'' چالی حدیثاں '' پنجابی زبان میں ایک منفرد تحقیقی مجموعۂ چہل احادیث

'' چالی حدیثاں '' پنجابی زبان میں ایک منفرد تحقیقی مجموعۂ چہل احادیث
'' چالی حدیثاں '' پنجابی زبان میں ایک منفرد تحقیقی مجموعۂ چہل احادیث
-------------------------------------------------------------------------
چہل احادیث کے جمع کرنے کا سب سے بڑا محرک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا قول: ''من حفظ علی أمتی أربعین حدیثاً من أمر دینہا بعثہ اﷲ فی زمرۃ الفقہائ''۔(شعب الایمان للبیہقی، باب فی طلب العلم، فصل فی فضل العلم وشرفہ:۲؍۲۷۰،دار الکتب العلمیۃ بیروت) یہ حدیث مختلف صحابہ کرامؓ سے منقول ہے، اگرچہ اس کے تمام طرق ضعیف ہیں۔(کشف الخفاء ومزیل الالباس:۲؍۲۴۶،ط:مکتبۃ الغزالی) لیکن کثرتِ طرق کی بناء پر اس کا ضعف کم ہوگیا۔(النکت للزرکشی، معرفۃ الحسن من الحدیث :۱۰۳،ط:دارالکتب العلمیۃ، بیروت)ابن عساکرؒ فرماتے ہیں کہ: ''یہ حضرت علیؓ، حضرت عمرؓ، حضرت انسؓ، حضرت ابن عباسؓ، حضرت ابن مسعودؓ، حضرت معاذؓ، حضرت ابوامامہؓ، حضرت ابو دردائؓ اور حضرت ابوسعید خدریؓ سے منقول ہے اور تمام طرق میں کلام ہے ۔''(کشف الخفاء :۲؍۲۴۶)لیکن باوجود ضعف کے کثرتِ روایت کی بناء پر اُسے بالکل رد نہیں کیا جاسکتا، اس کے ساتھ ساتھ علماء کا قبولِ عام بھی اس کے صحیح ہونے کی دلیل ہے۔ (قواعد فی علوم الحدیث، الفصل الثانی: ۶۰،ط:ادارۃ القرآن، کراچی)
چالیس کا عدد ہمیشہ سے قابلِ توجہ رہا ہے، قدیم مصریوں کے یہاں ایک ''دورِ نجوم'' چالیس برس کا ہوتا ہے۔ دوسرے ادیان خصوصاً سامی ادیان میں بھی اِس کو خاص اہمیت حاصل رہی ہے۔ تورات وغیرہ میں اِس عدد سے ایک خاص برتری منسوب کی گئی ہے ۔ اکثر انبیاء علیہم السلام کو اِس عمر میں نبوت ملی۔ اشعار عرب سے بھی اِس عدد کی اہمیت معلوم ہوتی ہے۔ سحیم شاعر نے کہا: وماذا یدرک الشعراء منی وقد جاوزت حدالأربعین۔ چالیس دن میں تخلیق انسانی میں تبدیلی آتی ہے، خون سے لوتھڑا، پھر گوشت وغیرہ بنتا ہے۔ حضرت یونس علیہ السلام چالیس دن تک مچھلی کے پیٹ میں رہے حضرت موسی علیہ السلام تورات لینے کے لئے چالیس دن تک کوہِ طور پر معتکف رہے ۔ بنی اسرائیل اپنی غلطی کی سزا میں چالیس سال تک وادئ تیہ میں بھٹکتے رہے ۔حضرت اسماعیل علیہ السلام کی جگہ پر ذبح کیا جانے والا مینڈھا چالیس سال تک جنت میں چرتا رہا۔
کئی احادیث مبارکہ میں بھی چالیس کے عدد کی اہمیت وارد ہوئی ہے،جیسے : جو چالیس دن تک تکبیر اولیٰ کے ساتھ باجماعت نماز پڑھے گا ،اُسے دو پروانے عطا کئے جائیں گے: ایک ،آگ سے نجات،اور دوسرا، نفاق سے براء ت ۔دوسری حدیث میں ہے کہ فقراء مہاجرین، اغنیاء سے چالیس سال پہلے جنت میں جائیں گے۔ اگر نمازی کے آگے سے گزرنے کی سزا معلوم ہوجائے تو چالیس سال تک کھڑا رہنا زیادہ آسان ہوگا بہ نسبت اُس کے آگے سے گزرنے کے ۔ جس شخص نے حج کیا ہو، اُس کے لئے جہاد میں جانا چالیس حجوں سے افضل ہے ۔ اسی طرح فقہ اسلامی میں بھی اِس عدد کو اہمیت و مرکزیت حاصل ہے، مثلاً: زکوٰۃ میں مال کا چالیسواں حصہ ادا کیا جاتا ہے۔ بکریوں میں چالیس بکریوں پر ایک بکری لازم ہوتی ہے۔ گھوڑے کی زکوٰۃ قیمت کی صورت میں ادا کرتے وقت ہر دوسو درہم میں سے پانچ درہم صدقہ کرنا لازم ہے، جو چالیسواں حصہ ہے۔
غرض کہ چالیس کے عدد کو اسلام سے پہلے اوراسلام میں بھی ایک خاص اہمیت حاصل رہی ۔ لیکن احادیث مبارکہ کے لئے چہل احادیث کے مجموعے کا سبب پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانِ مبارک سے صادر شدہ وہ کلمات ہیں، جن کا ذکر پہلے گزر چکا۔ چونکہ چہل احادیث کے مجموعوں کا اصل محرک ''من حفظ علی أمتی أربعین حدیثا فی أمر دینہا'' والی روایت ہے اور اِس میں لفظ''فی أمر دینہا'' ہے اور بعض میں''فیما ینفعہم'' کے الفاظ ہیں، اِس لئے علماء کرام نے مختلف اوقات میں چہل حدیث کے مختلف مجموعے لکھے، یعنی جس نے جس چیز کی ضرورت محسوس کی، اُسی کے مطابق احادیث کو جمع کیا۔
بعض نے توحید وصفات کے اثبات تو بعض نے احکام کی احادیث ذکر کیں۔ بعض نے صرف عبادات سے متعلق حدیثیں جمع کیں تو بعض کی نظرِ انتخاب مواعظ ورقاق کی احادیث پر پڑی۔ بعض کے پیش نظر صحتِ سند کا مسئلہ تھا تو بعض نے علوِ اسناد کی رعایت کی۔ بعض نے طویل متن والی احادیث کو جمع کیا توبعض نے دیگر موضوعات کو اختیار کیا۔چنانچہ اربعینات کی تعداد کے بارے میں حتمی اور یقینی طور پر یہ کہنا مشکل ہے کہ دنیا میں اب تک کل کتنے مجموعے تیار ہوئے ہیں۔
امام نوویؒ فرماتے ہیں کہ بعض علماء نے اصولِ دین سے متعلق حدیثیں جمع کیں، بعض نے فروع، بعض نے جہاد، بعض نے زہد، بعض نے آداب، بعض نے خطب کے متعلق۔ ہرایک کا مقصد اچھا تھا، لیکن میں نے ایسی حدیثیں جمع کیں جو اِن سب کو شامل ہوں، اِن میں میں نے صحت کا بھی التزام کیا ہے اورمشکل الفاظ کا ضبط بھی کیا ہے۔ جس طرح ابواب کی احادیث کے مجموعے میں ’’ریاض الصالحین‘‘ کو قبولیت حاصل رہی، اُسی طرح اربعینات میں ’’الأربعین النوویۃ‘‘ کو بھی قبولیت حاصل ہوئی۔ اِسی وجہ سے علماء کی ایک کثیر جماعت نے اِس کتاب کی شرح لکھی۔اِن مجموعات کے علاوہ اور بھی اربعینات موجود ہیں، جنہیں اُمتِ مسلمہ نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے مندرجہ بالا قول مبارک پر عمل کرنے کے لئے جمع کیا ہے۔
محترم پروفیسر سید شبیرحسین شاہ زاہد صاحب بھی اُن خوش نصیب افراد میں شامل ہیں جنھوں نے پنجابی زبان میں ''چالی حدیثاں'' مع ترجمہ و تشریح مرتب کی ۔پروفیسر صاحب ننکانہ صاحب کے ایک عالم فاضل شخص ہیں۔آپ مصنف،محقق، شاعر،ادیب،خطیب اور معلم بھی ہیں۔اورعلمی و ادبی حلقوں میں محتاج تعارف نہیں۔آپ کئی کتابوں کے مصنف ہیں۔''عقیدہ ختم نبوت اور حضرت مجدد الف ثانی،تجلیات سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم (جلد اول و دوم)، مطالعہ تعلیمات اسلام،انسائیکلو پیڈیا تعلیمات اسلام،نماز مترجم (اردو /انگلش)تعارف و تبصرہ کارہائے قلم،اور رشحات معلم''وغیرہ آپ کی مشہور و معروف کتب ہیں۔آپ نے''نمرہ انگلش گرامر و کمپوزیشن،آئیڈیل انگلش گرامر و کمپوزیشن،مصباح اسلامی تہذیب و تمدن و تاریخ،مصباح القرآن والحدیژ،مصباح الاسلام ،القلم اسلامیات اختیاری و معروضی،کے نام سے طلباء کے لیے بھی کئی درسی کتب مرتب کی ہیں۔
چہل احادیث پر''چالی حدیثاں'' بھی پروفیسر سید شبیرحسین شاہ زاہد صاحب کے زور قلم کا خوبصورت اور دلآویز نتیجہ ہے۔انتخاب حدیث کا یہ مجموعہ'' نیت،ارکان اسلام،بدعت حسنہ و سیئہ،سلامتی کی دعا،حب اللہ و رسول اللہ،جھوٹ کے اثرات ،علم کا فرض ہونا،درود و سلام،ایصال ثواب،رحم علی الناس،دعا ونداوتضرع الی الرب،صلہ رحمی،ختم نبوت و رد مدعیین جدیدہ،جہاد فی سبیل اللہ،غصہ،جھوٹی حدیث گھڑنا،تقوی،عظمت قرآن، خوشامد رزق حلال،نکاح کی فرضیت،امربالمعروف و نہی عن المنکر،حق مسلم،صدقہ و خیرات،بے کار کی باتیں،مشتہبات،موت،سود،طہارت و نظافت، نرمی ،توبہ،اللہ سے شرم و حیا،احسان علی الخلق،حب دنیا،نیکی کا اجر،محبت،رضائے محمد صلی اللہ علیہ وسلم،اور آثار قیامت وغیرہ جیسے عنوانات پر شاندار ترجمہ وشرح کے ساتھ بے شمار قرآنی آیات کے حوالوں اور حاشیوں سے مزین ہے۔
اِس کتاب کی وجہ تالیف اور غرض وغایت بیان کرتے ہوئے شاہ صاحب کہتے ہیں کہ ''لکھنے کا مقصد نہ زبان و بیان کا اظہار ہے اور نہ علمیت کا دکھاوا ہے بلکہ سرکار مدینہ ،سرور قلب و سینہ، دنیا و آخرت میں نجات کا سفینہ، حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات نورانی کی تفسیر و تفہیم ہے۔'' مسلک اہلسنت (حنفی) کے مطابق اِس انتخاب حدیث کی تفسیر و تفہیم اور تعبیر و تاویل میں اُنہوں نے بہت محتاط رویہ اختیار کیا ہے اور خطا و نسیان سے بچنے کی اپنے تئیں پوری کوشش کی ہے۔
''چالی حدیثاں''دراصل اُن اہم معاشرتی اور عقیدہ سے منسلک تعلیمات سے متعلق ہے جو ہماری دنیاوی زندگی کو رنگارنگی اور خوش عقیدگی سے مزین کرکے ہمیں اُن برائیوں اور فتنہ و فساد سے روکتی ہیں جن سے نہ رکنا ہماری دنیا و آخرت دونوں کے لیے تباہی و بربادی کا باعث ہے۔کتاب کا اسلوب سادہ،آسان اور عام فہم ہے۔یقیناً پنجابی زبان میں یہ اپنی نوعیت کا یہ پہلامنفرد اور مفصل تحقیقی کام ہے۔جس میں شریعت کی باریکیاں اور احکام و مسائل کے فقہی نکات کو علم حدیث کے شائقین،طالبین اور ماہرین کے لیے نہایت سادہ و آسان قالب میں پیش کیا گیا ہے۔یہ وہ انداز تحریر ہے جو یقینا قابل دادو ستائش ہے اور جس کے لیے شاہ صاحب ہدیہ تبریک کے مستحق ہیں۔خوبصورت سرورق سے مزین 704 صفحات پر مشتمل یہ کتاب ''گوشہ محققین اکیڈمی ننکانہ صاحب '' زیر اہتمام شائع کی گئی ہے۔ہماری دعا ہے کہ رب کریم بحرمۃ سیدالمرسلیٰن صلی اللہ علیہ وسلم اُن کی اِس کتاب ِمستطاب کو اپنی بارگاہ میں قبول و منظور فرماکراُنہیں دنیا و آخرت میں اَجرعظیم کا حقدار و مستحق بنائے ۔آمین
محمداحمد ترازی
M.Ahmed Tarazi
About the Author: M.Ahmed Tarazi Read More Articles by M.Ahmed Tarazi: 319 Articles with 358256 views I m a artical Writer.its is my hoby.. View More