بھی ممکن ہے کہ دونوں
حالت ہو ۔ ایسے میں کسی کو اغواکرنا نہایت سہل ہوجاتا ہے۔ اس لیے شرد پوار
کا وزارت داخلہ پر اس سے بے خبر رہنے کے سبب ناراض ہونا مناسب نہیں لگتا ۔
کیلاش پاٹل کی عمر صرف چالیس سال ہے ۔ وہ پہلی بار رکن اسمبلی منتخب ہوئے
ہیں ، ممکن ہے انہیں کسی بڑی بدعنوانی میں ملوث ہونے کا موقع نہیں ملا ہو
اس لیے ای ڈی کے ڈنڈے سے بےخوف ہوں۔ وہ بس سے اتر نے کے بعد تاریکی کا
فائدہ اٹھا کر تیزی سے ممبئی کی طرف پیدل چل دئیے۔ ان کے مطابق تقریباً
5کیلو میٹر کے بعد انہیں ایک موٹر سائیل والے سے لفٹ ملی۔ اس دوران انہوں
نے وزیر اعلیٰ اُدھو ٹھاکرے کو فون کرکے بتایا کہ ایکناتھ شندے اور دیگر
افراد سیاسی بحران پیدا کرنے والے ہیں۔ کیلاش پاٹل کے فون پر رابطہ ہونے تک
ممکن ہے ایکناتھ شندے کے شکار سورت کے قریب پہنچ چکے ہوں ۔ کیلاش پاٹل کسی
طرح بھاگتے دوڑتے کلانگر باندرہ میں واقع ادھو ٹھاکرے کے نجی مکان ماتوشری
پہنچ گئے۔ وہاں سے انہیں ایک محفوظ مقام پر منتقل کردیا گیا۔ یہ ایک فرد کی
نہیں بلکہ ہندوستانی سیاست کے زوال کی داستانِ الم ہے۔ سیاسی انحطاط کی
سنگینی کا یہ عالم ہے کہ ریاستی اسمبلی میں منتخب ہوکر عوام کی نمائندگی
کرنے والوں کو عروس البلاد ممبئی سے اغوا کرلیا جاتا ہے۔ یہاں پر اغواکرنے
والے، کروانے والے اور ہونے والے سبھی ہندوتوا نواز رام بھکت ہیں ۔ اس سے
ان کے چال، چرتر اور چہرے کا اندازہ ہوجاتا ہے۔ان کی ترجیحات میں نظریہ کے
مقابلے اقتدار کی اہمیت بھی بے نقاب ہوجاتی ہے۔
کیلاش پاٹل تو خیر درمیان سے بھاگ کھڑے ہوئے لیکن سورت پہنچنے کے بعد نتن
دیشمکھ کے ساتھ ہونے والے سلوک کی کہانی بھی کم شرمناک نہیں ہے۔ اس نے
توہندو توا کے علمبرداروں کو چہرے پر پڑی زعفرانی نقاب کوتار تار کردیا ہے۔
اکولہ کے قریب بالہ پور کے رکن اسمبلی نتن نے دعویٰ کیا ہے کہ انہیں اغوا
کرکے سورت لے جانے میں تو وہ لوگ کا میاب ہوگئے لیکن چونکہ وہ ادھو ٹھاکرے
کے سچے وفادار ہیں اس لیے بغاوت کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔
دیشمکھ کے مطابق انہیں گمراہ کرکےان کی مرضی کے خلاف لے جایا گیا تھا ۔ وہ
نصف شب میں سورت کی ہوٹل سے نکل کر چوراہے پر آگئے تاکہ ممبئی جانے والی
کسی راہ چلتی سواری سے فرار ہوسکیں لیکن سو سے زیادہ پولس والے ان کا پیچھا
کررہے تھے۔ انہیں کسی گاڑی میں سوار نہیں ہونے دیا گیا بلکہ پکڑ کر زبردستی
ہوٹل پہنچا دیا گیا ۔ بھاسکر اخبا رکے مطابق دیشمکھ کی پٹائی کی گئی ۔ اس
کے بعد یہ کہہ کر اسپتال لے جایا گیا کہ ان پر دل کا دورہ پڑا ہے۔ دیشمکھ
نے واپس آنے کے بعد الزام لگایا کہ ان کی مرضی کے خلاف زبردستی انہیں
انجکشن لگائے گئے ۔ان کے مطابق اسپتال والے کوئی بڑی سازش کرنے والے تھے
حالانکہ ان پر دل کا دورہ تو دور بلڈ پریشر بھی نہیں بڑھا تھا۔ایسے میں ایک
رام بھکت کا دوسرے رام بھکت کو راستے سے ہٹانے کی خاطر جان کا دشمن بن جانا
خطرناک مجرمانہ ذہنیت کی جانب اشارہ کرتا ہے۔
نتن دیشمکھ گوہاٹی ہوائی اڈے پر پہنچ تو گئے لیکن اترنے کے بعد ان کے ارادے
بدل گئے اور وہ بس میں نہیں چڑھے بلکہ وی آئی پی لانج میں بیٹھے رہے۔
گوہاٹی ایرپورٹ سےچند گھنٹے بعد وہ اپنی پارٹی کے 5 کارکنان سمیت چارٹرڈ
طیارے سے ناگپور لوٹ آئے کیونکہ اکولہ وہاں سے قریب ہے۔ نتن دیشمکھ کا جان
جوکھم میں ڈال کر لوٹنا یہ بتاتا ہے کہ شاہ جی کے انتظام میں اب بھی کئی
سوراخ ہیں جن کو سرما یا فڈنویس ہنوز پُر نہیں کرسکے ہیں ۔ سچ تو یہ ہے کہ
نتن دیشمکھ نے ناگپور اتر کر جس دلیری کے ساتھ اپنا بیان دیا اس سے سنگھ
پریوار کے گڑھ میں اس کے خوف و ہراس کی دھجیاں اڑ ادی ۔ یہ کس قدر افسوس کا
مقام ہے کہ ایک رکن اسمبلی کی بیوی کو اس کے حلقہ انتخاب میں پولیس تھانے
کےا ندر جاکر اپنے شوہر کی گمشدگی کی شکایت درج کرانی پڑے تاکہ وہ انہیں
تلاش کرکے لاسکے ۔ پولیس کی اس کی زحمت تو نہیں کرنی پڑی لیکن نتن دیشمکھ
نے ناگپور میں اتر کر فڈنویس اور گڈکری کا دبدبہ خاک میں ملادیا ۔
پاٹل اور دیشمکھ تو لوٹ کے آنے والوں میں سے ہیں لیکن اس دوران ایکناتھ
شندے کے خیمہ میں دوڑ کر جانے والے ارکان اسمبلی کی کہانیاں بھی کم دلچسپ
نہیں ہیں۔ ان میں سے ایک جلگاوں کے رکن اسمبلی کی کہانی پر توجہ دی جائے تو
ان کے اندر پائے جانے والے خوف و ہراس کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے ۔ گلاب
راو پاٹل موجودہ سرکار میں آبی وسائل کے وزیر ہیں۔ وہ ابتدا میں ایکناتھ
شندے کے ساتھ جانے سے محروم رہے لیکن بعد میں انہیں احساس ہوا کہ ای ڈی کے
چنگل سے بچنے کا یہ بہترین موقع ہے۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ کوئی خطرناک فائل
دکھا کر انہیں خوفزدہ کردیا گیا ہو۔ خیر وجہ جو بھی ہو ان کی نیت ڈول گئی
تو وہ بھی اچانک غائب ہوگئے۔ شیوسینا کے رہنماوں کو اس کی بھنک پڑی تو
انہوں نے اپنی مقامی اکائی کو ان کی تلاش کا حکم دے دیا۔شاکھا پرمکھ
پانڈورنگ سکپال کی قیادت میں رات بھر کی تلاش بے سود رہی۔لیکن اگلے دن
صبح8.30 بجے اچانک گلاب راو اپنے گھر کے باہر نمودار ہوگئے اور انہیں دیکھ
کر سکپال کی باچھیں کھل گئیں۔
پانڈورنگ سکپال نے گلاب راو سے کہا گزشتہ رات سے سینا پرمکھ (ادھو ٹھاکرے)
ان سے رابطہ کرنے کی کوشش کررہے ہیں اس لیے فوراً فون کریں۔ اس کا جواب ملا
کہ وہ اپنے رہنما سے بات کرچکے ہیں ۔ منترالیہ میں مختصر کام ختم کرکے
بذاتِ خود ’ورشا‘ یعنی وزیر اعلیٰ کی رہائش گاہ پر ملنے کے لیے ساتھ چلے
چلیں گے۔ بھولے بھالے شیوسنکوں نے اس جھوٹ پر اعتماد کرلیا اور ان کی
سرکاری گاڑی کے پاس انتظار میں بیٹھ گئے لیکن جلگاوں کے گلاب دوسرے راستے
سےایک نجی گاڑی کے ذریعہ چمبور پہنچ گئے۔ اس کی بھنک پانے کے بعد شیوسینکوں
نے تعاقب کیا لیکن وزیر توآخر وزیر ہوتا ہے۔ اس نے وہاں سے ہوائی اڈے جانے
کا فول پروف انتظامات کررکھا تھا ۔ اس طرح جلگاوں جیسے چھوٹے شہر کا چالباز
وزیر ممبئی کے اسمارٹ سمجھے جانے شیوسینکوں کے پر کتر کے اڑ گیا۔ اقتدار کی
خاطر اس طرح کی دھوکہ دھڑی موجودہ دور کے رام بھگت خود اپنی جماعت کے ارکان
کے ساتھ کرتے ہیں تو دوسروں کے ساتھ کیا سلوک ہوتا ہوگا اس کا اندازہ لگانا
مشکل نہیں ہے؟
(۰۰۰۰۰۰۰۰۰جاری)
|