کہتے ہیں کہ عادتیں نسلوں کا پتہ دیتی ہیں میری زندگی کا
زیادہ حصہ پنجاب اسمبلی میں عوامی خدمتگاروں کے درمیان گذرا کس کس نسل کا
انسان یہاں آیا اور کیا کیا گل کھلائے سینے میں بہت سے راز ہیں دوست کہتے
ہیں کہ یاداشتوں پر کتاب لکھوں دوستوں اور کتاب کا ذکر آیا توکچھ دن پہلے
ایک بہت ہی پیارے دوست اور بلند پاے کے صحافی و کالم نگار روحیل اکبر کے
دفتر جانے کا اتفاق ہوا وہاں گپ شپ کرتے ہوئے ساتھ والی میز پر پڑی ایک
پنجابی کتاب (کیہ جاناں میں کون) پر نظر پڑی تو اسے کھول کر دیکھے بغیر ہی
میں نے کہا کہ یہ کتاب میں لے کر جاؤں گا مگر اٹھتے وقت یاد نہ رہا اس لیے
وہ کتاب وہیں پڑی رہ گئی تقریباً ایک ہفتہ گزرنے کے بعد پھر روحیل کی کال
آئی کہ راجہ بابر (جو کہ ہمارا مشترکہ دوست ہے) ا رہا ہے آپ بھی آ جائیں گپ
شپ کرتے ہیں اور کھانا بھی اکٹھے کھاتے ہیں جب اس کے دفتر پہنچا تو وہ کتاب
وہیں پڑی دیکھی تو میں نے کہا یہ کتاب مجھے پکڑا دو اس دن بھی بھول گیا تھا
تو روحیل نے راجے سے کہا کہ یہ دونوں کتابیں دے دو دوسری کتاب ممتاز راشد
لاہوری کی لکھی ہوئی نازی نواز فیس بُک دوستی پر مبنی ایک چھوٹی سی مگر
دلچسپ کتاب تھی میں نے یہ کتاب گھر لانے کے دوسرے یا تیسرے دن رات کو ایک
ڈیڑھ بجے شروع کی اور کوئی دوبجے تک تقریباً آدھی کتاب پڑھنے کے بعد بند کر
دی میں ساتھ ساتھ یہ بھی عرض کرتا چلوں کہ کئی سالوں کے بعد یہ پہلی کتاب
ہے جو میں نے مکمل پڑہی ہے اگلے دن پھر اپنی روٹین کے مطابق میں ٹی وی
چینلز پر مختلف ٹاک شوز دیکھنے کے بعد جب اپنے بستر پر پہنچا تو گھڑی نے
رات ڈیڑھ بجے کا وقت بتایا لاہوری صاحب کی کتاب میرے بیڈ کے ساتھ ہی سائڈ
ٹیبل پر پڑی تھی میں نے کتاب اٹھائی اور تقریباً دو بجے تک ختم کر دی
لاہوری صاحب نے فیس بک دوستی پر یہ کتاب ایک انتہائی اچھوتے انداز میں لکھی
ہے جس میں فیس بک پر ہونے والی نازی اور نواز کے آپس میں میسجز کو تو ڈسکس
کیا سو کیا لاہوری صاحب نے اس کے ساتھ جس شہر کا بھی اس میں تذکرہ آیا تو
اس شہر کے کلچر کو بھی خوب بیان کیا انہوں جیسے نازی اور نواز پہلی بار کلر
کہار جھیل پر ملنے کا پروگرام بناتے ہیں تو کلر کہار جھیل کے ساتھ مورگاہ
کٹاس راج مندر کا ذکر اور اس کی تاریخ کا ذکر کرنا مناسب سمجھا انہوں نے
نازی کی گاڑی کا ایکسیڈنٹ ہونے کی وجہ سے ملاقات نہیں ہو پاتی ملتان کا ذکر
آیا تو شاہ شمس تبریز، بہاوالدین زکریا، نشتر میڈیکل کالج، بہاوالدین زکریا
یونیورسٹی اور ملتانی کڑھائی اور سوہن حلوے کا ذکر کرنا نہیں بھولے سرائیکی
پنجابی اردو میواتی کے ساتھ ساتھ ملتانی کلچر کی وضاحت کرنا ضروری سمجھا
انہوں نے اس کے بعد کراچی کے ذکر پر ناظم آباد، پیر الٰہی بخش کالونی،
ملیر، لیاری، منگھو پیر مزار قائد، برنس روڈ کلفٹن وغیرہ پورے کراچی شہر کا
نقشہ کھینچ کر رکھ دیا پھر آخر کار دونوں دوستوں جن کی دوستی اب محبت میں
بدل چکی تھی کی ملاقات لاہور میں طے پائی تو لاہور کا بیدیاں فارم ہاؤس سے
لے کر پیر مکی،داتا صاحب،میاں میر باغ جناح اور باغ جناح میں کاسمو کلب تک
کا ذکر کرنا پسند کیا لاہوری صاحب نے اور ملاقات کے بعد جس اچھے طریقے سے
ان کا بریک اپ ہوا وہ بہت احسن طریقے سے ہوا حالانکہ فیس بُک کی دوستیوں
میں (خاص طور پر لڑکی لڑکے کی محبت) 90 فیصد جھوٹ فریب اور دھوکا ہوتا ہے
اور انکا بریک اپ اکثر بڑا عبرتناک اور خوفناک ہوتا ہے کیسز میں بات تھانے
اور عدالتوں تک جاتی ہے مگر اس کیس میں جس خاموشی اور احسن طریقے سے بریک
اپ ہوا ہے یہ بھی آتھر کا کمال ہے اس کو پڑھنے کے بعد ایک بات ضرور واضع
ہوتی ہے اور یہ کہ لاہوری صاحب بہت اچھے لکھاری ہیں ان کی کتابیں پڑھنے سے
جو لوگ میری طرح کتاب پڑھناسے بھول چکے ہیں لاہوری صاحب کی کتابوں سے شروع
کریں تو وہ دوبارا کتاب سے ناطہ جوڑنے میں کامیاب ہو سکتے ہیں میں آخر میں
خراجِ تحسین پیش کرتا ہوں ممتاز راشد لاہوری صاحب کو کہ ان کے لکھنے کا
خوبصورت انداز اس قدر اچھوتا ہے کہ میں پورے یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ جن
لوگوں کا کتاب میں جی نہیں لگتا وہ لاہوری صاحب کی کتابیں پڑھنا شروع کریں
تو ان میں خود بخود پڑھنے کا شوق دوبارا پیدا ہو جائے گااور رہی میری کتاب
کی بات وہ بھی جلد لکھنا شروع کرونگا کیونکہ پنجاب اسمبلی وہ مقام ہے جہاں
علاقے کا معزز اور معتبر ایم پی اے کھل کر ظاہر ہوجاتا ہے جیسا کہ شروع میں
میں نے لکھا تھا کہ عادتیں نسلوں کا پتہ دیتی ہیں تو بلاشبہ یہی وہ مقام ہے
جہاں آکر عادتیں کھل کر سامنے آتی ہیں تو اسی حوالہ سے ایک بادشاہ کی کہانی
بھی پڑھتے جائیں کہ ایک بادشاہ کے دربار میں ایک اجنبی نوکری کی طلب لئے
حاضرہوا قابلیت پوچھی گئی کہاتو بتایا کہ سیاسی ہوں (عربی میں سیاسی،افہام
و تفہیم سے مسئلہ حل کرنے والے معاملہ فہم کو کہتے ہیں) بادشاہ کے پاس پہلے
ہی سیاست دانوں کی بھر مار تھی اسے خاص '' گھوڑوں کے اصطبل کا انچارج ''
بنادیاگیا چند دن بعد بادشاہ نے اس سے اپنے سب سے مہنگے اور عزیز گھوڑے کے
متعلق دریافت کیا اس نے کہا ''نسلی نہیں ہے''بادشاہ کو تعجب ہوا اس نے جنگل
سے سائیس کو بلاکر دریافت کیاتواس نے بتایا گھوڑا نسلی ہے لیکن اس کی
پیدائش پر اس کی ماں مرگئی تھی یہ ایک گائے کا دودھ پی کر اس کے ساتھ پلا
ہے مسؤل کو بلایا گیاتم کو کیسے پتا چلا اصیل نہیں ہے؟اس نے کہاجب یہ گھاس
کھاتاہے تو گائیوں کی طرح سر نیچے کر کے جبکہ نسلی گھوڑا گھاس منہ میں لیکر
سر اٹھا لیتاہیبادشاہ اس کی فراست سے بہت متاثرہوا اسکے کے گھر
اناج،گھی،بھنے دنبے اور پرندوں کا اعلی گوشت بطور انعام بھجوایااس کے ساتھ
ساتھ اسے ملکہ کے محل میں تعینات کر دیاچند دنوں بعد بادشاہ نے مصاحب سے
بیگم کے بارے رائے مانگی تواس نے کہاطور و اطوار تو ملکہ جیسے ہیں لیکن
''شہزادی نہیں ہے'' بادشاہ کے پیروں تلے سے زمین نکل گئی حواس بحال کئے ساس
کو بلا وابھیجا معاملہ اس کے گوش گذار کیااس نے کہا حقیقت یہ ہے تمہارے باپ
نے میرے خاوند سے ہماری بیٹی کی پیدائش پرہی رشتہ مانگ لیا تھا لیکن ہماری
بیٹی 6 ماہ ہی میں فوت ہو گئی تھی چنانچہ ہم نے تمہاری بادشاہت سے قریبی
تعلقات قائم کرنے کے لئے کسی کی بچی کو اپنی بیٹی بنالیابادشاہ نے مصاحب سے
دریافت کیا ''تم کو کیسے علم ہوا''اس نے کہا اس کا ''خادموں کے ساتھ سلوک''
جاہلوں سے بدترہے بادشاہ اس کی فراست سے خاصا متاثرہوا ''بہت سا اناج، بھیڑ
بکریاں'' بطور انعام دیں ساتھ ہی اسے اپنے دربار میں متعین کر دیاکچھ وقت
گزرامصاحب کو بلایااپنے بارے دریافت کیامصاحب نے کہا جان کی امان بادشاہ نے
وعدہ کیا اس نے کہا''نہ تو تم بادشاہ زادے ہو نہ تمہارا چلن بادشاہوں
والاہے''بادشاہ کو تاؤ آیا مگر جان کی امان دے چکا تھاسیدھا والدہ کے محل
پہنچا ''والدہ نے کہا یہ سچ ہے''تم ایک چرواہے کے بیٹے ہوہماری اولاد نہیں
تھی تو تمہیں لے کر پالا۔بادشاہ نے مصاحب کو بلایا پوچھا بتاتجھے کیسے علم
ھوا؟اس نے کہابادشاہ جب کسی کو انعام و اکرام دیا کرتے ہیں تو ''ہیرے موتی،
جواہرات'' کی شکل میں دیتے ہیں لیکن آپ بھیڑ، بکریاں، کھانے پینے کی چیزیں
عنایت کرتے ہیں یہ اسلوب بادشاہ زادے کا نہیں کسی چرواہے کے بیٹے کا ہی ہو
سکتا ہے اور میرے سینے میں بہت سے چرواہوں کے راز دفن ہیں کیونکہ عادتیں
نسلوں کا پتہ دیتی ہیں۔
|