قربانی کا صلہ

 ۵جولائی ۱۹۷۷ ؁کو جنرل ضیا الحق نے شب خون کے ذ ریعے پاکستان کے پہلے منتخب وزیرِ اعظم ذولفقار علی بھٹوکی حکومت کوختم کر کے ملک پر مارشل لا مسلط کر دیا۔ذولفقار علی بھٹو معزولی کے بعد قید و بند کی صعوبتوں سے گزرے اور ۴ اپریل ۱۹۷۹؁ کو انھیں قتل کے ایک جھو ٹے مقدمے میں سرِ دار کھینچ دیا گیا۔ جنرل ضیا الحق کو ملک کی ساری اپوزیشن جماعتوں اور مذہبی طبقوں کی در پردہ حمائت حاصل تھی اور امریکہ بہادر بھی اس کی پشت پر کھڑا تھا ۔جنرل ضیا الحق نے ۹۰ دنوں میں انتخا بات کا اعلان بھی کر رکھا تھا لیکن پی پی پی کے جلسوں کا حجم دیکھ کر اسے اپنے وعدے سے مکر جانا پڑا کیونکہ خفیہ اداروں نے اسے خبر دے دی تھی کہ ذولفقار علی بھٹو کو مجوزہ انتخا بات میں شکست دیناممکن نہیں ہے کیونکہ پی پی پی کے جیالے بھٹو کا ساتھ چھوڑنے کیلئے تیار نہیں ہیں ۔ یہ وہ دور تھا جس میں محترمہ بے نظیر بھٹو میدانِ سیاست میں وارد ہو چکی تھیں اور عوام کی بے پناہ محبت کا مرکز بنی ہوئی تھیں(۔بھٹو کی تصویر۔،۔ بے نظیر،بے نظیر۔) اس دور کا بڑا مقبولِ عام نعرہ تھا اور یہی نعرہ جنرل ضیا الحق کو سب سے زیادہ نا پسند تھا ۔پاکستانی سیاست میں وفا ، دوستی اور قربانی کا کوئی تصور نہیں تھا کیونکہ قائدِ اعظم محمد علی جناح کے بعد کوئی ایسا لیڈر منظرِ عام پر نہیں آیا تھا جو واقعی عوامی امنگوں کا ترجمان ہوتا اور لوگ اس سے محبت کا عہد کرتے ۔شائد یہی وجہ ہے کہ قائدِ اعظم محمد علی جناح کی رحلت کے بعد سیاست ڈرائنگ روموں کی زینت بن گئی ۔وقفوں وقفوں سے حکومتوں کی تبدیلی ایک عام معمول بن گیا تبھی تو بھارتی وزیرِ اعظم پنڈت جواہر لال نہرو کو یہ کہنا پڑا تھا کہ میں اتنے پاجامے نہیں بدلتا جتنے پاکستان میں وزرائے اعظم بدلے جاتے ہیں۔سیاست کی یک رنگ اس وقت تک جاری رہی جب جنرل محمد ایوب خان نے ۲۷ اکتوبر ۱۹۵۸؁ کو ملک پر مارشل لا نافذ کر کے اختیا رات اپنے ہا تھو ں میں لے لئے۔نہ کہیں پر کوئی جلوس نکلا، نہ کہیں پر کوئی جلسہ ہوا، نہ کہیں پر کوئی مزاحمت ہوئی اور نہ کہیں پر کوئی ہڑتال ہوئی۔کسی ایک جانب سے بھی جنرل ایوب خا ن کے مارشل لا کے خلاف کوئی مظاہرہ دیکھنے میں نہ آیا اور نہ ہی کسی عوامی فورم سے اس کی مذمت ہوئی جس سے بخو بی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اس وقت عوام کی نظر میں سیاست دانوں کی عزت اور مقام کس درجے کا تھا۔،۔

سیاست کا یہی پسِ منظر تھا جو جنرل ضیا لحق کے ذہن میں تھا اور اسی کے پیشِ نظر اس نے اقتدار پر قبضہ بھی کیا تھا لیکن اسے کیا خبر تھی کہ ذولفقار علی بھٹو نے سیاست کے سارے مروجہ ضا بطے بدل دئے ہیں اور عوام مارشل لا کے خلاف جدو جہد کرنے کیلئے تیار ہیں ۔جیلوں، کوڑوں اور پھانسیوں کا ایک لا متناہی سلسلہ شروع ہو گیا جس میں ہر اس شخص کو جس کا کسی نہ کسی انداز میں ذولفقار علی بھٹو سے کوئی تعلق تھا اسے تشدد کا نشانہ بنایا گیا اور ۸۰ ہزار کوڑوں سے ان کی پیٹھوں کو داغدار کیا گیا۔ ظلم و جبر کی یہ بے رحم داستان اس وقت تک جاری رہی جب تک جنرل ضیا ا لحق ایک ہوائی حادثے کا شکار ہو کر اس دنیا سے ہمیشہ ہمیشہ کیلئے رخصت نہ ہو گیا۔ ذولفقار علی بھٹو جب معزول ہو کر قید و بند کی صعو بتوں کے حوالے ہوئے تو وفاؤں کے ایک ایسے کلچر نے پاکستان میں جنم لیا جس کی آج بھی مثالیں دی جاتی ہیں۔ذولفقار علی بھٹو کوئی عام لیڈر نہیں تھے بلکہ وہ ایک ایسے سیاستدان تھے جنھوں نے برِ صغیر پا ک وہند میں ذات پات کے بتوں کو پاش پاش کر کے یہاں کے رہنے والوں کو انسا نی مساوات اور برابری کی نئی دنیا سے روشناس کروایا تھا ۔ انسانیت پر ان کا یہ ا حسانِ عظیم ہے کہ انھوں نے اونچ نیچ کی زنجیروں کو توڑ کر انسانوں کو دوسرے انسانوں کی غلا می سے نجات دلائی تھی۔یہ جنگ بھٹو کی جنگ نہیں تھی کیونکہ وہ تو ذاتی طور پر خوشخا ل گھرانے سے تعلق رکھتا تھا اور وہ ذات پات کی تقسیم سے متاثر بھی نہیں تھا۔سچ تو یہ ہے ہ اس کے سامنے اپنی ذات نہیں بلکہ انسانیت کی تکریم کا معاملہ تھا اور وہ تکریمِ انسانیت کیلئے ہر چیز کو قربان کرنے کیلئے بے تاب تھا ۔،۔

(میری پرواز تو ہو گی تیری پرواز کے ساتھ۔،۔طائر ِ جاں تو اڑا ہے بڑے انداز کے ساتھ)۔،۔(حرف ِ حق تو نے کہا ہے جو سر ِ دارو رسن۔،۔میر ی آواز ہے شامل تیری آواز کے ساتھ ) ۔،۔

بھٹو کی یہ جنگ در اصل پوری انسانیت کی جنگ تھی اور بھٹو اس جنگ کا میرِ کارواں تھا اور وہ اسے ہر حال میں جیتنا چاہتا تھا چاہے اسے اپنی زندگی کا خراج ہی کیوں نہ دینا پڑے ۔ بہر حال اس جنگ میں جب جان دینے کا مرحلہ آیا تو پھر وہ اپنے وعدے سے پیچھے نہیں ہٹا بلکہ پوری جراتوں سے اس جنگ میں اپنی جان کا نذرانہ دے کر اپنے چاہنے والوں کی نگاہوں میں ہمیشہ کیلئے امر ہو گیا کیونکہ مقصد کے حصول کے سامنے اس کی اپنی جان کی قربانی بے معنی ہو چکی تھی۔وہ تو بہت دور دیکھ رہا تھا۔اسے تو پوری کی پوری انسانیت کی رہائی کی فکر دامن گیر تھی لہذا وہ اپنی ذات کے حصار سے بہت بلند ہو چکا تھا۔ذات پات کے مکرو ہ کلچر سے رہائی پانے والوں کیلئے ذولفقار علی بھٹو ایک ایسا نجات دھندہ تھا جس کیلئے وہ لوگ اپنی عزیز ترین متاع بھی قربان کر سکتے تھے کیونکہ انسانوں کو غلامی سے رہائی دلانے کا احسان ان کی نظر میں دنیا کی ہر نعمت سے بڑا تھا۔وہ زندانوں میں گیا تو یہ لوگ زندانوں میں چلے گئے،وہ اسیرقفس ہوا تووہ بھی اسیرِ وفا ہوئے، وہ سرِ دار جھول گیا تو انھوں نے بھی پھانسی کے پھندوں کو چوم کر گلے کا ہار بنا لیا۔ گویا انھوں نے اپنی حیاتی اس کے نام وقف کر دی تھی کیونکہ ان کا ایمان تھا کہ آزادی اور حریت کی یہ زندگی ذولفقار علی بھٹو کی عطا کردہ ہے لہذا اس کی عطا کردہ فکر کی خاطر جان کی قربانی کوئی بڑا سودا نہیں ہے اور انھوں نے اس سودے کی حقانیت ثابت کرنے کیلئے متاعِ جان کو سرِ عام لٹایا تھا اور پورا عالم قربانی کے اس منظر کا چشم دید گواہ بنا ۔(ہمیں سنجیدگی سے سوچنا ہو گا کہ کیوں آخر۔،۔ کئی صبحیں نگل کر بھی اندھیرا کم نہیں ہوتا ؟)۔

زندہ قومیں اپنے ہیروز کو عزت و احترام سے نوازتیں اور ان کے ناز اٹھا تی ہیں۔ایسی بے شمار مثالیں موجود ہیں کہ کسی خاص وقت میں راندہ درگاہ اور سزا یافتہ لوگ قومی ہیرو بنا دئے گے۔وہ جھنیں مجرم بنا کر دفنایا گیا تھا وقت آنے پر وہی قوم کی پیشانی کا جھومر بنے اور انھیں اعزاز و اکرام کے ساتھ دوبارہ دفنایا گیا۔پاکستان اس لحاظ سے بد قسمت ہے کہ اس کے ایک انتہائی ہونہار بیٹے ذولفقار علی بھٹو کو جنرل ضیا لحق اور عدلیہ نے باہمی گٹھ جوڑھ سے ذاتی مفادات کی خاطر سولی پر چڑھایا لیکن وقت نے ثابت کیاکہ ان کا فیصلہ غلط تھا۔عدالتی قتل کا اعتراف پھانسی دینے والوں نے بھی کیا تو پھر ذولفقار علی بھٹو کو قوی ہیرو قرار دینے میں کون سی چیز مانع ہے؟ ذولفقار علی بھٹو کی پاکستان کیلئے بے شمار خدمات ہیں ۔ ۱۹۷۳؁ کا آئین،اسلامی سر براہی کانفرنس،ایٹمی توانائی کا حصول،تیسری دنیا کا اتحاد،نوے ہزار قیدیوں کی وطن واپسی،بھارتی تسلط سے پانچ ہزار مربع میل کا علاقہ واگزار کروانا،مزدور یونینوں کا قیام،سٹوڈنٹ یونینوں کی اجازت،پاکستان سٹیل مل،ٹیکسلا ہیوی کمپلیکس،پاک چین دوستی کی بنیاد رکھنا،محنت کش طبقے کو زبان عطا کرنا، انھیں ان کے حقوق کا شعور عطا کرنا،محروم طبقات کی حکومتی ایوانوں میں رسائی کو یقینی بنانا ،صنعتوں کو قومیانہ ،تعلیم کو سب کیلئے مفت کرنا،پورے ملک میں مزدوروں کیلئے بہترین جگہوں پر چھوٹے چھوٹے گھروں کی تعمیر ، مفت علاج معالجے کی سہولیات، طبقاتی تقسیم کا خاتمہ اور انقلابی اصلاحات کا نفاذجس سے تمیزِ بندہ و آقا ختم ہوئی ۔ تاریخ کے فیصلہ کے بعد ریاست کو بھی اپنا فیصلہ سنانے میں دیر نہیں کرنی چائیے۔جتنی جلدی ممکن ہو سکے ذولفقار علی بھٹو کو قومی لیڈر کا مقام (سٹیٹس )دے کر ہر قومی دن پر اس کے مزار پر پھولوں کی چادریں چڑھانی چائیں ۔عوام کی بے پناہ محبت ، جمہوریت اور عوام کی خاطر اس کی بیش بہا قربانیوں کا تقاضہ ہے کہ اسے اس منفرد مقام سے سرفرازکر کے وطن کا عظیم سپوت تسلیم کیا جائے کیونکہ اپنے عظیم الشان کارناموں کی وجہ سے وہ اس منفرد مقام کا پوری طرح سے اہل اور حق دار ہے ۔ ،۔

( خو شبوؤں کا اک نگر آباد ہونا چائیے۔،۔اس نظامِ زرکو اب برباد ہونا چائیے)۔،۔( ان اندھیروں میں بھی منزل تک پہنچ سکتے ہیں ہم۔،۔جگنوؤں کو راستہ تو یاد ہونا چائیے )
 

Tariq Hussain Butt
About the Author: Tariq Hussain Butt Read More Articles by Tariq Hussain Butt: 629 Articles with 515571 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.