چاک فکشن فورم کے زیر اہتمافریئر ہال کے حسین سبزہ زار پر شام ِ افسانہ

چاک فکشن فورم کے زیر اہتمام فریئر ھال کے سبزازار پر شام افسانہ
چاک فکشن فورم کے زیر اہتمافریئر ہال کے حسین سبزہ زار پر شام ِ افسانہ
صدارتی کلماتی!
.............ڈاکٹر رئیس احمد صمدانی..........
چاک فکشن فورم کی چیرئ پرسن محترمہ صائمہ نفیس صاحبہ
آفتاب فاروقی صاحب، دیگر ذمہ داران چاک فکشن فورم
افسانہ نگاراور صداکار خواتین وحضرات، مہمان ِ گرامی!
السلام علیکم !
خوبصورت شامِ افسانہ کے انعقاد پر دل کی گہرایوں سے مبارک باد۔ حسین اور یادگار جگہ پر ادب کی اہم صنف افسانہ کے حوالے سے خوبصورت پروگرام میں شرکت میرے لیے اعزاز ہے۔ ممنون ہوں کہ چاک فکشن فورم کے ذمہ داران نے مجھے آج کی اس خوبصورت شام کی صدارت کے لیے مدعوکیا۔ آج کی تقریب کئی اعتبار سے منفرد اور مختلف ہے۔ ایک تو یہ کہ ادبی تقریبات میں شاعری کی محفلوں کے انعقاد کا رواج عام ہے۔ یہ بھی ایک قابل تعریف عمل ہے۔ ادب کی صنف افسانہ کے حوالے سے تقریبات کا اہتمام کم کم ہوتا ہے۔اس کی وجہ جو میری سمجھ میں آتی ہے وہ یہ کہ شاعری کی محفل میں شعراحضرات مختصر الفاظ اور جملوں میں کبھی ترنم سے کبھی خوش الحانی سے محفل کواپنے اشعار یا غزلوں یا نظموں سے مَحظُوط کرتے ہیں اور سامعین بھی ان سے بھر پور لطف اٹھاتے ہیں۔ نثر کی محفل یا افسانہ کی محفل سنجیدگی، توجہ، فہمیدگی، متانت اور مہذب ماحول کا تقاضہ کرتی ہے۔ مجھے آج اس محفل میں یہی کچھ دیکھ کر بے حد خوشی ہوئی۔
آج کی شام افسانہ منعقد کرنے کا سہر صائمہ نفیس صاحبہ کے سر جاتا ہے جو از خود دو افسانوں کے مجموعوں ’رودالی‘اور پچھلے پہر کی خاموشی“ کی خالق ہیں۔ ادارہ چاک کی روح رواں نہ صرف افسانہ نگار ہیں ساتھ ہی معروف اردو جریدے ”دنیا ئے ادب‘ کی معاون مدیرہ بھی ہیں۔ اس کے علاوہ ریڈیو پاکستان کے پروگرام ”ادب سرائے“ میں بھی اہم کردار ادا رہی ہیں۔
آج کی شامِ افسانہ میں شہر کراچی کے چار معروف افسانہ نگاروں کے منتخب افسانے چار معروف و معتبر صداکاروں نے عمدہ انداز سے پڑھے۔ شاعری میں کہا جاتا ہے کہ ’کلام ِ شاعر بہ زبان شاعر‘ یہاں ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ ’افسانہ بہ زبان صداکار‘ یہ بھی ایک خوبصورت ادبی انداز ہے۔ بہت خوبصورت طریقہ کار ہے۔ ہم نثر لکھنے والے بس لکھتے چلے جاتے ہیں، اس بات کا خیال کیے بغیر کہ جو لفظ ہم لکھ رہے ہیں ان پر زیر، زبر، پیش بھی لگانا چاہیے۔ ان الفاظ کا درست تلفظ ہم قاری پر چھوڑ دیتے ہیں کہ وہ خود ہی درست پڑھ لے گا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ہماری اردو بقول ضیاء محی الدین خراب سے خراب تر ہوگئی ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ ہمارے ٹی وی چینل پر موجود اینکر اور خبرنامہ پڑھنے والے اور پڑھنے والیاں اردو کے الفاظ کو جس طرح استعمال کرتے ہیں اس سے اردو زبان کو اور بھی نقصان پہنچ رہا ہے۔ ضیا ء محی الدین کا کہنا ہے کہ وہ ٹی وی دیکھتے ہی نہیں، بھونڈی زبان کی وجہ سے‘۔ ضیا ء محی الدین نے چند مثالیں پیش کیں ہیں۔ جیسے ایک لفظ’مسئلہ‘ہے اسے مسلہ کہا جاتا ہے۔ اوپر میں نے ایک لفظ مَحظُوظ استعمال کیا ہے اگر میں ’م‘ پر زبر اور ’ظ‘ پر پیس نہ لگاؤں تو پڑھنے والے اسے’محظوظ‘پڑھتے ہیں۔ خیر یہ ایک الگ اور اہم مسئلہ ہے۔
نغمانہ شیخ کا افسانہ (وندڈو شاپنگ)عارف با حلیم کی آواز میں
افسانہ نگار نغمانہ شیخ کا افسانہ ”ونڈو شاپنگ“ میرے دوست معروف صداکار عارف با حلیم نے خوبصورت لب و لہجے میں پڑھا۔ نغمانہ شیخ کافی عرصہ سے افسانے لکھ رہی ہیں جو اخبارات و رسائل کی ذ ینت بنتے رہے ہیں۔تا ہم ان کے افسانوں کا مجموعہ ”دھوپ میں جلتے خواب“ کے منصہ شہودپر آجانے کے بعد مہر ثبت ہوچکی کہ نغمانہ اردو ادب کی ایک معتبر افسان نگار ہیں۔ میں نے ان کے افسانے پڑھے اوریقین سے کہہ سکتا ہوں کہ نغمانہ کی سوچ و فکر میں حساسیت پائی جاتی ہے۔ وہ اپنے ارد گرد معاشرہ میں جس قسم کی واردادیں دیکھتی اور محسوس کرتی ہیں انہیں خوبصورت انداز سے قرطاس پر منتقل کرنے کا فن خوب جانتی ہیں۔ایک حساس دل رکھنے والا، حالات اور واقعات کو حساسیت کے ترازوں میں تولنے والا ایک اچھا کہانی کار، ناول نگار، افسانہ نگار، منظرنامہ نگار ہوتا ہے۔نغمانہ میں یہ انفرادیت بدرجہ اتم پائی جاتی ہے۔ نغمانہ کی کہانیاں جاندار ہوتی ہیں، وہ منظر نگاری کرتے ہوئے الفاظ کے تانے بانے حسین انداز سے بنتی ہیں۔ ان کی افسانہ نگاری اس بات کا پتہ دے رہی ہے کہ وہ مستقبل قریب میں متعدد اچھے افسانے اپنے پڑھنے والوں کو دے سکیں گی۔نغمانہ کا افسانہ جو ابھی یہاں پڑھا گیا ”ونڈو شاپنگ‘‘ میں افسانہ نگار نے ایک کردار رشید سے زندگی کے بارے میں خوبصورت بات کہلوائی۔ رشید کہتا ہے”زندگی کو ٹھرے ہوئے پانی کی طرح مت گزارو کہ ٹھرا ہوا پانی سڑ جاتا ہے جس کو نہ تو پیا جاسکتا ہے اور نہ ہی اس سے ہاتھ منہ دھویا جاسکتا ہے۔ زندگی ارتقاء کا نام ہے اپنی بقا کا نام ہے ہر بڑی مچھلی چھوٹی مچھلی کو کھا جاتی ہے“۔
عارف با حلیم (معروف صداکار)
صداکار عارف با حلیم کے بارے میں چند جملے نہ کہوں جب کہ وہ اس محفل کا اہم حصہ ہیں۔ آج کئی سال بعد سامنا ہوا ہے۔کچھ عرصہ قبل ریڈیو پر سریلی، مَدھُر مَدھُر،خوش گلو آواز والے عارف باحلیم ایک پروگرام ”بولتی کتابیں“شروع کیا تھا جو اب بھی جاری ہے۔ یعنی کسی بھی ایک کتاب کا تعارف، اس کے کچھ اقتباسات پڑھ کر سناتے ہیں۔ ان کے ایک دوست اور شریک کار فیصل جوش کے توسط سے ہم بھی سردیوں کی شام ان کے مہمان بنے اور انہوں نے میری کتاب سے کچھ اقتباسات پڑھے، کچھ گفتگو بھی کی، کہہ سکتے ہیں کہ انٹرویو بھی کیا۔ عارف با حلیم سے یہ ہمارا پہلا عشق تھا۔ مختصر سی ملاقات میں یہ ہمیں ایسے بھائے کہ کچھ عرصہ بعد ہم نے ان کا ایک خاکہ بھی لکھا۔ جو آج بھی اردو کی ایک ویب سائٹ ”ہماری ویب“ پر آن لائن پڑھا جاسکتا ہے۔ اس مضمون سے کچھ جملے یہاں آپ کی نظر کررہا ہوں۔عارف با حلیم کئی خصوصیات کے حامل ہیں، بنیادی طور پر وائس آرٹسٹ ہیں، قدرت نے نے ان کی آواز میں سِربَیانی،خوش گلوئی اور سُریلا پن عطا کیا ہے۔ شاعر بدر بشیر کے بقول۔
خدا کی ا س کے گلے میں عجیب قدرت ہے
وہ بولتا ہے تو اک روشنی سی ہوتی ہے
عارف با حلیم کی ایک خصوصیت مختلف شخصیات جیسے امیتابھ بچن، ضیاء محی الدین اور طلعت حسین جیسے اداکاروں کی آواز میں ان کے ڈائیلاگ سنانا۔ بارہویں اردو عالمی کانفرنس کے مزاح کے سیشن میں نصرت علی اور معروف شعراء جیسے دلاور فگار،سید ضمیر جعفری، حمایت علی شاعر اور دیگر شعراء کی آوا ز میں ان کا کلام پیش کر کے خوب داد وصول کی تھی۔عارف باحلیم اداکاربھی ہیں انہوں نے فلم ”ساون“ میں اپنی اداکاری کے جوہر دکھائے تھے اور داد پا چکے ہیں، انعام و اکرم سے بھی نوازے گئے۔ عارف باحلیم پس پردہ آواز کا جادو جگاتے ہیں۔کسی شاعر نے کیا خوب کہا۔
لہجہ کہ جیسے صبح کی خوشبو اذان دے
جی چاہتا ہے میں تری آواز چوم لوں
عارف باحلیم کا اہم ترین کارنامہ اردو زبان کے معروف مصنفین کی وہ کتابیں ہیں جو ڈیجیٹل اشاعتی ادارے ”ایمیزون“ Amazon نے آڈیوبکسAudio Booksکے طور پر تیار کیں اور وہ کتب ایمیزون کی ویب سائٹ پر موجود ہیں۔
کرن صدیقی اور منٹو کا افسانہ ’تعاون‘
بازگشت کے تحت ادب کی معروف شخصیت کرن صدیقی نے معروف افسانہ نگار منٹو کا افسانہ ”تعاون“پڑھا۔ منٹواردو کا بڑا اور معروف لکھاری ہے۔ وہ کم عمر لکھوا کر لایا تھا۔ اس میں اس نے جو کچھ لکھا وہ مقدار او ر پسندیدگی کے اعتبار سے کہی زیادہ ہے۔ منٹو ان افسانہ نگاروں میں سے ہے جس کی تحریریں قارئین شوق سے پڑھتے ہیں۔ وہ ایک صاحب اسلوب نثر نگار ہے۔ جس کے افسانے، مضامین اور خاکوں کی کوئی مثال نہیں ملتی۔ اس نے افسانہ کے حوالے سے بہت بڑی بات کہی اس کا کہنا تھا کہ ”افسانہ مجھے لکھتا ہے“۔ کرن صدیقی نے منٹو کے افسانے ”تعاون“ کو اپنا موضوع بنایا۔ منٹو کا یہ افسانہ ایک پتلے دبلے شخص کے گرد گھومتا ہے۔
کرن صدیقی کراچی کی ادبی فضا کی جانی پہنچانی شخصیت ہیں۔ ادبی پروگراموں کی تصویر کشی، ادیبوں و شاعروں کے انٹر ویوز، سفر نامے اور دیگر ادبی تحریریں ادب کی دنیا کا سرمایا ہیں۔ادب سے ان کی دلچسپی، قلم و قرطاس سے وابستی بتارہی ہے کہ ادب میں بلند مقام حاصل کرین گیں۔ یہ تیز تر لکھاریوں میں سے ہیں۔ سوشل میڈیا کے علاوہ مختلف اخبارات میں ان کی تحریریں شائع ہوتی ہیں۔ اللہ کرے زور قلم اور زیادہ۔
شاکر انورکا افسانہ ہدایت سائر کی آواز میں
افسانہ نگار شاکر انور کا ناول اور افسانوں کے مجموعے میرے مطالعہ میں رہے۔ ان میں ”ستمبر کا سمندر“ پر میں سیر حاصل اظہار خیال کرچکا ہوں۔ شاکر انور نے کہانی کو افسانہ نہیں بنایا بلکہ حقیقت میں انہوں نے افسانے لکھے اور بلا شرکت غیرے یہ کہا جاسکتا ہے کہ شاکر انور ایک پختہ کار افسانہ نگار ہیں۔شاکر انور کے افسانوں میں کسی قسم کا الجھاو، پیچیدگی، گھمبیر قسم کی باتیں نہیں، الفاظ عام بول چال والے جملے، کہانی میں تجسس پایا جاتا ہے، پلاٹ مضبوط، انداز بیان سلیس اور سادہ ہے۔شاکر انور کے افسانوں سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ افسانے کو اپنے ارد گرد کے ماحول، حالات، واقعات، معاشرہ میں جنم لینے والی اچھائی اور منفی رویوں، غمی اور خوشی کے واقعات کو اپنی کہانیوں اور افسانوں میں جگہ دیتے ہیں۔ ان کے کردار اس ہی کے آس پاس بکھرے ہوئے ہیں وہ انہیں میں سے کسی نہ کسی کو کہانی یا افسانے میں جگہ دے دیتے ہیں۔ مجموعی طور پر ان کے تمام افسانے معاشرہ میں ہونے والے حالات، واقعات، اچھائیوں اور خرابیوں کا احاطہ کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ شاکر انور کے افسانے ”عذاب کے ساحل پر“ حقیقت پر مبنی افسانہ ہے۔ صداکارنے بہترین انداز سے افسانہ سنا یا۔ افسانہ نگار عامر انور کا افسانہ ”جسم اور روح“ شبانہ سحر خان نے سامعین تک اچھے انداز سے پہنچایا۔ لبنیٰ طاہر کا افسانہ ”دتو“ بھی سامعین نے پسند کیا۔
چارافسونوں کے علاوہ جناب رحمان نشاط صاحب نے افسانے کے اسرار و رموز اور ارتقائی جائزہ پیش کیا۔ آپ کے اس مقالہ میں افسانہ کی ابتدئی تاریخ سے دور حاضر میں افسانے کے اسرار و رموز اور ارتقا کا بھر پور جائزہ پیش کیا گیا ہے۔ جناب رحمان نشاط صاحب کے اس تحقیقی مقالہ کے بعد کنجائش نہیں رہتی کہ افسانہ کی اہمیت، تاریخ اور دور حاضر میں اس کے ارتقاء پر گفتگو کی جائے۔ تاہم اختصار کے ساتھ افسانہ کے بارے میں اظہار خیال کروں گا۔لمحہ موجود میں افسانہ ادب کی دیگر اصناف میں زیادہ پسند کی جانے والی صنف شمارہوتا ہے۔ وقت کے ساتھ ساتھ ادب کی بعض اصناف میں تغیر وتبدیلی آئی لیکن مختصر کہانی اور مختصر افسانے سے قاری کی دلچسپی برقرار رہی بلکہ اس نے زیادہ مقبولیت حاصل کی۔ادب دوامی ہے، اسے زندگی کے کسی موڑ پر زوال ہوا، نہ اِس وقت ہے اور نہ ہی کبھی روبہ زوال ہوگا۔وقت اور حالات نے افسانہ نگار کو مختصر کہانی اور افسانہ لکھنے اور قاری کو اختصار سے مطالعہ کی لذت سیمٹنے کا عادی بنا دیا ہے۔ ادب وہی ہے جو زمانے کی دکھتی رگ پر ہاتھ رکھے، قاری کی سوچ اور خواہش کی تکمیل کرے اور ایسا ہی ہوا افسانہ نگاروں نے معاشرہ میں بدلتی صورت حال کو محسوس اور قاری کی خواہش کا احترام کرتے ہوئے مختصر افسانہ نگاری پر توجہ دی اور وہ ایسے افسانوں میں روزمرہ کے مسائل، خوشی و غمی کاا ظہار طویل تحریر کے بجائے مختصر افسانے کے ذریعہ کرنے لگے اور وہ مقبول بھی ہوئے۔ اس عمل سے لمحہ موجود کے افسانہ نگاروں نے اپنے قاری کا دل جیت لیا۔ ادب تو ہمیشہ رہنے والی شہ ہے۔ گزشتہ 74 سالوں میں کبھی بھی زوال پزیر نہیں رہا۔ البتہ حالات اور واقعات اس پر اثر انداز ہوتے رہے اسی مناسبت سے اس کی رفتار بھی کبھی سست اور کبھی تیز رہی۔
افسانہ نگاری کے موجد منشی پریم چند کہے جاتے ہیں بعض نے یہ بھی لکھا ہے کہ پریم چند سے قبل اردو افسانہ لکھا اور شائع ہوچکا تھا، پھر ایک لمبی بارات ہے افسانہ نگاروں کی جنہوں نے اردو ادب کی اس صنف میں اپنا اپنا حصہ خوبصورتی سے ڈالا۔ کہانی، افسانہ، ناول، رپوتاژ اور شاعری وہی کرسکتا ہے کہ جوعلم و ادب سے دلچسپی رکھتا ہو، اپنے اندر حساسیت لیے ہوئے ہو، کسی کے دکھ اور درد میں اپنے اندر کسک محسوس کرتا ہو، سچائی کوبیان کرنے کا حوصلہ رکھتا ہو، اس کی آنکھیں جو دیکھیں اسے اپنی سوچ کے کینوس میں محفوظ کر لے، الفاظ کا ذخیرہ، جملوں کی ترتیبی کا ھنر جانتا ہو۔آج کی محفل افسانہ میں جو افسانے پڑھے گئے ان سے اندازہ ہوتا ہے کہ افسانہ نگاران تمام ترخوبیوں اور معاشرے کے اتار چڑھاؤ سے بخوبی آگاہ ہیں۔ان افسانہ نگاروں کی منفرد خصوصیت اختصار، سادہ اور عام فہم الفاظ، نیز ادبی چاشنی لیے ہوئے جملے ہیں۔ افسانہ نگاروں کی زبان آسان اور سادہ، لہجے میں پختگی، الفاظ کا چناؤ اور استعمال عمدہ اور بر وقت، اس کی نشست و برخاست دل میں اتر جانے والی ہے، ان کے افسانوں کا پلاٹ دیو مالائی اور کردار مصنوعی نہیں بلکہ ان کی کہانیاں زندگی کے ارد گرد ہونے والے واقعات، حادثات، رسم و رواج کے گرد گھومتی ہیں جب کہ ان کے کردار معاشرہ میں موجود عام کردار ہیں جو ہمیں اپنے ارد گرد دکھائی دیتے ہیں۔
11
Prof. Dr Rais Ahmed Samdani
About the Author: Prof. Dr Rais Ahmed Samdani Read More Articles by Prof. Dr Rais Ahmed Samdani: 852 Articles with 1278166 views Ph D from Hamdard University on Hakim Muhammad Said . First PhD on Hakim Muhammad Said. topic of thesis was “Role of Hakim Mohammad Said Shaheed in t.. View More