جون کا آخری ہفتہ قومی ذرائع ابلاغ میں دو متضاد خبروں
کے ساتھ وارد ہوا۔ ایک میں رعنا ایوب کو عالمی ”جان ابوچن“ ایوارڈ سے نوازے
جانے کی خوشخبری اور دوسرے میں سدھیر چودھری کے استعفیٰ کا اعلان تھا۔ ان
دونوں کے درمیان مودی سرکار مشترک ہے۔ رعنا ایوب اگر موجودہ حکومت کی اتنی
بڑی ناقد نہ ہوتیں اور انہیں یہ سرکار اس قدر پریشان نہ کرتی تو شاید وہ
عالمی اعزاز سے سرفراز نہیں ہو پاتیں۔ اسی طرح اگر سدھیر چودھری اس حکومت
کا اس قدر وفادار نہ ہوتا اور اتنے تلوے نہیں چاٹتا تو ممکن ہے اس کا زی
نکالا نہیں ہوتا ۔ سدھیر چودھری وہی نامراد صحافی ہے جس نے حکومت کی
خوشنودی کے لیے مسلمانوں کے خلاف جھوٹ اور افتراء پردازی کی ساری حدیں پار
کردیں ۔ اسی وجہ سے نہ صرف دبئی میں اس کی مخالفت ہوئی بلکہ شاہین باغ سے
بھی اسے رسوا کرکے بھگا دیا گیا ۔ ہرشام کی مودی بھگتی بھی سدھیر چودھری کے
کام نہ آئی اور بالآخر اسے زی نیوز چھوڑنا پڑا۔
سدھیر چودھری نے بظاہر نیا کاروبار شروع کرنے کا بہانہ بناکر استعفیٰ دیا
اور زی کے سربراہ سبھاش چندر نے اسے منانے کا ڈھونگ بھی کیا لیکن یہ دونوں
تماشے بھی اس جھوٹ کے پلندے میں ایک اضافہ ہے جسے یہ لوگ دن رات زی چینل کے
ذریعہ پھیلاتے رہتے ہیں۔ وقت کے ساتھ سدھیر چودھری نہ صرف اس ادارے میں اول
پوزیشن پر آگیا تھا بلکہ زی نیوز کا چہرا بن چکا تھا ۔ یہی شہرت اس کے لیے
عذابِ جان بن گئی۔ گزشتہ سال ستمبر میں سبھاش چندرا نے اس پر گرفت کرتے
ہوئے لکھا تھا ۔ میرے نزدیک عہدے کی اہمیت فرد سے زیادہ ہے۔ زی میں یہ بری
عادت ہے کہ تنظیم کے بجائے افراد کو جانا جاتا ہے۔ انہوں ایک ملازم کو
پھٹکار لگاتے ہوئے لکھا تھا کہ تمہیں رپورٹ میں سدھیر چودھری کے بجائے
سربراہ کو خطاب کرنا چاہیے تھا۔ اسی زمانے میں اے بی پی سے سبھاش چندرا نے
اپنے ادارے میں ایک اہم ترین عہدے پر راج سنگھ اہوجا کو لے آئے۔ آہوجا
اپنے ساتھ اے بی پی کے مزید کچھ لوگوں لانا چاہتے تھے ۔ چودھری نے اسے خود
کو کنارے کیے جانے کا اشارہ سمجھا۔ آہوجا سے باہمی چپقلش ہی دراصل چودھری
کے ہکال پٹی ّ کی بنیادی وجہ بن گئی اور اس پر یہ شعر صادق آگیا ؎
نکلنا خلد سے آدم کا سنتے آئے ہیں لیکن
بڑے بے آبرو ہوکر تیرے کوچے سے ہم نکلے
آہوجا اور چودھری کی جنگ میں ایک اہم موڑ سبھاش چندر کی انتخابی شکست سے
آگیا۔ پانچ سال قبل وہ بی جے پی کے حمایت یافتہ رکن کی حیثیت سے ایوان
بالا میں منتخب ہوئے تھے ۔ اس بار انہوں نے پھر سے قسمت آزمائی کی
مگرراجیہ سبھا جا نے میں ناکام رہے ۔ اس ناراضی کے سبب زی نیوز پر کچھ
معتدل خبریں بھی آنے لگیں یعنی حکومت پر ہلکی پھلکی تنقید ہونے لگی۔ یہ
بات سدھیر چودھری کے لیے ناگوار تھی کیونکہ انہوں نے سرکار کے اندھے بھگت
کی جو شبیہ بنائی تھی اس کے مشکوک ہوجانے کا خطرہ تھا۔ مالک تو پھر مالک
ہوتا اس لیے سبھاش چندرا نے سدھیر سے مہاراشٹر کے باغی ارکان اسمبلی کی
گوہاٹی میں عیش و عشرت اور آسام کے سیلاب زدگان کی حالتِ زار کا موازنہ
کروا دیا۔ اس پروگرام میں اعدادو شمار کے ذریعہ بتایا گیا تھاکہ کس طرح ایک
کروڈ سیلاب زدگان کو صرف سو روپیہ کا کھانا ایک دن میں دیا جاتا ہے اس کے
برخلاف باغی ارکان اسمبلی پر کروڈوں روپیہ نچھاور کیا جارہا ہے۔ زی پر
سدھیر چودھری کی یہ آخری پیشکش تھی۔ یہ اچھا پروگرام چونکہ سدھیر چودھری
کی برسوں سے تعمیر کردہ شبیہ پر پانی پھیرنے والا تھا اس لیے انہوں نے اس
راستے پر آگے بڑھنے کے بجائے زی ٹی وی سے اپنے پندرہ سالہ تعلق کو دریا
برد کردیا۔
سدھیر چودھری کا سورج اس طرح ڈوبا کہ پہلے انہوں نے ادارتی نشستوں میں شرکت
بند کردی پھر زی کے واٹس ایپ گروپ سےنکل آئے۔ان کا سب سے مشہور پروگرام ڈی
این اے تھا۔ اس کے اندر پیر اور منگل کو اچانک ان کی جگہ زی ہندوستان کے
روہت رنجن نمودار ہوگئے لیکن کم از کم لوگو پر تصویر تو موجود تھی ۔ اس کے
بعد بدھ اور جمعرات کو ان کی تصویر بھی ہٹا دی گئی اور جمعہ کو سدھیر
چودھری فارغ ہوگئے ۔ سدھیر چودھری اپنی چاپلوسی کے علاوہ بلیک میلنگ کے لیے
بھی یاد کیے جائیں گے۔ انہوں نے خود جندل گروپ کو بدنام کرنے کی دھمکی دے
کر سو کروڈ روپیہ رشوت کا مطالبہ کیا تھا۔ جندل نے اس کی ویڈیو بناکر انہیں
تہاڑ جیل کی سیر کروادی ۔ یہی وجہ ہے کہ دیش بھگتی کے گنگا جل سے انہیں
اپنے سارے پاپ دھونے پڑے۔ سدھیر چودھری پرزی کے دفتر میں کورونا سے
متاثرعملہ کو زبردستی کام پربلانے کا سنگین الزام بھی لگا۔ اس پر افلاطون
نامی صارف نے ٹوئٹر پر لکھا تھا: ’سدھیر چودھری کورونا کے متاثرین کو چھپا
رہے ہیں۔ سدھیر چودھری غدار ہیں، انھیں واپس تہاڑ بھیج دیا جانا چاہیے۔‘
اس وقت امن نامی صارف نے تو یہاں تک لکھ دیا تھا کہ : ’زی نیوز کو پتہ تھا
کہ ان کے ملازمین متاثر ہیں اور سٹوڈیو میں کام کر رہے ہیں۔ اس طرح وہ
وبائی بیماریوں کےپھیلانے کی دفعہ 269 اور تعزیراتِ ہند کی دفعہ 188 کی
خلاف ورزی کے مرتکب ہوئے ہیں ۔ اس نفرت کی فیکٹری کے خلاف مقدمہ چلنا چاہیے
اور اسے مستقل طور پر بند کر دیا جانا چاہیے۔‘ اس کو آگے بڑھاتے ہوئے ایک
اور صارف نے لکھا تھا کہ 'بیج ببول کا بویا تو آم کہاں سے پاؤ گے؟' سدھیر
چودھری کے عبرتناک انجام پر یہ محاورہ من و عن صادق آتا ہے۔ تبلیغی جماعت
کے خلاف جب محاذ کھولا گیا تھا تو نزہت اسدی نامی صارف نے لکھا تھا :
’تبلیغی نہیں جانتے تھے کہ وہ انفیکٹڈ ہیں۔ تاہم آپ نے اس کے خلاف دہشت
گرد، کورونا جہاد، سپر سپریڈرس، سنگل سورس جیسے الفاظ ان کا مذاق اڑانے اور
مسلمانوں اور اسلام کو بدنام کرنے کے لیے استعمال کیا۔ یاد رکھیں اگر آپ
برا کریں گے تو برائی آپ کے پاس لوٹ کر آئے گی‘‘۔ اس پیشنگوئی کو وقت نے
درست ثابت کردیا۔
ایک طرف سدھیر چودھری نام کا ببول اور اس کےبرعکس رعنا ایوب نامی گلاب کہ
جنہیں امریکہ میں واقع جرنلزم انسٹی ٹیوٹ کے صدر گل کلین نے 2022کے عالمی
”جان ابوچن“ ایوارڈ کے لیے نامزد کردیا ۔یہ امریکا میں پریس فریڈم کا سب سے
بڑا اعزاز مانا جاتا ہے ۔ اگر چہ باضابطہ طور پر ایوارڈ کا اعلان سال کے
آخر میں کیا جائے گا لیکن رعنا ایوب کی طرف توجہ مبذول کرانے ، ان کی حمایت
کرکےدیگر لوگوں کو اس کی ترغیب دینے کے لیے قبل ازوقت اس کا اعلان کردیا
گیا۔ رعنا ایوب کی یہ پذیرائی گودی میڈیا کے چہرے پر ایک زوردار طمانچہ ہے
کیونکہ وہ پہلی ہندوستانی صحافی ہیں جن کو جان اوبوچن ایواڈ کا مستحق سمجھا
گیا ۔ واشنگٹن کے نیشنل پریس کلب کی صدر جین جوڈسن نے اپنے بیا ن میں کہا
کہ ہمیں رعنا ایوب کو ایوارڈ کیلئے نامزد کرتے ہوئے خوشی ہو رہی ہے ۔انہوں
نے کہا کہ تفتیشی صحافت میں رعنا کی ہمت اور مہارت ان کے پورے کیرئیر میں
نمایاں رہی ہے جبکہ حکومت پر تنقید کی وجہ سے انہیں حملوںکا سامنا کرنا پڑا
ہے۔ انہوں نے ہندوستان کے اندران کے ٹویٹر اکاونٹ کو بلاک کرنے کی مذموم
کوشش پر تشویش کا اظہار کیا اور اس کی فوری طور پر بحالی کا مطالبہ کیا ۔
رعنا ایوب کو جانی و مالی دونوں طرح کی ہراسانی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
امسال فروری میں ان کے زیادہ تر اثاثے منجمند کردیئے گئے اور مارچ کے مہینے
میں انہیں لندن جانے سے روک دیا گیا ۔ مالی جرائم کی تحقیقات کرنے والی
ایجنسی انفورسمنٹ ڈائریکٹوریٹ نے رعنا ایوب پرمنی لانڈرنگ کا الزام لگا
کرکروڈوں کی رقم ضبط کرلی۔ ان کوماضی میں سوشل میڈیا پرقتل کی دھمکیاں ملتی
رہی ہیں اورانہیں آن لائن ٹرولنگ کا نشانہ بھی بنایا گیا اس کے باوجود
اٹلی اور برطانیہ جاکر انہوں نے بلا خوف وخطر حکومت کے بخیے ادھیڑ دئیے۔
ٹائم میگزین نے رعنا ایوب کو ان دس عالمی صحافیوں میں شامل کیا جنہیں جان
کے خطرے کا سب سے زیادہ سامنا کرنا پڑا ہے۔انہیں خطرات سے نبردآزمائی نے
رعنا ایوب کو عالمی نے ایوارڈ کا حقدار بنایا ۔اس موقع پر انہوں نے واشنگٹن
پریس کلب کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ ہندوستان میں صحافیوں کیلئے یہ
آزمائش کا وقت ہے اور یہ ایوارڈ میرے لیے بہت بڑا اعزاز ہے جسے میں اپنے
ساتھیوں آصف سلطان، محمد زبیر اور صدیق کپن کے نام کر رہی ہوں جو سچ بولنے
پر جیل میں ہیں۔ رعنا ایوب کی تعظیم و توقیر سدھیر چودھری سے کہہ رہی ہے؎
شہر سخن میں ایسا کچھ کر عزت بن جائے
سب کچھ مٹی ہو جاتا ہے عزت رہتی ہے
|