شرمناک اور سیاہ دن

3 نومبر2007 کا دن، نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا بھرکی سیاسی اور آئینی تاریخ میںایک شرمناک اور سیاہ دن کے طور پر ہمیشہ یاد رکھا جائے گا کیونکہ اس دن ایک فوجی ڈکٹیٹرنے چیف جسٹس آف پاکستان سمیت 60 ججز کو صرف اس لیے معزول کردیا کہ اس’’آمر وقت ‘‘ اور اس کے حواریوں کو پہلی دفعہ کسی ’’حرف انکار‘‘ کا سامنا کرنا پڑاتھا۔ ہر سال جب اس دن کا سورج طلوع ہوا کرے گا تو ہمیں اس بات کا شدت کے ساتھ احسا س دلاتا رہے گا کہ اس دن ’’طاقت اور اقتدار ‘‘کے گھمنڈ میں مبتلا ایک’’آمر وقت‘‘ نے اپنے غیر ملکی آقاؤں کی خوشنودی اور اپنے اقتدار کو بچانے اور تحفظ دینے کے لئے پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ غریبوں اور مظلوموں کو بلاتفریق انصاف کرنے والی ’’عدلیہ‘‘کا قتل عام کیا۔ لیکن جب وقت بدلتا ہے تو پھر ’’فرعون ِوقت‘‘ اپنے گھمنڈ اور غرور سمیت کسی نہ کسی دریا میں غرق ہونا پڑتا ہے چاہے وہ دریا ،’’دریائے نیل ‘‘یا’’دریائے گمنامی‘‘ہو۔ آج جب ملک بھر میں 3 نومبر کا یوم سیاہ منایا جارہا ہے تو وہ’’ آمر وقت ‘‘گمنامی اور تنہائی کے گھٹا گپ اندھیرے میں از خود رہنے پر مجبور ہے جبکہ ’’حسینی افکار‘‘کے پیروکار’’چیف جسٹس افتخارمحمد چوہدری‘‘ اور انکے ثابت قدم رفقاءآج بھی عوام کی آنکھوں کا تارا بنے ہوئے ہیں۔آج 3 نومبر 2008 کےدن کا یوم سیاہ اس لحاظ سے اور بھی افسوسناک اور قابل مذمت ہے کہ جس جماعت ،کے کارکنوں نے عدلیہ کی آزادی اور وقار کے لئے کراچی اور اسلام میں،حکومتی دہشت گردی کا مردانہ وار مقابلہ کرتے ہوئے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کر کے جام شہادت نوش کیا اور جس جماعت کی ’’ چئیرپرسن محترمہ بے نظیر بھٹو شہید‘‘ نے معزول چیف جسٹس کی رہائش گاہ کے سامنے ببانگ دہل کہا تھا کہ ’’ہمارے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری ہیں، ہماری جماعت اقتدار میں آئی تو ہم ان کی رہائش گاہ قومی پرچم دوبارہ لہرائیں گے‘‘۔ لیکن افسوس کے ساتھ یہ لکھتے ہوئے دکھ ہورہا ہےکہ وہ جماعت بر سراقتدار آئی تو اس نے آزاد عدلیہ کے علمبردار معزول چیف جسٹس افتخارمحمد چوہدری اور ان کے دیگر رفقاء کو، پروقا ر انداز میں بحال کرنے کی بجائے ان کے درمیان پھوٹ ڈالنے کی گھناؤنی سازشیں شروع کردیں اور کچھ ججز صاحباں کو سنہرے خواب دکھا کر دوبارہ حلف اٹھوا کر عدلیہ کی آزادی کی تحریک کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی، جس میں انہیں وقتی طور پر تھوڑی سی کامیابی تو مل گئی، لیکن تحریک مکمل طور پر ختم کرنے کا خواب، خواب ہی رہا اور رہے گا(انشاءاللہ تعالیٰ)۔

 حیرت تو اس بات پر ہے کہ اب بھی اس جمہوریت کی دعویدار جماعت کے کرتا دھرتا دن رات اٹھتے بیٹھتےعوامی اورانسانی حقوق کے تحفظ، ایک آزاد اور خود مختار عدلیہ قیام کی باتیں کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ وہ اپنی شہید کے مشن کی تکمیل کرنے پر عمل پیرا ہیں، جب ان کے اپنی شہید قائد کے مشن کی تکمیل صرف اور صرف یہ ہے کہ ائیر پورٹوں، شہروں، سڑکوں، پارکوں اور تعلیمی اداروں کے نام بدل کر’’شہید قائد‘‘کے نام پر رکھ دے جائیں۔ جبکہ حقیقی معنوں میں مشن کی تکمیل اس وقت ہوگی جب موجودہ حکومت، سابق آمرانہ حکومت کے تمام غیر آئینی اقدامات کو ختم کرتے ہوئے عوام کی امنگوں کے عین مطابق پالیسیاں بنائے گی اور پارٹی کے منشور پر خلوص نیت سےعملدرآمد کرے گی۔ موجودہ حکومت یہ جانتی بھی ہے اور مانتی بھی ہے، کہ عوام کی اکثریت معزول چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری اور ان کے دیگر رفقاء کی پروقار انداز میں بحال ہوتا دیکھنا چاہتی ہے لیکن اس کے باوجود حکومت عوام کے اس مطالبے کو پورا کرنے میں حیل و حجت سے کام لیکر اپنی جماعت کو اس انجام سے دوچار کرنے پر تلی ہوئی، جس انجام کی خواہش، قائدعوام بھٹو شہید کے ہر دشمن کے دل میں پیدا ہوتی چلی آرہی ہے۔ موجودہ حکمرانوں کو چاہیے کہ وہ اپنے خوشامدی مشیروں کے سازشی مشوروں پر دھیان دینے کی بجائے حالات کے تقاضوں کو سمجھتے ہوئے 3 نومبر2007 کو غیر آئینی اقدام کے ذریعے معزول کئے گے چیف جسٹس افتخارمحمد چوہدری اوران کے دیگر رفقاء کو باعزت اور پروقار انداز میں بحال کرے ۔ کیونکہ یہی وہ واحد راستہ ہے جسے اپنا کر وطن عزیز کو درپیش بحرانوں سے نکلا جاسکتا ہے کیونکہ جس ملک میں عدلیہ آزادی کے ساتھ انصاف بر مبنی فیصلے کرتی ہے، وہاں امن و سکوں ہوتا ہے اور جہاں امن وسکون ہوتا ہے، سرمایہ کاری ہوتی ہے، جہاں سرمایہ ہوتی ہے، وہاں معیشت مضبوط ہوتی ہے، جہاں معیشت مضبوط ہوتی ہے، وہاں جموری ادارے پاور فل ہوتے ہیں، جہاں جموری ادارے پاور فل ہوتے ہیں، وہاں نہ آمریت آتی ہے اور نہ کسی گھمنڈی عالمی تھانے دار کی تھانیداری کی کوئی گنجائش ہوتی ہے۔
Hafeez Saeedi
About the Author: Hafeez Saeedi Read More Articles by Hafeez Saeedi: 3 Articles with 2804 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.