آج کا پاکستان اور ہماری ذمہ داریاں

ایک ایسے وقت میں جب ہم آزادی کی 64ویں سالگرہ منانے جارہے ہیں تو اس موقع پربحیثیت ایک قوم ہمیں یہ بھی سوچنا چاہئے کہ کیا ہم نے قیامِ پاکستان کے وہ مقاصد حاصل کرلئے ہیں جن کیلئے ہمارے لاکھوں بہن بھائیوں نے اپنا تن من دھن قربان کردیا تھا ؟کیا یہ وہی پاکستان ہے جس کیلئے ہمارے بزرگوں نے اپنے لہو تک کا نذرانہ اس لئے بخوشی دینے سے گریز نہ کیا کہ اس سے ہماری آنیوالی نسلیں محفوظ ہو جائیں گی ؟کیا یہ وہی شاہینوں کا دیس ہے جس کا خواب مفکرِ پاکستان علامہ اقبال نے دیکھا تھا ؟کیا یہ وہی ارضِ پاک ہے جس کے بانی قائدِاعظم محمدعلی جناح اسے اسلام کی تجربہ گاہ بنانا چاہتے تھے ؟یقیناََاس کا جواب ہمیں ہمارا ضمیر نفی میںدے گا۔اور جب ہم اس کی وجوہات تلاش کرنے نکلتے ہیںتو اس کیلئے ہمیں کوئی خاص تگ و دو نہیں کرنی پڑتی۔ قائد کے بعد پاکستان کو درپیش سب سے بڑا مسئلہ لیڈرشپ کا رہا جس نے نہ صرف یہ کہ لاکھوں مسلمانوں کے اس زبان زدِعام نعرے ''پاکستان کا مطلب کیا لاالہ ٰ الااللہ''جو قیامِ پاکستان کا سب سے بڑا محرک بنا کو پسِ پشت ڈال دیا بلکہ خود بانی پاکستان کے نظریات سے بھی کھلی روگردانی کرتے ہوئے ایک مخصوص یعنی ایلیٹ کلاس طبقے پر نوازشات کی بارش کردی جو تاحال جاری ہے اور اس غیر منصفانہ طرزحکمرانی کا کرشمہ یہ نکلاکہ امیر ،امیرسے امیرتر اور وہ غریب،غریب سے غریب تر ہوتا گیا جسے قائدِاعظم نے پاکستان کا اصلی وارث ان الفاظ میں قرار دیا تھا''یہ ملک غریبوں نے بنایا اور غریب ہی اس ملک کے اصلی وارث ہیں اور انہیں ہی یہاں حکمرانی کا اصل حق ہے '' اور یہ بھی انہی مہربانوں کا کمال تھا کہ انہوں نے وطن عزیز جسے قائداعظم اسلام کی تجربہ گاہ بنانا چاہتے تھے وہ اقتدار و دولت کے حریص شکاریوں کیلئے رزم گاہ بن کے رہ گیا جنہوں نے اسلام کے نام پر بننے والی عظیم مملکتِ خداداد کے ماتھے پر ''اسلامی جمہوریہ پاکستان ''کاتمغہ توسجا دیالیکن عملاََ پاکستان نہ مکمل اسلامی بن سکا اور نہ ہی جمہوری یوں مناسب آئین سازی نہ ہونے اور قیامِ پاکستان کے اصل مقاصد کو پسِ پشت ڈالنے کی سزا ہمیں یوں ملی کہ ارضِ پاک کے اقتدارِ اعلیٰ کے سنگھاسن پرحکمران نماگدھوں نے قبضہ جمالیا جو پاکستان کے وسائل کو نوچنا ہی اپنا اول و آخر فرضِ منصبی سمجھتے رہے ۔کبھی فوجی اور کبھی سول ڈکٹیٹر کی صورت میں روپ اور باریاں بدل بدل کر آنیوالے ان بہروپیوں کے نزدیک ملک کے'' اصلی مالکوں'' کی حیثیت زمانہ جاہلیت کے زرخریدغلاموں اورآئین و قانون اُن کے ہاں ایک ریت کا گھروندہ اورموم کی ناک ٹھہرا جس کو وہ جب چاہتے بناتے ،گراتے اور اور اپنی مرضی کے مطابق توڑتے اورموڑتے رہے۔میں یہاں یہ بھی واضح کرنا چاہتا ہوں کہ وطنِ عزیز کی اس ناﺅ کو ڈبونے کی کوششوں میں حکمرانوں کے ساتھ ساتھ ہمارا بھی ہاتھ شاملِ حال رہا کہ ہم ہربار انہی عطار کے لونڈوں سے شفایابی کی امید لگاکرانہیں اپنا مسیحا منتخب کرتے رہے جو ہربار اک نیا زخم دے کر لطف اندوز ہوتے رہے ان کرم فرماﺅں نے ہمیں اور اپنی ہی دھرتی ماں کو کیا کیا کچوکے لگائے یہ کہانیاں توآئے روز ہمیں دیکھنے،سننے اور پڑھنے میں آتی ہی رہتی ہیں لیکن میں اپنے کالم کے اختتام پر اپنا یہ پیغام اپنے نوجون ساتھیوں تک پہنچانا چاہتا ہوں کہ اب خاموشی کا روزہ توڑ ڈالیں اور وطن بچانے کیلئے میدان عمل میں نکل پڑیں لیکن یہ یاد رکھیں کہ اس کا طریقہ یہ نہیں کہ ہم اٹھیں اور حکومت کو برا بھلا کہتے ہوئے اس کا تختہ الٹنے کیلئے سربکف ہو جائیں نہیں بلکہ ہمیں اس غیرمنصفانہ اور فرسودہ سسٹم کو تبدیل کرنا ہوگا جس میں شامل ہونے کیلئے بھی کم از کم ارب پتی ہونا ضروری ہے اس کیلئے ہمیںسب سے پہلے اپنے اندر انقلاب برپا کرنا ہو گا اور وہ انقلاب اس طرح رونما ہوگا کہ ہمیں آج ہی اپنے اندر سے بغض،حسد،کینہ،منافرت و منافقت،حرص ولالچ جیسی بیماریوں اور نسلیت ،صوبائیت اورلسانیت کے بتوں کو توڑ کر ایک سچا مسلمان اور ایک پاکستانی بننا ہوگا اور ہمارا یہ اقدام اس ظالمانہ نظام کو تبدیل کرنے کیلئے ایک ایسا اقدام ثابت ہوگا جو ہمیں بالآخرایک صالح اور دیانتدار قیادت سے سرفراز کرے گا جو حقیقی معنوں میں عوام کے جذبات کا ترجمان و محافظ ہوگا کیوں کہ یہ دنیا کی سب سے سچی زبان سے نکلی ہوئی حقیقت ہے کہ''جیسے تم ویسے تمھارے حکمران''
Qasim Ali
About the Author: Qasim Ali Read More Articles by Qasim Ali: 119 Articles with 100541 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.