|
|
ہر سال کی طرح اس سال بھی لاکھوں مسلمان فریضہ حج کی
ادائیگی کیلئے مکہ کی سرزمین پرپہنچ چکے ہیں، عازمین حج کیلئے خیمہ بستیاں
بھی آباد ہوچکی ہیں تاہم آج بھی بہت کم لوگ یہ جانتے ہیں کہ پہلا حج کب
اور کتنے مسلمانوں نے ادا کیا اور امیر حج کون تھے۔ |
|
پہلا حج اور امیر |
مصر کی کمیٹی برائے علمی تحقیق اور افتاء کے مطابق کہ
پیغمبر اسلام ﷺ نے سنہ 9 ھجری میں مسلمانوں پر پہلا حج فرض ہونے سے متعلق
حکم الٰہی صادر فرمایا اور تمام علمائے کرام نے اس کی تائید کی ہے۔ نبی
مہربان ﷺ نے امیر حج کی ذمہ داری حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو سونپی۔
مصری افتاء کونسل کی تحقیق میں کہا گیا ہے کہ جب نو ہجری میں حج کا وقت
آیا تو رسول اللہ صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو
امیر حج بنا کر بھیجا۔ مسلمانوں کا یہ پہلا فریضہ حج تھا اور پہلی بار تین
سو مسلمانوں نے فریضہ حج ادا کیا۔ اس سے قبل مسلمانوں پر حج فرض نہیں تھا۔ |
|
معاہدے کی خلاف ورزی |
حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم کے ساتھ سفر حج
کے بعد سورہ "براء" [سورہ توبہ] رسول اللہ ﷺ پر نازل ہوئی۔ اس قرآنی سورت
میں اللہ تعالیٰ نے مشرکین مکہ اور حضرت محمد ﷺ کے درمیان طے پائے معاہدے
کو مشرکین کی طرف سے توڑے جانے پر سخت تنبیہ کی۔ |
|
|
|
حکم دیا کہ آج کے بعد مشرکین حرم میں داخل نہیں ہوں گے
اور کسی کو حرمت والے مہینوں میں جنگ سے خوف زدہ نہیں ہونا چاہیے۔ چنانچہ
رسول اللہ ﷺ نے علی بن ابی طالب رضی ﷲ تعالیٰ عنہ کو بلایا اور ان سے
فرمایا کہ آپ سورہ ’برات‘ میں بیان کردہ احکامات حج کے موقعے پر مسلمانوں
کو علی الاعلان بتائیں۔ |
|
طواف پر
پابندی |
حضرت علی رضی اللہ عنہ نے مشرکین کے حوالے سے آیات منیٰ
میں جمع مسلمانوں کے سامنے بیان کیں۔ آپ ﷺ کے حکم سے حضرت علی رضی اللہ
عنہ نے جو خطبہ ارشاد فرمایا اس میں انہوں نے کہا کہ ’کوئی کافر جنت میں
نہیں جائے گا، آج کے بعد کوئی مشرک حج نہیں کر سکے گا،بیت اللہ کا طواف
نہیں کر سکے گا، یہ معاہدہ مشرکین اور مسلمانوں کے درمیان اس وقت تک تھا جب
تک کہ اسے توڑا نہیں گیا۔ |
|
علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ رسول اللہ ﷺ کی اونٹنی پر سوار ہو کر نکلے۔
راستے میں ابوبکر رضی اللہ عنہ سے ملے اور جب ابوبکر رضی اللہ عنہ نے انہیں
راستے میں دیکھا تو انہوں نے پوچھا کہ آپ امیر ہیں یا مامور، حضرت علی رضی
ﷲ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ میں مامور ہوں یعنی مجھے رسول اللہ ﷺ نے کچھ
احکامات کے ساتھ بھیجا ہے۔ |
|
|
|
پھر دونوں جلیل القدر صحابہ آگے چل دیے۔ ابوبکر کی
امارت میں مسلمانوں نے حج ادا کیا۔ قربانی کے دن علی بن ابی طالب رضی اللہ
عنہ نے کھڑے ہو کر لوگوں کو رسول اللہ ﷺ کی طرف سے دی گئی ہدایات پیش کیں
اور نئے احکامات بتائے۔ |
|
مصری کمیٹی کی تصدیق |
مصر کی مستقل کمیٹی برائے علمی تحقیق و افتاء نے تصدیق
کی ہے کہ یہ بات درست ہے کہ حج کی فرضیت نو سن ھجری میں ہوئی۔ اللہ تعالیٰ
نے اس سے پہلے حج فرض نہیں کیا تھا کیونکہ اس سے پہلے اس کا فرض کرنا حکمت
کے خلاف تھا۔ اس کی وجہ یہ کہ قریش مکہ رسول اللہ ﷺ کو عمرہ کرنے سے روکا،
لہٰذا یہ ممکن اور متوقع تھا کہ وہ مسلمانوں کو حج سے بھی روک دیتے۔ |