تحریر۔۔۔ حافظ محمد تنویر
تاریخ گواہ ہے 1947 سے قبل غیور مسلمانوں نے انگریزوں کی غلامی سے آزادی
حاصل کرنے کے لیے اپنا تن من دھن قربان کر دیا حالانکہ اس وقت بھی بعض
علمائے دین مسلمانوں کے جذبے کو دبانے کی بھرپور کوشش کرتے ہوئے انگریز
کانگریس کی حمایت میں میدان عمل میں آ گئے تھے جس کے نتیجے میں ہندوؤں اور
سکھوں نے معصوم بچوں اور جوانوں کو نیزوں اور تیروں کے ذریعے سر قلم کر دیے
تھے لیکن مسلمان قوم نے اس بات کی پرواہ نہ کرتے ہوئے پاک سر زمین پر پاؤں
رکھے ہیں اس پاک مٹی کو چوما یہ عمل قابلِ ذکر ہے کہ کانگریس کے پٹھوؤں نے
قائداعظم محمد علی جناح کی وفات کے بعد لیاقت علی خان کو ہزاروں افراد کی
موجودگی میں ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت ان کو قتل کیا اور قتل کرنے والے
کو بھی بعد میں مار دیا یہاں یہ کہاوت سچ ہوگی کہ نہ رہے بانس نہ بجے
بانسری غلاموں کے پٹھوؤں نے اسلام کا لبادہ اوڑھ کر ملک و قوم کی فضا کو
برباد کر رہے ہیں اگر حقیقت کے آئینے میں دیکھا جائے تو کانگریس کا ہمیشہ
یہ مشن رہا ہے کہ۔تو نوٹ وکھا میرا موڈ بنے جس کے نتیجہ میں بھائی بھائی کی
جان کا دشمن بن کر رہ گیا ہے حالانکہ خدا وندکریم مسلمانوں کی مقدس کتاب
میں ارشاد فرماتا ہے کہ اﷲ کی رسی کو مضبوطی سے تھامے رکھو اور تفرقے میں
مت پڑو افسوسناک بات تو یہ ہے کہ آج دولت کے پجاری جنہیں اکثر لوگ لوٹا
کہتے ہیں بعض لوگ ان کی پوجا کرنے میں مصروف عمل ہیں یہ میں نہیں کہہ رہا
کیونکہ میں تو ایک غریب آدمی ہوں اس کا فیصلہ تو ہمارے معزز عدلیہ نہیں کر
دیا ہے یہ وہی لوٹے برساتی مینڈک کی طرح ٹر ٹر کرنے میں مصروف عمل ہیں جہاں
تک میری سوچ کا تعلق ہے ہے کہ لوٹوں کا تعلق خواہ کسی بھی سیاسی جماعت سے
کیوں نہ ہو باضمیر افراد ووٹ تو کیا ان سے بات کرنا بھی اپنی توہین سمجھتے
ہیں جہاں تک میری سوچ کا خیال ہے کہ ہمارے ملک کا ان لوگوں نے بیڑا غرق کر
کے رکھ دیا ہے یہاں پر یہ سوچنا آسان ہے اور یہ بات آسانی سے سمجھ بھی
آجاتی ہے کہ ہماری ٹرانسپورٹ تباہ سڑکیں تباہ کاروبار تباہ ملک کی ہر چیز
تباہ ہوگئی یہ تو ہمارے نسلوں کو بھی بیچ کر کھانے کو تیار ہوگئے ہیں آخر
کیوں۔ووٹ لینے والے افراد امیر سے امیر تر اور دینے والے افراد غیر یب سے
غریب تر۔آخر کیوں۔۔۔؟
|