اترپردیش کے وزیر اعلیٰ یوگی ادیتیہ ناتھ نے انتخابی مہم
کے دوران کہا تھا کہ ’گرمی نکال دیں گے اور مئی میں شملہ بنادیں گے‘۔ان کی
حکومت اپنے مخالفین کی گرمی تو نہیں نکال سکی مگر عدالت نے خود ان کو ٹھنڈا
کر دیا ۔ میڈیا میں تو بڑے طمطراق سےیہ اعلان کرنے والے بلوائیوں کو ایسا
سبق سکھایا جائے گا کہ ان کی نسلیں یاد رکھیں گی جب عدالت میں پہنچے تو
کہنے لگے کہ بلڈوزر کی کارروائی کا احتجاج سے کوئی تعلق ہی نہیں ہے۔ سرکار
نے سپریم کورٹ میں جمع کرائے گئے حلف نامے میں تشدد اور سبق کا ذکر تک نہیں
کیا بلکہ اس مسماری کو غیر قانونی تعمیرات کے خلاف معمول کا عمل قرار دے
دیا۔ ویسے تو یہ بھی غلط ہے مگر خود کو پارسا ثابت کرتے ہوئے سرکار نے الٹا
جمعیتہ العلماء پر اس تخریب کاری کو فسادات سے جوڑ نے کا الزام لگا دیا۔
یوپی حکومت نے جب عدالت میں کہا کہ فسادیوں کے خلاف الگ قانون کے تحت
کارروائی کی جا رہی ہے تو پتہ چل گیا کہ بلڈوزر بابا جب عدالت میں جاتے ہیں
تو ان کے کس بل ازخود ڈھیلے ہوجاتے ہیں ۔ اپنی خجالت مٹانے کی خاطر جمعیتہ
پر جرمانہ عائد کرنے کی درخواست کرکےتو انتظامیہ نے حد کردی ۔
یوپی حکومت کا الزام ہے کہ درخواست گزار جھوٹا الزام لگا رہے ہیں کہ ایک
کمیونٹی کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ یہ بات اس بیانیہ کے خلاف کہ ’ بی جے پی
نے مسلمانوں کو ٹھیک کردیا ‘۔ یہی کہہ کہہ کر بار بار انتخاب جیتا جاتا ہے
لیکن عدالت کے اندر اس کے متضاد موقف اختیار کرنا منافقت نہیں تو اور کیا
ہے؟ یو پی حکومت نے یہ بھی کہا کہ متاثرہ فریقین میں سے کوئی بھی عدالت کے
سامنے نہیں ہے لیکن اس سے حکومت کا ظلم کیسے جائز ہوسکتا ہے؟ اس معاملے میں
ایک نیا جواز محمد جاوید کے گھر پر سیاسی جماعت کا سائن بورڈ کا ہونا شامل
کیا گیا ہے۔ اتر پردیش سرکار نے حلف نامے کے ساتھ چند لوگوں کی جانب سے ایک
شکایت منسلک کرکے کہا ہے کہ جے کے آشیانہ کالونی میں مکان نمبر 39C/2A/1
پر جاوید نے PDA سے بلڈنگ پلان نقشہ کی منظوری کے بغیر دو منزلہ عمارت کی
تعمیر کی ۔ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ان غیر متعلقہ لوگوں کو اس عمارت
کے پلان کے مطابق ہونے یا نہیں ہونے کا علم کیونکر ہوا بلکہ ان لوگوں نے یہ
جاننے کی کوشش کیوں کی؟ اس شکایت کو مشکوک بنا نے کے لیے یہ سوالات کافی
ہیں ۔
مذکورہ شکایت میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس عمارت میں ویلفیئر پارٹی آف
انڈیا کا دفتر ہے۔ دور دراز سے لوگ دن رات اس دفتر میں آتے رہتے ہیں اور
اپنی گاڑیاں سڑک پر کھڑی کرتے ہیں جس سے علاقے کا ماحول خراب ہوتا ہے۔ دور
دراز کے لوگوں کی آمدو رفت سے ماحول کا خراب ہونا غیر عقلی جواز ہے ۔
گاڑیاں اگر سڑک پر نہیں تو کہاں کھڑی رہیں گی؟ یہ اعتراض کہ تنگ سڑک کی وجہ
سے وہاں تک پہنچنا مشکل ہے اگر درست ہوتب بھی وہاں نوپارکنگ کی تختی لگوا
کر گاڑیوں کے مالکین پر جرمانہ لگانا چاہیے ۔ اس سے مکان منہدم کرنے کا
جواز کیونکر نکلتا ہے؟ یہ الزام بھی بے بنیاد ہے کہ دفتر میں کچھ سماج دشمن
عناصر بھی دیکھے گئے ہیں۔ اس لیے کہ سماج دشمن عناصر کی موجودگی کے سبب ان
تمام عمارتوں کو مسمار نہیں کیا جاسکتا جس میں ان کا آنا جانا ہو۔ اس طرح
تو کوئی پولیس تھانہ اور عدالت محفوظ نہیں رہے گی اور وکلاء کے دفاتر بھی
زد میں آجائیں گے۔
اس حلف نامے سے منسلک شکایت میں شکایت کنندگان کی شناخت عمائدین شہر کی
حیثیت سے سرفراز، نور عالم، محمد اعظم کے طور پر کی گئی مگر پتہ یا رابطے
کی تفصیلات دینے کی زحمت گوارہ نہیں کی گئی ۔ انڈین ایکسپریس کے ترجمان نے
جب مسمار شدہ مکان سے 400 میٹر کے دائرے میں 30 رہائشی افراد سے ان نام
نہاد شکایت کرنے والوں کے بارے میں پوچھا تو پندرہ نے حکومتی کارروائی کا
خوف سے خاموش رہنا بہتر سمجھا باقی لوگوں نےکہا کہ وہ شکایت کنندگان کو نہ
جانتے ہیں اور نہ ان کے بارے میں سنا ہے کہ وہ مقامی باشندے ہیں۔ اس طرح یہ
بات ظاہر ہوگئی کہ یوگی سرکار کا حلفیہ بیان بھی جھوٹ اور مکاری کے سوا کچھ
نہیں ہے۔ یہ سب اس لیے ہورہا کیونکہ جسٹس اے ایس بوپنا اور وکرم ناتھ کی
بنچ نے پچھلی سماعت کے دوران حکام پر زور دیا تھا کہ جب تک اس معاملے کی
اگلی سماعت نہیں ہوتی کوئی ناخوشگوار واقع نہیں ہونا چاہیے یعنی بابا
بلڈوزر بابا کو انتقامی کارروائی سے پرہیز کرنا چاہیے۔
یوگی سرکار کی یہ بزدلی اور منافقت اس لیے سامنے آئی کیونکہ جاوید محمد کے
گھر کی غیر قانونی انہدامی کاروائی کے خلاف جمعیۃ علماء ہند نے سپریم کورٹ
سے رجوع کیا۔ کانپور، پریاگ راج( الہ آباد) اور سہارنپور شہروں میں
انتظامیہ کے ذریعہ مسلمانوں کی املاک کو بلڈوزر سے زمین دوز کرنے کے خلاف
داخل پٹیشن میں جمعیۃ علماء قانونی امداد کمیٹی کے سربراہ گلزار اعظمی مدعی
بن کر حاضر ہوئے ۔ اس سے قبل جہانگیر پوری اور کھرگون معاملے میں بھی سپریم
کورٹ کے اندر پٹیشنس داخل کی گئی تھیں جس کی سماعت کرنے کے بعد سپریم کورٹ
نے 21؍ اپریل 2022 کو ریاست اترپردیش سمیت مدھیہ پردیش، اتراکھنڈ ، گجرات
اور دہلی کو نوٹس جاری کرکے بلڈوزر کے ذریعہ کی جانے والی انہدامی کارروائی
پر جواب طلب کیا تھا۔جمعیۃ علما ء نےغیر قانونی انہدامی کارروائی پر روک
لگانے اور قانون کی دھجیاں اڑاکر مسلمانوں کی املاک کو نقصان پہنچا نے والے
افسران کے خلاف کارروائی کر نے کا مطالبہ بھی کیا تھا۔حالیہ عبوری عرضداشت
میں تحریر کیا گیا ہے کہ قانون کے مطابق کسی بھی طرح کی انہدامی کارروائی
کے آغاز سے قبل پندرہ دن کی نوٹس دینا ضروری ہے نیز اتر پردیش بلڈنگ
ریگولیشن ایکٹ1958 ؍کی دفعہ 10؍ کے تحت فریق کو اپنی صفائی پیش کرنے کا
مناسب موقع دیاجانا چاہئے۔
اتر پردیش میں اربن پلاننگ اینڈ ڈیولپمنٹ ایکٹ 1973 کی دفعہ 27 کے تحت کسی
بھی طرح کی انہدامی کارروائی سے قبل 15؍ دن کی نوٹس دینا ضروری ہے ۔ اسی کے
ساتھ ساتھ اتھارٹی کے فیصلہ کے خلاف اپیل کا بھی حق ہے اس کے باوجود من
مانے طریقہ پر سیاسی شہرت حاصل کرنے کے لیے بلڈوز چلادیا جاتا ہے۔عرضداشت
میں اس غیر قانونی انہدامی کارروائی سے مسلمانوں میں خوف وہراس کا ذکر کرنے
کے بعد ضابطوں کی پاسداری پر زور دیا گیا۔ سپریم کورٹ میں چونکہ گرمیوں کی
تعطیلات چل رہی ہیں اس لیے معاملے کی حساسیت کو دیکھتے ہوئے پٹیشن کو
تعطیلاتی بینچ کے روبرو جلد ازجلد سماعت کی درخواست کی گئی۔ یہی وجہ ہے کہ
جسٹس اے ایس بوپنا اور جسٹس وکرم ناتھ کی تعطیلاتی بنچ جمعیۃ علماء ہند کی
درخواست پر سماعت کر تے ہوئے اترپردیش حکومت سے کہا کہ انہدام کی کارروائی
قانون کے مطابق کی جانی چاہیے اور انتقامی نہیں ہونی چاہیے۔ سپریم کورٹ نے
ریاستی حکومت کو اپنا جواب داخل کرنے کے لیے 3 دن کا وقت دیا تھا ۔
اس کے بعد ریاستی حکومت کو عدالت عظمیٰ کو یہ بتانا پڑا کہ اتر پردیش میں
انہدام کی حالیہ کارروائی میں پورے طریقہ کار اور میونسپل قانون کی پیروی
کی گئی ہےکیونکہ عدالت نے ہر کارروائی کے قانون کے مطابق کرنے پر زور دیا ۔
جسٹس بوپنا نے اپنے تبصرے میں کہا کہ بغیر نوٹس کے تعمیرات کو گرانے کی
کوئی کارروائی نہیں کی جا سکتی۔ اس معاملے میں احتیاط لازمی ہے تاکہ جن
لوگوں کے مکانات گرائے گئے ہیں وہ عدالت سے رجوع کرنے کی ضرورت نہ پیش
آئے۔اس معاملے میں جب سالیسٹر جنرل تشار مہتا نے ریاستی حکومت کی وکالت
کرتے ہوئے جمعیۃ علماء ہند کی شکایت کو بے بنیا د بتایا اور پوچھا کہ جن کے
گھر گرائے گئے انہوں نے عدالت سے رجوع کیوں نہیں کیاَ تو اس پر عدالت نے
ڈانٹ پلاتے ہوئے کہا کون عدالت میں آیا ہے یہ اہم نہیں ہے بلکہ ضابطوں کی
پاسداری ہوئی یا نہیں اس کی اہمیت ہے۔
اتر پردیش حکومت کے وکیل ہریش سالوے نے 25 مئی کو مسمار کرنے کا حکم کا ذکر
کیا تو جمیعت کے وکیل سی یو سنگھ نے بتایا کہ جاوید محمد پر الزام لگا کر
ان کی بیوی کا گھر گرایا گیا اور پرانے نوٹس کا کوئی ثبوت نہیں ہے۔ وکیل
نتیا راما کرشن نے کہا سرکار بلوائیوں کو سزا دینے کی تشہیر کررہی ہے ۔
حذیفہ احمدی نےحکومت کی بدنیتی ظاہر کرتے ہوئے بتایا کہ جن کے خلاف ایف
آئی آر درج کی گئی انہیں کے گھر گرائے گئے۔ اس طرح جب یوگی سرکار کے خلاف
سارے شواہد واضح ہوگئے تو جسٹس بوپنا نے پھٹکار لگاتے ہوئے کہا کہ ہم بھی
معاشرے کا حصہ ہیں، ہم دیکھ رہے ہیں کہ کیا ہو رہا ہے، اگر کوئی شکایت کرے
گا تو عدالت بچاؤ میں نہیں آئے گی تو یہ ٹھیک نہیں ہوگا۔ اس تبصرے سے
واضح ہے کہ عوام کی طرح عدلیہ کو بیوقوف نہیں بنایا جاسکتا ۔ بظاہر ایسا
لگتا ہے کہ سرکار کو جاوید محمد کی اہلیہ پروین فاطمہ کا گھر بناکر دینا ہی
ہوگا ۔ اس طرح اگلا عدالتی بلڈوزر یوگی انتظامیہ کے وقار پر چلے گا اور اس
کی رعونت کو چکنا چور کردے گا ۔ تاریخ شاہد ہے کہ ماضی میں بھی غرور کا سر
نیچا ہوا ہے اور امید ہے مستقبل میں بھی یہی ہوگا۔
|