میرا پانی اترتادیکھ کنارے پر گھر مت بنالینا
میں سمندر ہوں لوٹ کر ضرور آونگا
بی جے پی رہنماء اور مہاراشٹر کے نائب وزیر اعلی دیوندر فڈنویس نے ۲۰۱۹ء
میں اُس وقت مذکورہ شعر اسمبلی کے ایوان میں کہے تھے جب شیوسینااور بی جے
پی کے مابین تنازع پیدا ہونے کے بعدمہاراشٹر وکاس اگھاڑی (ایم وی اے)
شردپوار کی سرپرستی میں تین پارٹیوں کااتحادبنا اور حکومت بھی بن گئی ،لیکن
اس سے چند روز قبل اچانک دیویندر فڈنویس اور اجیت پوار نے راتوں رات گورنر
بھگت سنگھ کوشیاری کو حکومت کی تشکیل کا دعویٰ پیش کرتے ہوئے وزیراعلی اور
نائب وزیر اعلیٰ کی حیثیت سے عہدہ اور رازداری کاحلف اٹھالیا،لیکن دوسرے دن
ہی سیاسی دباؤ میں اجیت پوار کے استعفیٰ دینے پر سب کچھ ٹائیں ٹائیں فش
ہوگیا،تب ایوان میں مستعفیٰ ہونے کے بعد فڈنویس نے بڑے جذباتی انداز میں یہ
شعر پڑھا تھا۔
تقریباً ڈھائی سال وہ اقتدار حاصل کرنے کی تگ ودودمیں رہے،اور انہیں
شیوسینا میں سب سے بڑی بغاوت کے نتیجے میں ایک تک کامیابی نصیب ہوگئی ،جس
کی ڈور اُن کے ہاتھوں میں رہی تھی،مگر بڑی مجبوری میں انہیں شیوسینا کے
باغی لیڈر ایکناتھ شندے کوکرسی دیناپڑی اور خود کو نائب وزیراعلی پر ہی
اکتفا کرناپڑا ہے۔
ایکناتھ شنڈے ، جنہوں نے شیوسینا بغاوت کی قیادت کی تھی اور جس نے بالآخر
مہاراشٹر میں شیوسینا کی قیادت والی مہا وکاس اگھاڑی حکومت کو گرادیا ، اب
ریاست کے وزیراعلی کے طور پر حلف لے لیا ہے۔اُن کے سیاسی کیرئیر اور زندگی
پر توجہ دینے سے پہلے آنند دیگھے کے شاگرد کی حیثیت سے اس آٹو رکشا ڈرائیور
کے طور پر اپنی زندگی کی عام شروعات سے لے کر اب تک بہت طویل فاصلہ طے کیا
ہے۔لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر بی جے پی نے ادھو ٹھاکرے کی قیادت میں
ایک کامیاب سرکار کو ،اقتدار سے بے دخل کیوں کیاگیا۔ادھو ٹھاکر کو ناتجربہ
کار کہنے والے بھی اُن کے قائل۔نظر آئے ۔ ادھو ٹھاکرے کی قیادت میں مہاوکاس
گٹھ بندھن کی جو حکومت ڈھائی سال تک جاری رہی وہ کیسی تھی ۔ مستقبل میں عام
آدمی اس کا حوالہ دیں گے بلکہ نئی حکومت اورپرانی حکومت کا موازنہ کیا جائے
گا،ادھوٹھا کرے نے تین سیاسی جماعتوں کی ملی جلی حکومت کی قیادت اور بڑے
صبر وتحمل سے اپنا فرض بخوبی نبھایا، مخلوط حکومتوں میں ہر ایک کی سیاسی
ترجیحات کا خیال رکھنا پڑتا ہے۔لیکن سیاسی ترجیحات کی وجہ سے اختلاف راۓ
پیدا ہوتا ہے ۔لیکن ادھو نے اس عرصے میں ایسا کچھ ہونے نہیں دیا ،ئالانکہ
انکا انتظا اور تجربی ناکے برابر رہاتھا۔
ادھوٹھا کرے نے دوسال تک کوویڈاور لاک ڈاؤن کے دور میں جو عوامی خدمت کی
اور ریاست میں امن وامان اور بھائی چارگی کو برقرار رکھا۔حالانکہ ملک میں
فرقہ پرستوں کو کھلی چھوٹ ملی ہوئی تھی اور وہ سر گرم رہے،لیکن مہاراشٹر
میں انہیں پیر پسارنے کا موقعہ نہیں ملا۔سابق وزیراعلی اور ان کے کابینی
رفیق اشوک چوان نے کہاکہ "مہاراشٹر میں اچھے اور ہردلعزیز رہنماء کو اقتدار
سے بے دخل کردیا گیا ہے،اس کا احساس مستقبل میں ہوگا،جو دکھی ہیں وہ فی
الحال چپ ہیں ،لیکن وہ جلد ہی اس کا اظہار کریں گے۔"
یہ حقیقت ہے کہ ادھو ٹھاکرے کی قیادت میں ایم وی اے کا جو دور حکومت رہا
،اسے ایک پُرسکون اورامن پسند دور قراردیا جائے گا،خصوصی طور پر کوویڈ۱۹،کا
دور یاد رکھا جائے جب منصوبہ بندی سے شہریوں کو طبی امداد فراہم کی گئی اور
یہی وجہ ہے کہ سپریم کورٹ نے ممبئی اور مہاراشٹر ماڈل اپنا ے کی دہلی اور
اترپردیش حکومتوں کو ہدایت دی تھی ،جہاں گنگا کے ساحل پر لاشیں نکل رہی
تھیں اور لوگ طبی امداد سے محروم نظرآتے ۔
ادھوٹھاکرے کی اسی ناتجربہ کاری نے انہیں اقتدار میں رہ کر تجربہ کار بنا
دیا،وہ ایک "اریجمینٹ"کے تحت وزیراعلی بننے کے لیے راضی ہوئے اور اس کا
اظہار انہوں نے الوداعی خطاب میں کیا کہ "مجھے جہاں نہیں جانا تھا ،وہاں
جانا پڑا۔"ان کی بہترین کارکردگی سے بی جے پی اور حریف خوف زدہ تھے ،کیونکہ
انہیں ایک بہترین "ایڈمنسٹریٹر " کے طورپر پیش کیا جانے لگا تھا،ان کی
مقبولیت ہر خاص و عام میں نظرآرہی تھی،جوکہ آئندہ میونسپل کارپوریشن اور
لوکل باڈیز انتخابات میں شیوسینا ہی نہیں بلکہ ایم وی اے می۔ شامل کانگریس
اور این سی پی کو بھی فائدہ پہنچاتی تھی،بس شیوسینا کے ایک ناراض گروپ کو
رام کرلیا گیا۔تفتیشی ایجنسیوں (طاقت) اور دولت کے استعمال سے دور افتادہ
آسام میں بیٹھ کر تختہ پلٹ کرنے کی سازش کی گئی ،لیکن ادھو نے استعفیٰ دے
کر خود کو سرخرو رکھاہے۔ہاں شیوسینا کی یہ پہلی بغاوت نہیں ہے،ابتدائی کے
بال ٹھاکرے کے معاون دیش پانڈے نے پہلی بار بغاوت کا پرچم لہرایا تھا،پھر
دست راست کہے جانے والے چھگن بھجبک نے منہ موڑا اورتیسرا نمبر نارائن رانے
کا رہا، جنہوں نےوزیراعلی کاعہدہ حاصل ہونے کے بعد پھربھی بال ٹھاکرے
کودھوکہ دیااور اب بھی مغلظات بکرے رہتے ہیں۔جہاں تک راج ٹھاکرے کا معاملہ
ہے،وہ ایک باپ (بال ٹھاکرے) اور بیٹے (ادھو) کی محبت کے درمیان پھنس کر
شکار بن گئے۔
ادھوٹھاکرے کو شیوسینا سربراہ اور ایک وزیراعلی کے طور پر جس طرح اندرونی
ناراضگی کاسامنا کرنا پڑا ،دراصل اس کی وجہ وزیر اعلیٰ کی حیثیت سے اُن کی
مصروفیات اور علالت کے سبب عام شیوسینکوں سے زیادہ وزیروں اور اراکین
اسمبلی سے دوری ہی ہے۔حالانکہ اُن کے افسران اور اُن کے نزدیکی عہدیداران
ادھو کے ایک "سوبر"اور بااخلاق لیڈر ہونے کی بات کرتے ہیں،وہ سیاسی دباؤ
اور مفاد کے باوجود ایسی باتیں کرنے سے گریز کرتے ہیں جوکہ کسی فرد،فرقے
اور طبقے کا دل دکھائے۔یہی سبب رہا کہ وہ آخری وقت تک اپنے ناراض شیوسینکوں
کو اپنی جائزشکایتیں پیش کرنے کی دہائی دیتے رہے،جوکہ ناراض ضرور ہیں ،لیکن
بالاصاحب کے بعد ادھوٹھاکرے کو ہی اپنا لیڈر مانتے ہیں،بی جے پی کے اتحاد
چاہتے ہیں،لیکن وہ بھول گئے ہیں کہ ،بقول ادھوٹھاکرے بی جے پی لیڈرشپ اور
امت شاہ نے ۲۰۱۹ء میں وزارت اعلیٰ شیوسینا کودینے کاوعدہ کیاتھااور زیادہ
نشستیں جیتنے پر مکر گئے،ایکناتھ شندے نے "ہندوتوا" کانعرہ لگا کر بی جے پی
کی مدد سے اقتدار ضرور حاصل کرلیا ہے،مگر سیاست میں وفاداریاں کب بدل جائیں
کچھ کہہ نہیں سکتے ہیں۔البتہ یہ کہہ سکتے ہیں کہ ایک حکمت عملی کے تحت
بھگوابریگیڈ کو کامیابی ضرور مل گئی ہے،لیکن جلد ہی میونسپل کارپوریشن
انتخابات کے بعد ہی پتہ چلے گاکہ "اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے ۔"
|