قیام پاکستان کے بعد ابتدائی دہائیوں میں پی آئی اے
سمیت ہمارے مختلف محکمے ٹیک آف کرگئے تھے کیونکہ اس وقت کوئی حکمران
پسندناپسند کے تحت فیصلے اورقومی اداروں میں سیاسی مداخلت نہیں کرتا تھا۔آج
پاکستان مقروض ہے لیکن اس دورمیں کئی ملکوں نے ہم سے قرض لیا تھا۔اس وقت
سیاسی قیادت کیلئے سیاست نہیں ریاست مقدم تھی ۔ریاستی ادارے اورمحکمے شب
وروز تعمیر ریاست کیلئے سرگرم تھے۔روس کے بعدپاکستان کا راکٹ بھی فضاؤں
کاسینہ چیرتا ہوا خلاؤں میں جاپہنچا تھا۔پی آئی اے نے اپنے دیرینہ دوست چین
سمیت چندخلیجی ملکوں کی فضائیہ کوسہارا دیا۔ 16دسمبر1971ء سے پہلے اوربعد
کے پاکستان میں فرق سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ضیائی آمریت نے پاکستان میں
اپنے پنجے گاڑے تو فوجی آمر کی انگلی تھام کرسیاسی ،سماجی،انتظامی اورمعاشی
بربادی بھی ہمارے معاشرے کی رگ رگ میں سرائیت کرتی چلی گئی،فطری سیاسی
قیادت کاسحر توڑنے کیلئے مصنوعی قیادت تیارکرنے کی ناکام سازش نے پاکستان
کوبحرانستان بنا دیا۔ضیائی آمریت کے دوام واستحکام کیلئے ذوالفقار علی
بھٹوکو ایوان سے زندان میں منتقل کرناانتہائی ناگزیرہوگیا تھالیکن اس
آمرانہ اقدام نے عوام میں بھٹو کو مزید مقبول بنادیا، ڈکٹیٹر نے بدترین
منفی ہتھکنڈوں،چمک اورمیک اپ کی مدد سے نوازشریف کو" مقبول" توبنالیا لیکن
وہ اسے ریاست اورسیاست کیلئے" معقول" بنانے میں ناکام رہا۔1985ء کے بعد
ہماری ریاست کی پراگندہ سیاست میں اقرباء پروری ، دھونس دھاندلی،سیاسی
بونوں،نوٹوں اورلوٹوں کاسیلاب امڈآیا۔سیاسی بونوں نے ریاست کے مقابلے میں
منافقانہ سیاست اورنجی تجارت کواہمیت دی ۔ملک میں مصنوعی سیاسی قیادت آنے
سے کرپشن میں جدت اورشدت آ ئی۔پاکستان کے قومی وسائل مسلسل چوری اورملی
بھگت سے بیرون ملک منتقل جبکہ اداروں میں سیاستدانوں کے وفادار غلام بھرتی
ہوتے رہے۔چندخاندان معاشی طورپرزمین سے آسمان پرچلے گئے جبکہ قومی معیشت
آئی ایم ایف نامی وینٹی لیٹر پر چلی گئی۔سودی نظام نے بھی ہماری معیشت کی
نابودی میں کلیدی کرداراداکیا۔اسلام نے جمعتہ المبارک کوافضل دن قرار جبکہ
نمازِ جمعہ کے خصوصی اہتمام کاحکم دیاہے لیکن ہماری اسلامی ریاست نے جمعہ
کی ہفتہ وار چھٹی ختم کردی جبکہ علماء بھی خاموش رہے۔جمعہ کی بجائے ہفتہ
اوراتوار کی چھٹی کے باوجود پاکستان مزید مقروض ہوگیا۔وہ خلیجی ملک جہاں اب
بھی جمعہ کی چھٹی کی جاتی ہے وہ معاشی طورپرپاکستان سے بہت آگے ہیں لہٰذاء
بہتر ہوگاپاکستان بھی جمعہ کی چھٹی بحال کرد ے کیونکہ ہمارا "رزق" یورپ
نہیں ہمارے سچے"رزاق" کے ہاں سے آتا ہے ،یقینا اس اقدام سے اﷲ ربّ العزت
راضی ہوں گے۔ قائد ؒ کے فرمان ،"کام ،کام اورکام "کی روشنی میں وفاقی
محکموں میں دوچھٹیوں کاسلسلہ فوری ختم کیا جائے۔ وفاقی محکموں کے آفیسرز
اوراہلکاروں کوصوبائی محکموں کے مقابلے میں زیادہ تنخوا ہ دی جاتی ہے
لہٰذاء جوپوری تنخواہیں وصول کرتے ہیں ان سے پوراکام لیا جائے کیونکہ چوری
اورکام چوری دونوں قابل گرفت ہیں۔کرپشن کے سدباب کیلئے چین کی طر ح پاکستان
میں بھی سزائے موت مقرر کی جائے۔کرپشن کاسیلاب یقینا نیب کے سوا کوئی نہیں
روک سکتالیکن اس کیلئے نیب کوآزاد ،خودمختار اوربااختیار بناناہوگا۔
نیب اوراینٹی کرپشن کے ہوتے ہوئے ہمارے ہاں کرپشن کاسورج سوانیزے پر ہے
توتصورکریں اگر نیب اوراینٹی کرپشن نہ ہوتے توپھر کیا حال ہوتالہٰذاء
جوعناصر قومی وسائل ہڑپ کرتے ہیں ان کی توندوں اورتجوریوں تک رسائی جبکہ
قومی چوروں کے چہروں سے نقاب کشائی اوران کی رسوائی کیلئے نیب کواس کے
اختیارات واپس کرناہوں گے۔ڈی جی اینٹی کرپشن پنجاب راناعبدالجبار نے اپنی
انتظامی صلاحیت کی طاقت سے اپنے محکمے کومزید منظم اورفعال کردیا ہے،
یقیناان کی قیادت میں کرپشن کیخلاف آپریشن جاری رہے گا اورلاہور سمیت پنجاب
بھر کے بدعنوان زندان میں ہوں گے۔جوچور ملک پررحم نہیں کرتے وہ ہرگزقابل
رحم نہیں ہوسکتے ،ان کے ساتھ نرم رویہ اختیار نہیں کیاجاسکتا۔نیب بنانیوالے
آج اپنی چوریوں کے قصے زبان زدعام آنے پر اس ادارے سے بیزار ہیں کیونکہ
ہرکوئی سیف الرحمن نہیں ہوتا۔ جسٹس (ر)جاویداقبال اورمیجر(ر)شہزادسلیم کی
صورت میں انصاف پسند، اعتدال پسند عادل محتسب سے بھی قومی چوروں کاسامنا
ہوجاتا ہے۔ جاوید اقبال اور شہزادسلیم نے اپنے فرض منصبی کی بااحسن بجاآوری
کے دوران ریاست کی محبت میں قومی چوروں سے دشمنی مول لی اوراب بدقسمتی سے
انہیں حکمرانوں کی منافقت اورمخاصمت کاسامنا ہے۔ جاویداقبال اور شہزادسلیم
نے نیب کیلئے جوخدمات انجام دیں اس کیلئے وہ بجاطورپرانعام کے مستحق تھے
لیکن آج انہیں انتقام کاسامنا ہے۔ جاویداقبال کو چیئرمین نیب کے منصب سے
سبکدوش جبکہ ڈی جی نیب شہزادسلیم کولاہور سے اسلام آباد ٹرانسفر
کردیاگیاہے، جی ہاں نیب زدگان نے نیب قوانین میں ترامیم پراکتفا نہیں کیا
بلکہ نیب حکام کوانتقام کانشانہ بلکہ نشان عبرت بنانے کافیصلہ بھی کیا ہے
تاکہ آئندہ کوئی قومی چوروں کے احتساب کی جسارت نہ کرے۔انہیں نیب کیلئے کسی
خوددار" چیئرمین "نہیں بلکہ ''چورمین" اور"ڈی جی" نہیں ایک "ڈی جے "کی تلاش
ہے جوزندہ لاش ہواورقومی چوروں کی وارداتوں پرخاموش رہے۔ جاویداقبال اور
شہزادسلیم کامیڈیا ٹرائل کیا جارہا ہے جو راقم کے نزدیک بیک فائر
کرگیا۔ماضی میں بھی مخالفین کامیڈیا ٹرائل کرنے کیلئے مخصوص اورمتنازعہ
خواتین کواستعمال کیاجاتا رہا ہے۔ جو "شریف "ہوتے ہیں وہ اپنے دشمن پروار
کرنے کیلئے گمراہ خواتین کاکندھا استعمال نہیں کرتے۔جب کانچ کے گھر میں
بیٹھے لوگ خفت مٹانے کیلئے دوسروں پرخشت باری کرتے ہیں تومجھے تعجب ہوتا
ہے۔اگرطیبہ گل نامی خاتون طیب اور طاہرہ ہوتی توکسی قیمت پرجسٹس
(ر)جاویداقبال اور شہزادسلیم کیخلاف سازش کاحصہ نہ بنتی، اب ایک تیر سے کئی
شکار کرنے کی کوشش کی جار ہی ہے۔ غیرتمندشوہر ناحق قید میں مرتا مرجائے گا
لیکن وہ" بیچارہ" ا پنی آزادی کیلئے اپنی بیوی کو" چارہ "نہیں بناسکتا۔
یادرکھیں جو"رہائی" کیلئے اپنی اوراپنوں کی "رسوائی" کی پرواہ نہیں کرتے وہ
ملزم نہیں بلکہ عادی مجرم ہوتے ہیں،اس قبیل کے کردار قابل اعتبار نہیں
۔ظاہرہے چور محتسب کیخلاف شورمچایاکرتے ہیں لہٰذاء اس بلیم گیم کامنطقی
انجام زیادہ دور نہیں۔سچائی تودرکنار طیبہ گل کی کہانی میں روانی تک نہیں
،اس میں کئی موڑ، کئی جوڑ اورکئی جھول ہیں، نہ جانے طیبہ گل کیا گل کھلانا
چاہتی ہے ۔جس خاتون کواپنی عفت عزیز نہ ہو دوسروں کی عزت اچھالنا اس کیلئے
محض ایک شغل ہے ۔اس خاتون کی پشت پرایک نہیں ایک ساتھ کئی ہاتھ ہیں لیکن
ضروری نہیں وہ کردار ہربار اپنے مذموم ارادوں میں کامیاب ہوں۔ طیبہ گل
اوراس کے پروڈیوسر کی طرف سے وقت کاانتخاب بھی ایک بڑا سوالیہ نشان ہے ۔
ایک مخصوص نجی چینل کی طرف سے طیبہ گل کے متنازعہ موقف کو اسکینڈل بنانے کی
ناکام کوشش نے اس سازش کوبے نقاب کردیاہے ۔ شہزاد سلیم کی طرف سے طیبہ گل
کو لیگل نوٹس موصول ہوگیا ہے، اب خاتون کوبہت سے سوالات اوردستاویزات کے
تسلی بخش جوابات دینا ہوں گے ۔
نیب بظاہرہ خودمختار ادارہ ہے لیکن ہردورمیں اس کے پیروں میں بیڑیاں ہوا
کرتی تھیں تاہم اس بار نیب زدگان اور اتحادیوں نے اپنے آئینی عہدوں کی طاقت
سے اس ادارے کے" پر"اور"پیر"دونوں کاٹ دیے ہیں ۔نیب قوانین میں متنازعہ
ترامیم ہونے سے قبل قومی چوروں سمیت ان کے وظیفہ خواروں کی چیخوں سے نیب کی
کارکردگی کا پتہ چلتاتھا۔نیب قوانین میں ترامیم کے بعد نیب حکام کیخلاف
انتقام نے متحدہ حکومت کے مذموم عزائم کو پوری طرح آشکار کردیا ہے ۔پاکستان
دنیا کاواحدایسا ملک ہے جہاں چور ایک جتھے کی صورت میں محتسب کامحاصرہ ،
محاسبہ او ر میڈیا ٹرائل کر رہے ہیں۔نیب کے ناقدین اورحاسدین کی فہرست بہت
طویل ہے ،ظاہر ہے قومی چوروں کیلئے نیب کاوجودقابل برداشت نہیں رہا۔ شہزاد
سلیم کی چند برس قبل لاہور میں تعیناتی کے دوران شہبازشریف ،حمزہ شہباز
اورعبدالعلیم خان متعدد سیاستدان نیب کے مہمان رہے ، بعد ازاں شہزادسلیم کو
نامعلوم وجوہات کی بنا پر لاہور سے اسلام آباد نیب کے ہیڈ کوارٹر میں
ٹرانسفر کردیا گیا ۔ انہیں حال ہی میں تقریباً دواڑھائی ماہ قبل دوبارہ
لاہور میں تعینات کیا گیا لیکن اب شہزادسلیم کا دوبارہ اسلام آباد کیلئے
رخت سفر باندھنااُن کیلئے ایک بڑا سرپرائز ہے تاہم اسـ "سرپرائز "کی
"پرائز" کیا ہوگی اوریہ کون اداکرے گا یہ فیصلہ آنیوالے دنوں پر چھوڑ دیتے
ہیں۔ضمنی الیکشن میں حکومت کے حامی امیدواروں کی کامیابی کیلئے سرکاری
اداروں میں براجمان وفاداروں کی بھرپور مدد سے زر اورزور لگایا جائے گا،
35پنکچرز والی واردات آج بھی پاکستانیوں کو یاد ہے۔ جاویداقبال کو سبکدوش
جبکہ شہزاد سلیم کودوماہ بعد ٹرانسفر کرنا ان کی نیب کے ساتھ کمٹمنٹ ،پیشہ
ورانہ قابلیت اورخدمات کی شہادت ہے کیونکہ یہ دونوں سرفروش محتسب حکومت کی
Good Books نہیں بلکہ Hit List میں ہیں۔جوزندہ ضمیرآفیسرز ارباب اقتدار کی
Good Booksمیں نہیں ہوتے وہ تاریخ کی کتابوں کاجلی عنوان ہوا کرتے ہیں۔نیب
کے شعبہ اطلاعات ونشریات سمیت دوسرے شعبوں میں مٹھی بھر سفید ہاتھی
اورچندکالی بھیڑیں ضرور ہیں لیکن اس کے باوجود چوروں کے دل میں احتساب کاڈر
پیداکرنے کیلئے نیب کو " سیب" نہیں بلکہ "آسیب" بنانا ہوگا۔ |