جون کے وسط میں بجلی کے جو بل ہمیں موصول ہوئے ، ان کی
مالیت دس ہزار روپے تھی ۔بیگم سخت پریشان تھی کہ ہم اتنی بڑی رقم کا بل
کیسے اورکہاں سے ادا کرینگے ۔بیگم اپنے ہاتھوں میں بل تھامے ہوئے میرے پاس
آئی اور التجا بھرے لہجے میں کہنے لگی ۔آپ اس بات کے گواہ ہیں کہ ہم نے
جتنی بار بھی ووٹ دیا مسلم لیگ ن کے امیدواروں کو دیا۔ ہم نے یہ نہیں دیکھ
کہ وہ کون ہے اور کیسا ہے ، ہمیں چونکہ نواز شریف اور شہباز شریف سے محبت
تھی اس لیے ہمیشہ ان کی جانب سے اچھے اقدامات کی توقع کی ۔بیگم نے مجھے 9
اپریل والی رات یاد دلائی جب ہمارے سارے گھر نے رات بھر جاگ کر شہباز شریف
کے وزیراعظم بننے کا خوشنما منظر اس لیے دیکھا کہ ہمیں یقین تھا کہ شہباز
شریف اپنی قائدانہ صلاحیتوں کو بروئے کار لاکر عمرانی حکومت کے عوام دشمن
اقدامات کا نہ صرف ازالہ کرینگے بلکہ عوام کے زخمو ں پر مرہم بھی رکھیں گے
۔ ہمیں یقین تھا کہ اب پاکستان محفوظ ہاتھوں میں ہے ، اب بجلی کے بل بھی
نصف ہو جائیں گے اور پٹرول کی قیمت (جو عمرانی دور میں 150روپے لیٹر تھی )کو
یقینا کم کرکے عوام کو حقیقی معنوں میں ریلیف دینگے ۔ بیگم غصے کے عالم
مسلسل بولے جارہی تھی اور میں اس کے ہاتھوں میں پکڑے ہوئے بجلی کے بل کو
دیکھنے سے پہلے ہی بے ہوش ہونے کی کوشش کررہا تھا ۔جب بات حد سے بڑھ گئی تو
میں نے خاموشی کو توڑا اور کہا بیگم میری ہڈیوں میں اتنی جان نہیں ہے کہ
میں بجلی کے بل ادا کرنے کے لیے کہیں نوکری کرلوں۔بنک سے ریٹائر منٹ کے بعد
جسمانی کمزوری حد سے بڑھتی جارہی ہے ۔اس لیے بہتر ہو گا بجلی کے بلوں کی
ادائیگی کے لیے اپنے بیٹوں سے بات کریں ۔میری بات سنتے ہی وہ غصے کے عالم
میں بولی ۔ ابھی کل ہی ہمارے دونوں بیٹے حالات کی سنگینی اور مہنگائی کا
رونا رو رہے تھے ، ان کا اصرار تھا کہ ہم بجلی کے بل ادا کریں ۔ بچوں کو
تعلیم دلوایں ، کسی عالم سے فیس دے کر بچوں کو قرآن پاک کی تعلیم دلوایں ،
اپنی موٹرسائیکلوں میں پٹرول ڈالویں ۔تنخواہ کا بڑا حصہ تو گھر کے روز مرہ
اخراجات میں ہی اٹھ جاتا ہے ۔اسی اثنا ء میں ایک دوست نے موبائل پر مسیج
بھیجا ۔ انہوں نے بتا یا جس بجلی کے بل کی وجہ سے آپ کے گھر میں جنگ کا
سماں پیدا ہو چکا ہے۔ جولائی 2022ء کے مہینے میں آپ کی لاڈلی شہباز شریف کی
حکومت کے چہیتے وزیر خزانہ نے بجلِی کی قیمت میں 12 روپے فی یونٹ کے حساب
سے مزید اضافہ کردیا ہے ۔اس طرح ایک یونٹ سے سو یونٹ کا بل 21 روپے فی یونٹ
چارج ہو گا ۔ 101 سے 200 یونٹ کا بل 23.74روپے ،200 یونٹ سے 300 یونٹ کا
25.83 روپے ،300 یونٹ سے چھ سو یونٹوں کا بل 30 روپے فی یونٹ ، 800 سے 1000
یونٹ کا فی یونٹ بل 40 روپے وصول کیا جائے گا۔ پانچ روپے سبسڈی جو پہلے
بلوں میں دی جاتی تھی وہ بھی آپ کی چہیتی حکومت نے ختم کر دی ہے۔اس طرح اب
300 یونٹوں کا بل 9000 روپے آیا کرے گا۔تین سو یونٹ سے زائد کے بل کا تو
تصور کرکے ہی کلیجہ منہ کوآتاہے۔یہ حقائق دیکھ کر یقین جانیں میری آنکھوں
سے آنسو بہہ نکلے اور میں نے بیگم کو کہا اب اس کے سوا کوئی چارہ نہیں کہ
گھر کے پنکھوں کو بند کردیا جائے گا ۔میں جب یہ کہہ رہا تھا تو بیگم نے
میری بات کو ٹوکتے ہوئے کہا اپنے پیارے شہباز شریف سے پوچھیں کیا ہم تمہاری
حکومت میں پتھر کے زمانے میں لوٹ جائیں ۔بجلی تو ایک ایسی بنیادی ضرورت بن
چکی ہے جس کے بغیر نہ پینے کا ٹھنڈا پانی ملتا ہے ،نہ شام کے پکے ہوئے
کھانوں کو اگلی دوپہر تک محفوظ رکھا جا سکتا ہے، ٹی وی جو ہماری زندگی کا
اہم حصہ بن چکا ہے وہ بھی بجلی سے چلتا ہے۔پہننے کے لیے کپڑے بھی استری
کرنے پڑتے ہیں۔ہمارے گھر میں جو چار پنکھے چلتے ہیں ،وہ بھی بجلی سے چلتے
ہیں ۔جبکہ شہباز شریف اور اس کے وزیر خود ائیرکینڈیشنر دفتروں میں بیٹھ کر
دن میں آٹھ بار ایک گھنٹے کے لیے بجلی کی لوڈ شیڈنگ کرتے ہیں۔بجلی کے بغیر
60 منٹ بھی 60 دنوں کے برابر بن جاتے ہیں۔بوڑھے ، بچے ، عورتیں اور بچیاں
یکساں پریشان ہوتی ہیں ۔اگر آپ برا نہ مانیں تو میں نے آج کے بعد مسلم لیگ
ن کو ووٹ نہیں دینا ۔جو عوام کا خیال نہیں کرتی ، آنکھیں بند کرکے 80روپے
ایک لیٹر پٹرول پر بڑھا چکی ہے، جس کے دور حکومت میں بجلی کا ایک یونٹ 25
روپے کا ہونے جا رہا ہے ۔ جس کے دور حکومت میں آٹا ، گھی ، چاول ، دالیں
سبزیاں ، چھوٹا گوشت ، بڑا گوشت حتی کہ مرغی کا گوشت بھی عام آدمی کی پہنچ
سے بہت دور جا چکا ہے ،ہم ہر الیکشن میں دھوپ میں گھنٹوں قطار میں کھڑے
ہوکر کیا اس لیے ووٹ دیتے ہیں کہ مسلم لیگ ن کے حکمران خود شاہانہ زندگی
بسر کرتے ہیں اور اپنے ووٹروں سے جینے کا حق بھی چھین لیں ہیں ۔میری تو
توبہ ۔ میں نہ ووٹ ڈالنے جاؤں گی اور نہ مسلم لیگ ن کو ووٹ دوں گی ۔میں نے
کہا بیگم جو فیصلہ تمہارا وہی فیصلہ میرا بھی ہے ۔ میں بھی شہباز شریف اور
اس کے تمام ساتھیوں کا حقیقی طور پر بائیکاٹ کرتا ہوں اورووٹ دینے بھی نہیں
جاؤں گا۔
|