چینی و امریکی صدور کے درمیان بات چیت، ایک جائزہ
(Shahid Afraz Khan, Beijing)
|
اس میں کوئی شک نہیں کہ دنیا اس وقت ایسی بڑی تبدیلیوں
سے گزر رہی ہے جن کا گزشتہ ایک صدی میں مشاہدہ نہیں کیا گیا ہے۔ عالمی سطح
پر کووڈ۔19 کی وبا کے ساتھ ساتھ روس یوکرین تنازع ،موسمیاتی تبدیلی،تخفیف
غربت ، تحفظ خوراک ، علاقائی تنازعات اور معاشی گراوٹ سمیت بے شمار اقتصادی
و سماجی چیلنجز درپیش ہیں۔ان تمام مسائل کے تناظر میں بڑے اور ذمہ دار
ممالک کا کردار انتہائی اہمیت اختیار کر چکا ہے جو آپسی مشاورت اور اتفاق
رائے سے دنیا کو درپیش مشکلات سے نکلنے میں انتہائی معاون کردار ادا کر
سکتے ہیں۔ان بڑی طاقتوں میں نمایاں ترین اہمیت اور اثر ورسوخ کے حامل چین
اور امریکہ بھی شامل ہیں جو دنیا کی ٹاپ "دو" معیشتیں ہیں ، دونوں ممالک
اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے بھی مستقل ارکان ہیں اور اہم عالمی و
علاقائی پلیٹ فارمز پر بھی فعال ہیں۔
تاہم ،حالیہ برسوں میں دونوں بڑے ممالک کے درمیان تعلقات میں اتار چڑھاؤ
دیکھا گیا ہے جو عالمی برادری کے نزدیک کسی بھی طرح سودمند نہیں ہے۔ دنیا
یہ چاہتی ہے کہ چین اور امریکہ آپسی اختلافات کے موثر حل اور اتفاق رائے سے
عالمی مسائل سے نمٹنے میں اپنی مثبت توانائیاں صرف کریں ، یہ رویہ نہ صرف
دونوں ممالک اور اُن کے عوام کے لیے فائدہ مند ہے بلکہ دنیا کے بھی بہترین
مفاد میں ہے۔اس ضمن میں دونوں ممالک کی اعلیٰ قیادت کے درمیان تسلسل سے
رابطہ لازم ہے جس میں باہمی دلچسپی اور تشویش کے امور پر کھل کر اظہار خیال
کیا جا سکتا ہے اور آگے بڑھنے کی مشترکہ راہ کا انتخاب ممکن ہے۔اسی حوالے
سے ابھی حال ہی میں چینی صدر شی جن پھنگ نے دعوت پر امریکی صدر جو بائیڈن
کے ساتھ ٹیلی فون پر بات چیت کی ہے۔ دونوں سربراہان مملکت نے چین۔امریکہ
تعلقات اور باہمی دلچسپی کے امور پر تفصیلی تبادلہ خیال کیا۔
چینی صدر نے اس جانب اشارہ کیا کہ اس وقت عالمی انتشار اور تبدیلی کے دو
رجحانات بدستور جاری ہیں اور ترقی اور سلامتی کے دو بڑے خسارے مسلسل نمایاں
ہو رہے ہیں۔ ہنگامہ خیز دنیا کے تناظر میں، عالمی برادری اور تمام ممالک کے
عوام چین اور امریکہ سے توقع کرتے ہیں کہ وہ عالمی امن و سلامتی کو برقرار
رکھنے اور عالمی ترقی اور خوشحالی کو فروغ دینے میں اپنا قائدانہ کردار ادا
کریں۔ یہ دونوں بڑی طاقتوں چین اور امریکہ کی ذمہ داری بھی ہے۔شی جن پھنگ
نے اس بات پر زور دیا کہ چین امریکہ تعلقات کو اسٹرٹیجک مسابقت کے زاویے پر
پرکھنا اور چین کو اہم ترین حریف اور طویل مدتی چیلنج سمجھنا چین امریکہ
تعلقات اور چین کی ترقی کے بارے میں غلط فہمی اور چین کی غلط تشریح ہے،جس
سے دونوں ملکوں کے عوام اور عالمی برادری کو گمراہ کیا جا رہا ہے۔ دونوں
فریقوں کو ہر سطح پر رابطے کو برقرار رکھنا چاہیے، موجودہ مواصلاتی ذرائع
کا اچھا استعمال کرنا چاہیے اور دو طرفہ تعاون کو فروغ دینا چاہیے۔ موجودہ
عالمی معاشی صورتحال چیلنجز سے بھری پڑی ہے۔ چین اور امریکہ کو میکرو
اکنامک پالیسی کوآرڈینیشن سمیت عالمی صنعتی اور سپلائی چین کے استحکام کو
برقرار رکھنے اور عالمی توانائی اور غذائی تحفظ کی ضمانت جیسے اہم مسائل پر
رابطہ برقرار رکھنا چاہیے۔دنیا میں مروجہ اصولوں کے برعکس روابط کو توڑنا
امریکی معیشت کو فروغ دینے میں ہر گز مددگار نہیں ہے بلکہ عالمی معیشت کو
مزید کمزور کرے گا۔ دونوں فریقوں کو علاقائی ہاٹ اسپاٹ ایشوز کے حل کی پوری
کوشش کرنی چاہیے، دنیا کو جلد از جلد وبا سے نجات دلانے میں مدد کرنی
چاہیے، معاشی جمود اور کساد بازاری کے خطرات پر قابو پانا چاہیے، اور اقوام
متحدہ پر مرکوز بین الاقوامی آرڈر اور بین الاقوامی قانون کے تحت بین
الاقوامی نظام کو برقرار رکھنا چاہیے۔
شی جن پھنگ نے تائیوان کے معاملے پر چین کے اصولی موقف پر زور دیا کہ
تائیوان کے مسئلے کی تاریخ بالکل واضح ہے اور یہ حقیقت بھی واضح ہے کہ
آبنائے تائیوان کے دونوں کنارے ایک چین ہیں۔ چین امریکہ تین مشترکہ اعلامیے
دونوں فریقوں کی جانب سے کیے گئے سیاسی وعدے ہیں اور ایک چین کا اصول چین
امریکہ تعلقات کی سیاسی بنیاد ہے۔ شی جن پھنگ نے واضح کیا کہ چین "تائیوان
کی علیحدگی پسندی " اور بیرونی طاقتوں کی مداخلت کی سختی سے مخالفت کرتا
ہے، اور تائیوان کی علیحدگی پسند قوتوں کے لیے کسی بھی صوررت میں کوئی
گنجائش نہیں ہے۔ تائیوان کے معاملے پر چینی حکومت اور چینی عوام کا مؤقف
مستقل ہے اور یہ 1.4 بلین سے زیادہ چینی عوام کا عزم ہے کہ وہ چین کے
اقتدار اعلیٰ اور علاقائی سالمیت کا مضبوطی سے تحفظ کریں گے۔ چینی صدر نے
یہ امید بھی ظاہر کی کہ امریکہ صورتحال کا ادراک کرے گا ۔ انہوں نے ایک
مرتبہ پھر واضح کیا کہ امریکہ کو ایک چین کے اصول کی پاسداری کرنی چاہیے
اور چین۔امریکہ تین مشترکہ اعلامیوں پر عمل درآمد کرنا چاہیے۔
امریکی صدر جوبائیڈن نے کہا کہ آج دنیا ایک نازک دور سے گزر رہی ہے۔ امریکہ
اور چین کا تعاون نہ صرف دونوں ممالک کے عوام بلکہ دوسرے ممالک کے عوام کے
لیے بھی فائدہ مند ہے۔ امریکہ چین کے ساتھ ہموار بات چیت کو برقرار رکھنے،
باہمی افہام و تفہیم کو بڑھانے، غلط فہمیوں سے بچنے، مشترکہ مفاد کے شعبوں
میں تعاون بڑھانے، اور اختلافات کو درست طریقے سے حل کرنے کی امید رکھتا
ہے۔ جوبائیڈن نے یہ اعادہ کیا کہ امریکہ کی "ایک چین کی پالیسی" میں نہ تو
کوئی تبدیلی آئی ہے اور نہ ہی آئے گی اور امریکہ تائیوان کی "علیحدگی " کی
حمایت نہیں کرتا ہے۔
اس موقع پر دونوں سربراہان مملکت نے یوکرین بحران پر بھی تبادلہ خیال کیا
اور شی جن پھنگ نے چین کے اصولی مؤ قف کا اعادہ کیا۔دونوں صدور نے ایک
دوسرے سے رابطے میں رہنے پر اتفاق کیا، اور دونوں اطراف کی ورکنگ ٹیموں کو
اس مقصد کے لیے مشاورت اور تعاون جاری رکھنے کی ہدایت کی۔مجموعی طور پر
دیکھا جائے تو دونوں قائدین کے درمیان بات چیت سے جہاں چین امریکہ تعلقات
کو آگے بڑھانے میں مدد ملے گی وہاں عالمی مسائل سے نمٹنے کی جاری کوششوں کو
بھی تقویت ملے گی۔
|
|