"پاکستان کے پچھتر برس!!"

پاکستان کے پچھتر برس !!
جبار مرزا کی نئی کتاب
نظریہ ضرورت اور پاکستان کی بگاڑ میں عدلیہ کا کردار۔ عارف الحسینی قتل ۔ لال مسجد، جنرل فضل حق کا سانحہ اور بریگیڈئر گلستان جنجوعہ ۔ ائیر مارشل اصغر خان کا دلچسپ مکالمہ ۔ آزادئ صحافت اور قائد اعظم ۔ ذوالفقار علی بھٹو نے اسلام آباد میں ایوب خان کی تدفین کی اجازت نہ دی۔کالا باغ ڈیم اور نواب آف کالا باغ۔ ذوالفقار علی بھٹو کو معاہدہ تاشقند قبول تھا۔آپریشن جبرالٹر سے مڈ نائٹ جے، کال تک ۔ امام خمینی سے ضیاء الحق تک
اہم تاریخی حقائق و نت نئے انکشافات سے مرّقع

75 Years

"پاکستان کے پچھتر برس!!"
منیراِس ملک پر آسیب کا سایہ ہے یا کیا ہے
کہ حرکت تیز تر ہے اور سفر آہستہ آہستہ
معلوم نہیں کس کیفیت میں منیر نیازی نے یہ شعر کہا تھا مگر ہمارے ملک کی سیاسی زندگی پر بڑا حقیقت پسندانہ لطیف اور اچھوتا تبصرہ ضرور ہے۔ پچھتر برس کی سیاسی تگ دو کا حاصل۔۔۔مزید سیاسی تگ دو کا چیلنج ۔۔۔طے شدہ اُمور کا پھر سے معرض وجود میں آنااور سیاسی عدم استحکام و بے یقینی ہے۔گویا ہماری قومی سیاسی زندگی دائرے کا سفر ہے کہ جہاں سے چلے تھے ،پھر وہیں لوٹ آئے۔۔۔یا سیڑھی اور سانپ کا کھیل ہے کہ لب ِ بام تک پہنچے مگر اگلے ہی لمحے پاتال میں گر گئے۔تقریباً یہی ہے پاکستان کی سیاسی زندگی کی مختصر رُوداد۔
بہر حال ملک کے سیاسی اتار چڑھاؤ،نشیب وفراز اور اُتھل پتھل کے قریبی اور عینی شاہد اہل صحافت ہوتے ہیں۔جناب جبار مرزا بھی اُن ہی میں شامل ہیں۔جبار مرزا نہ صرف ملک کے ممتاز صحافی اور اخبار نویس ہیں بلکہ مایہ نازمحقق ،معروف ادیب ،بلند پایہ تجزیہ نگار اور ایسے نکتہ ور دانشورہیں جو حالات کی تہہ میں اُتر سکتا ہے اور اُن کو پرت پرت دیکھنے کی کامیاب کوشش کرسکتا ہے۔اُن کا مطالعہ بھی وسیع ہے اور مشاہدہ بھی۔سونے پر سہاگہ یہ کہ اللہ تعالیٰ نے جبار مرزا صاحب کو خوبصورت اور شگفتہ اندازِ بیاں بھی عطا کیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پچھتر برس کی سیاسی تاریخ پڑھتے ہوئے نہ بوجھل پن محسوس ہوتا ہےاور نہ خشکی۔بلکہ تازگی ، شگفتگی اور واقعات کی ہم سفری کا احساس ہوتا ہے۔
جبار مرزا نے قلم کے محاذ پر بڑے جوہر دکھائے۔اُن کی مدیرانہ صلاحیت نے لوہا منوایا ،اداریہ نویس اور مضمون نگار کے طور پربھی اُنہوں نے اپنا سکہ چلایا۔بین الاقوامی سیاست اُن کا خاص موضوع ہے اور قومی منظر کی نبض تلاش کرنا اُنہیں مرغوب اور محبوب ہے۔پاکستان کی سیاسی تاریخ پر خصوصی مطالعہ اورگہری نظر رکھتے ہیں اور بہت سےواقعات کے خود عینی شاہد بھی ہیں۔اُنہوں نے پوری دیانت داری کے ساتھ حالات و واقعات کو بالکل اُسی طرح بیان کیا ہے جس طرح اُنہیں دیکھا،سُنا اور محسوس کیا اور کہیں بھی نہ تو اپنے قلم کو جھکایا ،نہ ہی اُسے سیاسی محاذ آرائی ،ذاتی حمایت یا مخالفت سے آلودہ کیا۔
جبار مرزا صاحب کی ایک بڑی خوبی اُن کا اختصار ہے وہ دریا کو کوزے میں بند کرتے ہیں اور پھر اپنے انداز میں دل کی بات کہہ کر قاری کے دل پر قبضہ کرلیتے ہیں۔وہ انکشاف کرنے اور اپنے قاری کو چونکا دینے کے مرض میں مبتلا نہیں، البتہ اُنہوں نے واقعات ،شخصیات اور سیاسی معرکوں کی ایسی تفصیلات بیان کی ہیں جو بہت سےپڑھنے والوں کے لیے انکشاف کا درجہ رکھتی ہیں۔
پاکستان کے پچھتر برس میں اُنہوں نے پاکستان کے اِن گزرے ہوئے سالوں کے اہم سیاسی،سماجی حالات مختصر مگر جامع انداز میں قلم بند کیے ہیں ۔ اُنہوں نے پاکستان بننے کے اسباب ۔ابتدائی زمانہ ۔اُس وقت پیش آنے والی مشکلات ۔اُس وقت کی سیاسی لیڈر شپ کا اُس تمام صورت حال سے نپٹنا ۔ان سب باتوں کے حوالے سے اہم واقعات بیان کرنے سے اپنی تحریر کی ابتدا کی ہے ۔قائد اعظم محمد علی جناح ؒکا انتقال ۔لیاقت علی خان کا دور اور اُن کی شہادت اُس سے پیدا ہونے والے مسائل کا بھی خوب ذکر کیا ہے ۔اُردو زبان کو قومی زبان بنانے کے ابتدائی مراحل سے قانونی اور سماجی پہلو سے اُس کو نافذ کرنے اور اُس کے نتیجے میں کراچی میں ہونے والے لسانی فسادات کا بھی ذکر اِس تحریر میں موجود ہے ۔
ایک اور اہم واقعہ جس کا تفصیلی ذکر جبار مرزا صاحب نے کیا ہے وہ پاک بھارت جنگوں کا ہے ۔۱۹۴۷۔۴۸ میں کشمیر کی جنگ ہو ۔۱۹۶۵ کی جنگ جس میں بھٹو صاحب کے کردار کو خوب بیان کیا ہے یا پھر مشرقی پاکستان کی علیحدگی کا تذکرہ ۱۹۷۱ میں ۔اِن واقعات کو بیان کرتے ہوئے جبار مرزا صاحب کی پاکستانیت اور درد نمایاں ہو جاتا ہے۔ وہ ان واقعات کے اسباب تحریر کرتے ہوئے جہاں غیروں کے اقدامات کا ذکر کرتے ہیں وہیں اپنے اندر کے اُن لوگوں کا بھی ذکر کر دیتے ہیں جن کی وجہ سے اِس ملک کو اتنے نقصانات پہنچے ۔
پاکستان کے سیاسی و فوجی حکمرانوں اور اُن کے ادوارمیں ہونے والے اہم واقعات جس طرح جناب جبار مرزا صاحب نے بیان کیئے ہیں وہ ہمارے سامنے پاکستانی تاریخ کو دوبارہ زندہ کر دیتے ہیں ۔پاکستان میں لسانی سیاست کی ابتدا ءاور اس کے اہم واقعات بھی جبار مرزا نے تحریر کیئے ہیں تاکہ ہم یہ سمجھ سکیں کہ اِس قسم کی سیاست ملک کے لیے کتنی نقصان دہ ہے اور اِس کے نتائج کس طرح لوگوں میں ایک دوسرے کے لیے منفی سوچ پیدا کرنے کا باعث بنتے ہیں ۔افغانستان میں روسی جارحیت ،پاکستان کا اُس میں ملوث ہونا، افغان مہاجرین و مجاہدین کی مدد کے حوالے سے بھی جبار مرزا نے ملک کی تاریخ کے اِس اہم واقعے کو قلم بند کیا ہے ۔
جبار مرزا صاحب نے پاکستان کے ایٹمی پروگرام کی ابتدا ءاور اُس حوالے سے پاکستان اور ہندوستان میں ہونے والی جنگ کے خدشات و نتائج کا بھی ذکر اِس تحریر میں کیا ہے ۔اِس حوالے سے وہ ڈاکٹر عبد القدیر خان مرحوم کو بہت خراج تحسین پیش کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ضیا الحق کی موت کے بعد ۸۸ سے لے کر ۹۹ تک کی سیاسی اکھاڑ پچھاڑ بھی جبار مرزا کا اِس تحریر کا موضوع بنتی ہے اور اِس حوالے سے اہم واقعات قاری کے سامنے آجاتے ہیں ۔ واجپائی کا دورہ پاکستان ہو یا مشرف کا حکومت میں آنا اور اُس کے بعد کے واقعات یہ سب اِس تحریر کا حصہ ہیں ۔
کسی بھی ریاست کی مضبوطی کا انحصار اُس کے مختلف اداروں کی مضبوطی پر ہوتاہے۔ ریاستی ادارے جتنے مضبوط، فعال اور قابل اعتماد ہوں، ریاست بھی اتنی طاقتور اور باوقار گردانی جاتی ہے۔ کوئی بھی ریاست عمومی طور پر چار ستونوں پر کھڑی ہوتی ہے،اِن میں مقننہ، انتظامیہ، عدلیہ اور صحافت نمایاں ہیں۔ جب تک ریاست کے یہ چاروں ستون عزت و وقار کے حامل رہیں، تب تک اُس ملک کو بھی وقار کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔
ہماری سیاسی تاریخ کا المیہ یہ ہے کہ اِن چاروں میں سے کوئی بھی ایک ادارہ ملک وقوم کی نظر میں باوقار مقام حاصل نہ کرسکا۔پاکستان کی پچھتر سالہ تاریخ میں عدلیہ کا کردار اُس طرح زیر بحث نہیں رہا اور ہی اُس کا بھرپور تنقیدی جائزہ لیا گیا جس طرح مقننہ ،انتظامیہ ،صحافت اورسیاست دانوں کا کردار گفتگو میں آتا ہے اور اُن پر تنقید و تبصرہ کیا جاتا ہے۔جبکہ اِس حقیقت سے صرف نظر نہیں کیا جاسکتا کہ پہلی اسمبلی کی برخواستی سے لے کر موجودہ دور کے وزیر اعظم کو گھر بھیجنے تک عدلیہ کا کردار کہیں نہ کہیں موجود ضرور ہے۔پاکستان کی فوجی حکومتیں ہوں یا سیاسی حکمران ، کسی نہ کسی طرح اعلیٰ عدلیہ کے فیصلوں سے متاثر ضرور ہوئے اور یہ جسٹس منیر کے پیدا کردہ اُسی نظریہ ضرورت کا ساخشانہ ہے کہ آج تک ملک میں کسی بھی وزیر اعظم نے اپنی آئینی مدت پوری نہیں کی۔پاکستان کے پچھتر برس کی ایک خوبی یہ بھی ہے اِس میں پہلی بار جبار مرزا صاحب عدلیہ کردار پر مفصل گفتگو کی ہےاور اُن عوامل کی نشاندہی بھی کہ جس کی وجہ سے پاکستان میں قانون کی حکمرانی کے تصور کو شدید نقصان پہنچا۔
الغرض جناب جبار مرزا صاحب کی اِس تحریر میں پاکستان کے پچھتر برسوں کی تاریخ کچھ اِس طرح سمٹ گئی ہے کہ ایک عام قاری سے لے کر پاکستانی تاریخ کے جاننے والوں تک کے لیے یہ تحریر بنیادی ماخذ اور حوالے کے طور پر کام آسکتی ہے ۔یقیناًپاکستانی تاریخ کے حوالے سے سینکڑوں کتابیں پڑھنے کے بعد ہی ایسی تحریر ممکن ہو سکتی ہے اسی لیے یہ قاری کو بہت مشقت سے بچا کر اُس کے سامنے پاکستان کے گزرے ہوئے پچھتر برس یوں رکھ دیتی ہے کہ اِس آئینے میں پاکستان، حکمران اور عوام نکھر کرسامنے آجاتے ہیں۔
ہماری نئی نسل قیام پاکستان سے قبل اور بعد کے حالات کے بارے میں وہ کچھ نہیں جانتی جو اُسے معلوم ہونا چاہیے تھا۔اور جو نسل اب پروان چڑھ رہی ہے اُس کی عدم واقفیت تو اور بھی زیادہ ہوگی۔اگرچہ ہمارے ہاں پچھلے واقعات کی تاریخ ہمیشہ لکھی جاتی رہی ہے اور تاریخی کتابوں کی بھی کمی نہیں ہے مگر مسئلہ یہ ہے کہ آج کل کے قارئین ضخیم یا ٹھوس نوعیت کی علمی کتابوں کے مطالعے کا نہ تو ذوق رکھتے ہیں اور نہ ہی اِس کے لیے اُن کے پاس وقت ہے۔اِس تناظر میں پاکستان کے پچھتر برس ہماری ایسی سیاسی تاریخ ہے جو ایک طرف جہاں نئی نسل کو ماضی کے حالات اور اُس کے پس منظر سے آگاہ کرسکتی ہے وہاں خاص طور پر سیاسی سماجی کارکنوں اور اُن لوگوں کو جو معاشرے میں مثبت تبدیلی کے لیے عملاً کردار ادا کررہے ہیں،کے لیے بھی اِس لیے راہ عمل ثابت ہوسکتی ہے کہ پاکستانیت ،ملک سے محبت اور اِس کے وجود کے بقاء کی خواہش مرزا صاحب کی تحریر کا وہ نمایاں خاصہ ہے جس کی مثال کم ہی ملتی ہے۔
ہمارا ماننا ہے کہ اکیسویں صدی میں ہوش سنبھالنے والی نئی نسل کے لیے یہ ایک اچھا تحفہ ہوگا اور اگر ایسا نہ بھی ہوسکا تب بھی جو نسل اِس وقت سیاسی جدوجہد کے میدان میں ہے اُسے اپنے جذبے اور شعور کی سطح کو گہرا اور اونچا کرنے کے لیے،اِس لیے کچھ نہ کچھ مدد ضرور مل جائے گی کہ یہ اُن کی پوری علمی اورصحافتی زندگی کا نچوڑ ہے۔
محمداحمد ترازی
M.Ahmed Tarazi
About the Author: M.Ahmed Tarazi Read More Articles by M.Ahmed Tarazi: 319 Articles with 358270 views I m a artical Writer.its is my hoby.. View More