تو راز کن فکاں ہے,اپنی آنکھوں پر عیاں ہو جا
خودی کا راز داں ہو جا خدا کا ترجماں ہو جا
فکر اقبال کا جب عمیق مطالعہ کرتے ہیں تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اقبال نے
تو اپنے ہر شعر میں ہی عصری معنویت کو اجاگر کیا ہے .عصر کیا ہے .زمانہ ہے
اب یہاں یہ واضح کرنا ضروری ہوگا کہ زمانہ جو گزر چکا یا جو گزر رہا ہے یا
جو آنے والا ہے......تو فکر اقبال یہ ہے کہ انہوں نے ہر دور کی بات کی ہے
.ان کا کلام ہر دور کی عکاسی کرتا ہے .جتناماضی کے نوجوانوں نے اقبال کے
اشعار سے زندگی میں جوش ولولہ پیدا کیا اتنا آج کے نوجوان طبقے کے لئے بھی
اہم ہے اور ہر دور میں آنے والی نئی نسل میں تعمیر نو کا جذبہ اقبال کے
کلام سے پیدا ہوتا رہے گا.
اقبال نے تو زندگی کا قرینہ سکھایا ہے .ظاہر ہے جو انسان جینا نہیں سیکھتا
وہ تو مرودں میں شمار ہو گا.اقبال کے فکر کا حصہ ہے رزندگی میں تحرک کا عمل
دخل ہی زندگی کی علامت ہے .جامد اور ٹھوس چیزیں تو رکی رہتی ہیں موت کی
علامت ہیں .اب اقبال نے زندگی کی عکاسی کے لئے جو علامتیں استعمال کی ہیں
ان میں بھی حرکت کا عمل پایا جاتا ہے .جیسے کہ شاہین
.,اونٹ,جگنو,مکڑا,مکھی,چاند,تارے ,آسمان,زمین وغیرہ یہ سب اقبال کے ہاں
کہیں استعارے,کہیں تشبہہ اور کہیں علامت کے طورپر ہمیں نظرآتے ہیں ان سب کو
اگر ہم مدنظر رکھتے ہوئے ان کی گہرائی اور معنویت میں جائیں تو ہیمں فکر
اقبال مہں صرف عصری معنویت ہی نظر آئے گی .گردش زمانہ ہی زندگی کی علامت ہے
.ٹھہراو کہیں نہں آنا چاہیئے سستی اورکاہلی انسان کو حرکت ست عاری کردیتی
ہے .متحرک رہنا ہی جینا ہے.جیسے غالب نے کیا جوب کہا کہ
زندگی ہے یا کوئی طوفان ہے
ہم تو اس جینے کے ہاتھوں مر چلے
اقبال بھی اسی خیال کی ہی تائید کرتے کرتے نظر آتے ہیں .اقبال کسی مذہب یا
فرقے کا پیروکار نہیں ہے وہ اپنے کلام میں انسانیت کا پرچارکرتے ہیں .انہوں
نے اللہ کی بندے کی عزت اور عظمت کو اجاگر کیا ہے.
اللہ کے بندے تو ہیں ہزاروں بنوں میں پھرتے ہیں مارے مارے
میں اس کا بندہ بنوں گا جسے اللہ کے بندوں سے پیار ہو گا
اقبال پہ اکثر نقادوں نے یہ الزام لگایا کہ وہ تو مغرب کا دل دادہ ہے
.مغربی تہزیب کو پسند کرتا ہے اور اسی کا ہی پرچار کرتا ہے .لیکن اقبال تو
مغربی تہزیب کی اس روح کو پسند کرتے ھتے جو ان کو مسلمان نظر آرہی تھی .ایک
مرد مومن میں جو انسانیت کا درد اور اخلاقیات کا ہونا ضروی ہے وہ اقبال کو
مغربی تہزیب میں نظرآیاتو اسی لئے اقبال کا جھکاو اس طرف ہوا .اس دور کا
مسلہ یہی تھا کہ جو بھی مغرب کی یا انگریزوں کی بات کرتا تھا لوگ اس کے
مخالف ہو جاتے تھے .اقبال کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا .اقبال مے اپنی شاعری کے
ذریعے نہ صرف مسلمانوں کو ان کا کھایا ہوا وقار یاد دلایا بیلک ان کو یہ
بھی اجاگر کروایا کہ کیسے انگریزوں نے مسلمانوں کو تباہ کیا ہے .
اقبال کے اشعار کے حوالے سے عصری معنویت کو تلاش کریں تو ان کے چنداشعار
پیڈ کروں تاکہ موضوع کو مزید تقویت دی جاسکے.
زندگی کے خم و پیچ میں الجھا ایسا
آج تک فیصلہ نفع و ضرر کر نہ سکا
اس شعر میں بھی عالمگیر طاقت پائی جاتی ہے .یہاں ہم اس کے مفہوم کو کسی ایک
دور یا کسی ایک وقت کے لئے بیان نہیں کر سکتے .یہ شعر اپنے اندر معنی کی
اور زمانے کی وسعت رکھتا ہے.
ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا
اس شعر میں بھی اقبال نے عصریت کی بات واضح کی ہے.اقبال بلاشبہ ایک بڑا
شاعر ہے اور زمانے کا عکاس ہے.جیسے کہا جاتا ہے کہ ایک مصنف,ادیب شاعرزمانے
کی نبض شناس ہوتا ہے.وہ اپنے دور کی ہر اچھی بری بات کو اپنے قلم کی نوک سے
پرکھتا ہے .اقبال مے بھی زمانے کی نبض کا معائنہ کرتے ہوئے اس وقت کے
تقاضوں کو پورا کرنے کی طرف توجہ دلائی بلکہ ان کا پیغام تعہر زمانے میں
اہم رہا ہے.
دنیا کی محفلوں سے اکتا گی ہوں یارب
کیا لطف انجمن کا جب دل ہی بجھ گیا ہو
یی شعر بھی بہت عمدہ انداز میں زمانے پہ ضرب لگاتا نظر آتا ہے.اس شعر میں
بھی اقبال انسان کی بات کرتے ہیں انسانیت کی بات ہیں.ان کے اشعار ہر دور
میں دل میں اترتے ہیں .روح کو سکون دیتے ہیں اور اس کت ساتھ سارھ دامغ کو
بھی روشن کرتے ہیں .یہ سب ایک انسان کی کامیاب زندگی کی رلامت ہے .اقبال کو
سمجنھے عوالے زندگی کی حقیقت کو پالیتے ہیں.
علم میں بھی سرور ہے لیکن
یہ وہ جنت ہے جس میں حور نہیں
یہاں بھی اقبال زمانے کی بات کرتے ہیں .ان کا کہنا ہے کہ خالی کتابوں کو
یاد کرکے اور بڑی بڑی ڈگریاں حاصل کر کے انسان مادی زندگی میں تو کامیاب ہو
جاتا ہے مگر یہ علم اسے اللہ تک نہیں لے جا سکتا .اللہ کی پہچان ہی اصل
مقصد حیات ہے.
حرم پاک بھی اللہ بھی قرآن بھی ایک
کچھ بڑی بات تھی جو ہوتے مسلماں بھی ایک
یہاں بھی اقبال یہی واضح کرتے ہیں کہ یہ آج کا مسلمان جو مختلف فر قوں میں
بٹ چکاہے.اسے بھی قرآن اور اللہ کی طرح ایک ہہ رہنا چاہیے.اللہ کے بندے کی
ایک ہی پہچان ہو اور وہ ہے مسلمان ہونا مطلب فرقہ واریت سے اجتناب کریں
.اپنی پہچان صرف صرف مسلمان کے نام سے کروائیں .انہوں نے فرقہ واریت کے اس
جزبے کو مسمار کرنے کی تگ و دو کی ہے.
نہ سمجھوگے جاو مٹ جائو گے اے ہندوستان والو
تمہاری داستاں تک نہ ہوگی داستانوں میں
اس شعر مہں بھی اقبال نے ہندوستاں کے مسلمانوں کومخطاب کیا ہے لیکن یہ آواز
ہر دور کے مسلمان کو سنائی دے گی .ہر آنے والا زمسنہ جب جب مسلمان کہیں پہ
غلطی کرے گا کوئی غلط قدم اٹھائے گا جس سی مذہب ,دین اسلام کو ٹھیس پہنچے
گی اقبال کے ایسے اشعار ہر دور کے مسلمان کو جھنجھوڑیں گی .مسلمانوان کو
سیدھی راہ پہ لے کے آئیں گی .اقبال کر اشعار مسلم قوم کے لئے اندھیرے میں
اجالے کا کام دیں گے.
سودا گری نہیں یہ عبادت خداکی
اے بے خبرجزاکی تمنا بھی چھوڑ دے
اقبال نے جو تصور خدا انسان کے سامنے پیش کیا ہے اگر انسان اسے سمجھ جائے
تو اس کی زندگی سنور جائے گی.اقبال نے ہر زمانے کے مسلمان کے کئے یہ خدا کا
تصور پیش کیاہے.اقبال کے نزدیک زیادہ اہم عبادت ہے پھر وہ اللہ کے بندوں کے
کام آکے کریں یا سجدہ زیر ہو جائیں.لیکن رب کو پیچان کر ہی انسان انسانیت
کے اونچے درجے کو پا سکتا ہے.اقبال کے کلام میں اس کے دئے گئے تصورات کو
سامنے رکھیں تو ان میں بھی ہمیں عصری معنویت کا ہی پرتو ملے گا.
تصور عقل ودل ,تصور عشق,تصورخدا,تصورخودی و بے خودی,تصور زندگی,تصور
بندگی,تصور حضرت انسان,تصور شاہین,تصور ابلیس,الغرض جتنے بھی اقبال کے کلام
تصورات پائے جاتے ہیں ان میں عصری ہم آہنگی کا پہلو نمایاں ہے.اقبال نے
ماولانا روم سےسے متاثر ہو کہ جو کلام فارسی میں لکھا اس میں تو اردو کلام
سے زیادہ عصریت کا عنصر پایا جاتا ہے.
ہم اقبال کی اردو نظموں میں عصری معنویت کی پہچاننے کی کوشس کرتے ہیں.اقبال
کی نظم "ساقی نامہ " کی مثال دیکھتے ہیں.یہ ایک طویل نظم ہے جوننانوےاشعار
پر مبنی ہے.اس نظم میں اقبال مسلمانوں کو اس دور کے تقاضے کے مطابق آگاہ
کرتے ہیں کہ
حقیقت خرافات میں کھو گئی
یہ امت روایات میں کھو گئ
لبھاتا ہے دل کو کلام خطیب
مگر لذت شوق سے بے نصیب
بیان اس کا منطق میں سلجھا ہوا
لغت کے بکھیڑوں میں الجھا ہوا
اس نظم میں متعدد اشعار اسی طرح کے ہیں .جس میں اقبال نے مسلمان کو گمراہ
ہونے سے آگاہ کیا ہے .یہ اس دورکا تقاضا تھا کی مسلمانوں کے درمیاں کوئی
ایسا انسان ہو جو ان کو اچھے اور برے کا فرق اور تمیز سکھائے .یہ سب کام
اقبال نے بخوبی نبھایا.اقبال کی یہ نظم آج کے مسلمانوں کو بھی ایسے ہی
جھنجھوڑکے رکھ دیتی ہے جیسا کے گزرے ادوار میں ہوا.
اقبال کی نظم "خضر راہ" میں ہم اس موضوع کو تلاش کرتے ہیں .
جاوداں,پیہم داں,ہر دم جواں ہے زندگی
اپنی دنیا آپ پیدا کر اگر زندوں میں ہے
اقبال نے اس شعر میں بھی عصری آگہی کو اجاگر کیا ہے.انسان کے اندر کوشش
محنت کا جزبہ موجود ہے تو وہ زندوں میں شمار ہوتا ہے.ہر دور کے مسلمان کو
بلکہ ہر انسان کو ہی اپنی زندگی خود بنانا ہوگی .اپنی محنت کے بل بوتے پہ
ہی اسے اپنی زندگی گزارنا ہوگی.اقبال کا کہنا ہے کہ دور کوئی بھی ہو لوگ
کیسے ہی کیوں نہ حالات جو بھی ہوں انسان کو ہر وقت اپنا محاصرہ کرتے رہنا
چاہیئے .خو انسان خودی کو سمجھ جاتا ہے وہ زندگی کے ایک بڑے راز کو پا لیتا
ہے.
اقبال کی نظم"طلوع اسلام" میں دیکھیں تو اس میں بھی اقبال نے وقت اور حالات
کو مدنظر رکھتے ہوئے مسلمانوں کو ان کے مقصد حیات کو پہچاننے کی طرف راغب
کرنے کی لوسس کی ہے .میرے خیال میں یہ نہ صرف اس دور کی ضرورت تھی بلکہ آج
کے اس نفسا نفسی کے دور میں بھی اقبال کے ان خیالات کی اہمیت مسلمہ ہے
تورازکن فکاں ہے اپنی آنکھوں پر عیاں ہو جا
خودی کا رازداں ہو جا خداکاترجماں ہوجا
ہوس نے کردیا ہے ٹکڑے ٹکڑے انساں کو
اخوت کا بیاں ہوجامحبت کی زبان ہوجا
یہ نظم بھی اقبال کی بلند فکری کی مظہر ہے.اقبال نے اپنے دور کے اس وقت کو
مدنظر رکھتے ہوئے یہ نظم کہی اور یہ نظم آج بھی اسی قدر اہم اور مسلمہ
حقیقت کی حامل ہے .مسلمان کسی بھی دور کا ہواسے اس راز کو جاننا ہوگا کہ اس
کی تخلیق کا راز کیوں ہے .اسے خدا نے زمین پر اپنا نائب بنا کر بھیجا ہے
اور انسان کا جو فرض ہے اسے اس سے غافل نہیں ہونا ہے.اقبال کی نظم"ذوق شوق"
کو سامنے رکھیں تو اس میں بھی ہمیں تقریبا ہر مصرع ہی عصری معنویت سے
بھرپور نظر آتا ہے .
لوح بھی تو قلم بھی توتیرا وجود الکتاب
گبند آبگینہ رنگ تیرے محیط میں حباب
عالم آب وخاک میں تیرے ظہور سے فروغ
ذرہ ریگ کو دیا تو نے طلوع آفتاب
تیرہ و تار ہے جہاں گردش آفتاب سے
طبع زمانہ تازہ کرگردش آفتاب سے
اقبال نے طویل نظموں میں اور مختصر نظموں میں بھی اس خیال کو پیش کیا ہے
.ان کے ہاں زمانے کی گردش کے ساتھ ساتھ ہی انسان کو چلنے کی ترغیب دی گئی
ہے .جس طرح وقت کسی کے لئے نہیں رکتا اسی طرح جو بھی دور ہے زمانے کی گردش
ہے اس نے بھی نہیں رکنا اس کے ساتھ جڑے رہنے کے لئے انسان کو خود کو تیار
کرنا ہوگا .اسے محنت کرنا ہوگی کہیں وقت کی دھول میں انسان اپنی ذات کوگم
نہ کر بیٹھے .اسی لئے اقبال نے مسلمانوں کو ہیمشہ وقت کی رفتار کے ساتھ
دوڑنے کا فن سکھانا چاہا ہے .اقبال کے یہ افکاربھی زمانے کی اہمیت کو اجاگر
کرتے ہیں .
اقبال کی فطرت پہ مبنی اشعار بھی عصر ہی کی عکاسی کرتے ہیں.
پہاڑ,گلہری,مکڑامکھی,ہمالہ ,قرطبہ,یہ سب ایسے موضوع ہیں جو ہر دور کے عکاس
ہیں اور ہمیشہ ایسے ہی زندہ رہیں گے.ان موضوعات میں اقبال نے وقت کو قید کر
دیا ہو جیسے کیوں کہ یہ نظمیں جب بھی جس بھی زمانے میں پڑھی جائیں اسی ہی
کی لگتی ہیں .
حمید شاہد نے اقبال کے افکار میں عصری معنویت کی پہلو کو پانچ حصوں میں
تقسیم کیا ہے .وہ کچھ اس طرح سے افبال کے فکر کی تقسیم کرتے ہیں کہ پہلے
نمبر پہ وہ اقبال کی اپنی جو فکری اور تخلیقی صلاحیت ان کی شخصیت کاخاصہ ہے
اس کی بات کرتے ہیں اس کے بعد دوسرے نمبر پہ وہ لکھتے ہیں کہ فکر اقبال میں
ایک جو بڑا حوالہ ہے وہ مزہب کا ہے.تیسرے نمبر پہ ان کا یہ کہنا ہے کہ فکر
اقبال اور دو قومی نظریہ بھی عصری معنویت کی بدولت وجود میں آیا ہے.چوتھے
نمبر پہ وہ اقبال کی عصری معنویت کو ربط وضبط ملت کے ساتھ جوڑتے ہیں اور
پانچویں نمبر پہ وہ اقبال کے کلام میں اس پہلو کومعاصر عالمی منظر نامے کے
ساتھ ملاتے ہوئے نظر آتے ہیں.
اقبال کے اس پہلو پہ میں نے بھی اپنی سوچ اور سمجھ کے مطابق یہ چند سطریں
لکھنے کی جسارت کی ہے .اب میں کس حد تک موضوع کو اپنی گرفت میں لے سکی یہ
آپ جیسے ذہین فطین عقل و دانش کے مالک ہی بتا سکیں گے .آخر میں اقبال کے اس
شعرکے ساتھ اجازت چاہوں گی کہ
موتی سمجھ کے شان کریمی نے چن لئے
قطرے جو تھے میرے عرق انفعال کے
عاصمہ اسلم
ایم ایس اردو بین الااقوامی اسلامک یونی ورسٹی اسلام آباد
بشیر مارٹ نزد نئی عید گاہ روڑ جھنگ صدر
|