لاہور کی پولیس کہاں سو گئی شہر اقتدار میں ایک ہی دن
78موٹر سائیکل چوری ہوگئے اس کے علاوہ چھوٹی چھوٹی وارداتوں کو تو چھوڑ یں
گاڑیاں بھی چوری ہو رہی ہیں غریب آدمی کی واحد سواری موٹر سائیکل ہے اگر وہ
بھی چوری ہو جائے تو پھر اس شخص کی بے بسی کا اندازہ لگانا کوئی مشکل کام
نہیں ہے مہنگائی کے اس طوفانی دور میں غریب انسان صبح سے شام تک دو وقت کی
روٹی کی تلاش میں موٹر سائیکل پر ہی گھومتا ہے اور اسکے بچوں کی تفریح کا
واحد زریعہ بھی موٹر سائیکل ہی ہوتی ہے لاہور شہر سے ایک ہی دن میں اتنی
موٹرسائیکلوں کی چوری ہمارے سیف سٹی کے ٹھیکیداروں کے لیے بھی پریشانی کا
بعث نہیں اور نہ ہی پولیس کی درد سری ہے بلکہ میں تو ایک رپورٹ پڑھ کر
حیران و پریشان ہو رہا تھا کہ اس وقت لاہور ،فیصل آباد ،شیخوپورہ اور قصور
کے تھانوں میں 61ایس ایچ او خود مجرمانہ ریکارڈ رکھتے ہیں ایسے ریکارڈ
ہولڈر کو جب ایس ایچ او لگایا جائیگا تو وارداتیں کم ہونے کی بجائے بڑھتی
ہیں شہریوں کے مقدمات درج ہونے میں دقت ہوتی ہے بلکہ کئی کئی ماہ پرچہ ہی
درج نہیں کیا جاتا عرصہ دراز سے سفارشی حضرات ایک ہی سیٹوں پر بیٹھے ہیں
جائز کام کے لیے بھی تگڑی سفارش کا ہونا ضروری ہے ورنہ تھانے میں جمع ہونے
والی درخواست کا تیسرے دن جواب آجاتا ہے کہ آپکی درخواست عدم پیروی کی وجہ
سے خارج کردی گئی ہے دھمکیوں سے لیکر ڈکیتیوں تک دی جانے والی درخواستوں پر
سائلین کو اچھی طرح ذلیل و خوار کیا جاتا ہے کچھ تو بے چارے مارے شرمندگی
کے اپنی درخواست کا پیچھا چھوڑ جاتے ہیں اور کچھ بے شرموں کی طرح صبح شام
تھانوں کا طواف کرتے رہتے ہیں کہ شائد صاحب بہادر مل جائے اور کوئی مناسب
حکم جاری فرمادیں ہماری پولیس نہ جانے ہے کہاں اور کن کاموں میں مصروف ہے
اگر ہماری دوسری ایجنسیاں پولیس کی مدد نہ کریں تو یہ ایک بے کار محکمہ بن
جائیگا جن کا کم صرف بڑے بڑے اداروں کا گیٹ کھولنا اور بند کرنا ہو گالاہور
پولیس نے اس وقت اگر کوئی اچھا کام کیا ہے تو وہ یہ ہے کہ سڑکوں پر پڑے
ہوئے نشیؤں کو ہسپتال پہنچانا شروع کردیا ہے جس سے وارداتوں میں بھی کمی
آئے گی اور شہر کے فٹ پاتھ بھی خوبصورت بن جائینگے میں سمجھتا ہوں کہ ڈی
آئی جی سہیل چوہدری کی یہ کاوش بہت اچھی ہے پولیس اگر ایمانداری سے ان کا
صرف یہی حکم مان لے تو شہر میں چوری کی وارداتیں کم ہو سکتی ہیں لاہور کا
دل مال روڈ ہے اگر شام کے وقت کبھی کسی کا یہاں چکر لگے تو ایسا محسوس ہوتا
ہے کہ پورے شہر کے نشئی یہاں جمع ہو گئے ہیں پولیس تھانہ سول لائن کے شیر
جوان ان کے پاس سے کئی مرتبہ گذرتے ہیں ایس پی سول لائن بھی اکثر ایدھر ہی
پائے جاتے ہیں سی سی پی او اور آئی جی بھی اسی سڑک سے گذرتے ہیں اور تو اور
ہماری عدلیہ کے معزز جج صاحبان کا بھی یہی روٹ ہے اور میرا تو دفتر ہی اسی
جگہ پر ہے میں نے کبھی بھی مال روڈ کے فٹ پاتھ کو ان نشئی افراد سے خالی
نہیں دیکھا جو سرعام چرس اور نشے کے ٹیکے وغیرہ لگا رہے ہوتے ہیں اس اہم
شاہرہ پر انہیں روکنے والا ،پکڑنے والا اور انکا علاج کروانے والا کوئی
نہیں پولیس اس لیے ان کو پکڑنے سے کتراتی ہے کہ یہ لوگ تھانے میں جاکر ان
کے لیے وبال بن جاتے ہیں اور باہر بیٹھ کر یہ لوگوں کے لیے سر درد بنے ہوئے
ہیں یہ صرف ایک سڑک کا حال ہے پورا لاہور اس وقت ان نشیؤں سے بھرا پڑا ہے
ان کو منشیات سپلائی کون کرتا ہے اور نشے کے ٹیکے کہاں سے ملتے ہیں کیا
ہماری ایجنسیاں ان سے واقف نہیں ہیں اگر ہیں تو پھر وہ لوگ پکڑے کیوں نہیں
جاتے اگر ہمارے ادارے ان سے ناواقف ہیں تو پھر یہ ہمارے لیے شرمندگی کی بات
ہے کہ دور دراز کی خبریں رکھنے والے اپنے ہی گھر سے لا علم ہیں کیا یہ چراغ
تلے اندھیرے والی بات نہیں مگر پولیس کے اس موجودہ نظام میں سہیل چوہدری کا
ان منشیات کے عادی افراد کے لیے فیصلہ بہت اچھا اور احسن اقدام ہے پولیس
اگر ایمانداری سے ان افراد کو ہسپتالوں تک پہنچا دے تو ان میں سے اکثر لوگ
راہ راست پر آسکتے ہیں اچھے انسان ہمیشہ دوسروں کی بھلائی کا سوچتے رہتے
ہیں جبکہ گندے اور بے ہودہ انسان ہمیشہ ایک دوسرے کو دکھ اور تکلیف پہنچا
کر سکون محسوس کرتے ہیں ایسے اچھے انسانوں کی قدر کرنی چاہیے یہ ہمارے لیے
اﷲ کی طرف سے ایک انعام ہوتے ہیں ایک اور مزے کی بات یہ ہے کہ میرا چونکہ
اسمبلی کی رپورٹنگ کے حوالہ سے اسمبلی میں آنا جانا لگا رہتا ہے اور میں نے
اکثر اسکی دیواروں کے ساتھ بھی نشئی بیٹھے ہوئے دیکھے ہیں معزز ممبران نے
بھی دیکھے ہونگے مگر آج تک انکی بہتری کے لیے قانون سازی نہیں کرسکے کوئی
الگ سے ادارہ نہیں بنا سکے جہاں ان کو زندگی سے بڑھ کر سہولیات دیکر معاشرے
کا چھا شہری بنایا جاسکے بعض اوقات تو مجھے ان ممبران اسمبلی پر ترس بھی
آتا ہے کہ بے چارے اپنے سامنے والی سڑک کو تو ٹھیک نہیں کروا سکے اس
ٹھیکدار سے پوچھ نہیں سکتے کہ اسمبلی کے مین گیٹ سے لیکر ایوان اقبال تک
جگہ جگہ کھڈے اور مین ہول بیٹھے ہوئے کیوں ہیں یہ معزز اراکین اسمبلی اجلاس
کے آنے جانے کے علاوہ متعدد مرتبہ اسی روڈ سے گذرتے ہیں مگر آج تک انہوں نے
متعلقہ محکمے سے نہیں پوچھا کہ اتنی اہم سڑک کا اتنا برا حشر ہوا ہے وجہ
کیا ہے اس ایوان نے آج تک انٹی کرپشن والوں سے نہیں پوچھا ہوگا کہ آپ نے
متعلقہ ٹھیکدار یا کسی ایکسیئن اور ایس ڈی او کو بلاکر پوچھا ہے کہ کروڑوں
روپے کی لاگت سے بننے والی اس سڑک پر اتنے کھڈے کیوں بنے ہوئے ہیں لاہور کی
باقی سڑکوں کو تو چھوڑیں جہاں جہاں بے ہنگے اور بیہودہ قسم کے ابھرے ہوئے
مین ہو سے بچوں اور خواتین کو موٹر سائیل سے گرتے ہوئے میں نے خود دیکھا ہے
کیا ہمارے ادارے سوئے ہوئے ہیں یا ان میں بیٹھے ہوئے افراد بھی نشئی بن چکے
ہیں ان کی بلا سے کوئی مرتا ہے تو مرے کوئی گرتا ہے تو گرے بس انکی مراعات
میں کوئی کمی نہیں ہونی چاہیے۔
|