2کروڑ 13لاکھ کی آبادی والے چھوٹے سے جنوبی ایشیا کے
سیاحتی ملک سری لنکا میں عوامی بغاوت کی تصویریں میڈیا میں گردش کررہی ہیں
کہ کس طرح مہنگائی سے پریشان، اذیت سے دو چار عوام نے صدارتی محل پر قبضہ
کرلیا۔ آج جو وہاں کے حالات ہیں، اس کا آغاز اکتوبر 2021 ء میں ہوگیا تھا
اور ابتدا میں خوراک کی قلت کا سبب اس ملک میں پوری طرح آرگینک کھیتی کو
نافذ کرنا تھا، ظاہر ہے کہ کیمیائی کھاد اور جراثیم کش ادویات کی لابی کو
یہ فیصلہ پسند نہیں آنا تھا لیکن یہ بھی سچ ہے کہ حکمراں کی نیت اس فیصلے
کے پیچھے کچھ فرقہ وارانہ اور دور رس نتائج کی سوچ کے بغیر اسے جبراً نافذ
کروانے کی تھی۔ الگ الگ اسباب سے سماج کے مختلف طبقات ناراض تھے اور پھر جب
ایک وقت کھانے کی نوبت آگئی تو پیٹ کی آگ نے انقلاب بن کر محلوں کو گرادیا
۔ ملک سری لنکا میں اشیائے خورد ونوش کا بحران کوئی ڈیڑھ سال قبل کھڑا
ہوگیا تھا۔ وہاں حالات اتنے خراب تھے کہ خوردنی ایمرجنسی لگانی پڑی اور آلو،
چاول جیسی ضروری اشیا کی تقسیم کی ذمہ داری فوج کے ہاتھوں میں دے دی گئی۔
یہ سچ ہے کہ کووڈ کے سبب سری لنکا کی معاشی خوشحالی کے اہم محرک سیاحت کو
بڑا نقصان ہوا تھا ۔ اپریل 2021 ء میں سرکار نے زراعت کو کیمیائی کھاد اور
جراثیم کش ادویات سے آزاد کرکے صدفیصد آرگینک کاشتکاری کرنا طے کیا، اس طرح
بغیر کیمیا کے ہر دانہ اگانے والا پہلا ملک بننے کی چاہت میں سری لنکا نے
جراثیم کش کھاد اور زرعی کیمیا کی درآمدات اور استعمال پر پوری طرح پابندی
لگادی۔ دہائیوں سے کیمیا کی عادی ہوگئی زمین بھی اتنی فوری تبدیلی کے لیے
تیار نہیں تھی پھر جراثیم کش کھاد کی بین الاقوامی لابی کو ہوئے اتنے بڑے
نقصان پر انہیں بھی کچھ خرافات تو کرنا ہی تھا، بہرحال سری لنکا کے موجودہ
حالات کے مدنظر ساری دنیا میں زرعی پیداوار کے بڑے ممالک کے لیے یہ انتباہ
بھی ہے اور سبق بھی کہ اگر تبدیلی لانی ہے تو بلاتاخیر ایک ساتھ کرنے پر
فوری طور پر مخالف نتائج کے لیے بھی تیار ہونا پڑے گا۔سری لنکا کی مجموعی
گھریلو پیداوار یعنی جی ڈی پی میں کھیتی- کزرعی شراکت 8.36فیصد ہے اور ملک
کے مجموعی روزگار میں کسانوں کا حصہ 23.73فیصد ہے۔ اس ہرے بھرے ملک میں
چائے کی پیداوار کے ذریعہ بڑی مقدار میں غیرملکی کرنسی آتی ہے، یہاں ہرسال
278.49 میٹرک کلوگرام چائے پیدا ہوتی ہے جس میں کئی قسم دنیا کی سب سے
مہنگی چائے کی ہے۔ کھیتی میں کیمیا کے استعمال کی مار چائے کے باغات کے
علاوہ کالی مرچ جیسے مصالحہ کے باغات پر بھی اثر پڑا ہے۔ اس ملک میں چاول
کے ساتھ ساتھ ڈھیر ساری پھل سبزی اگائی جاتی ہے۔ سری لنکا سرکار کی سوچ ہے
کہ بھلے ہی کیمیا والی کاشتکاری میں کچھ زیادہ فصل ٓاتی ہے لیکن اس کے سبب
ماحولیات کٹاوآبی آلودگی بڑھی ہے اور گرین ہاوس گیس کے اخراج میں اضافہ
ہورہا ہے۔ ملک موسمیاتی تبدیلی کی زد میں ہے اور ملک کو بچانے کا واحد
طریقہ ہے کھاد کو کیمیا سے پوری طرح پاک کرنا۔ حالانکہ ماہرین کا اندازہ ہے
کہ فصلیں ملک کی عام پیداوار کا تقریباً نصف رہ جائیں گی۔دوسری طرف چائے کی
پیداوار پوری طرح سے آرگینک ہوجانے پر ان کی فصل کی 50فیصد کم پیداوار
ہوگئی لیکن اس کی قیمت 50فیصد زیادہ ملنے سے رہی۔سری لنکا کا یہ فیصلہ
ماحولیات، کھانے کی چیزوں کے معیار اور زمین کی صحت کو دھیان میں رکھتے ہیں،
تو بہت اچھا تھا لیکن زمینی حقیقت یہ ہے کہ ملک نے اپنے کسانوں کو آرگینک
زراعت کے لیے بڑے پیمانہ پر ٹریننگ تک نہیں دی، پھر سرکار کے پاس ضروری
مقدار میں آرگینک کھاد بھی فراہم نہیں تھی۔ ایک اندازہ کے مطابق روزانہ
تقریباً 3,500 ٹن آرگینک کچرا پیدا ہوتا ہے۔ اس سے سالانہ بنیاد پر تقریباً
2-3 ملین ٹن کمپوسٹ کی پیداوار کی جاسکتی ہے۔ چائے باغات کے لیے آرگینک
کھاد کی مانگ 30لاکھ ٹن اور ہوسکتی ہے۔ ظاہر ہے کہ کیمیائی سے آرگینک
کاشتکاری میں تبدیلی کے ساتھ ہی سری لنکا کو آرگینک کھادوں اور بایو کھادوں
کی بڑی گھریلو پیداوار کی ضرورت ہے۔ سرکار کی نیت بھلے ہی اچھی تھی لیکن اس
سے کسانوں کے سامنے بھکمری اور کھیت میں کم پیداوار کے ہولناک حالات پیدا
ہوگئے۔
اس بیچ بین الاقوامی کھاد جراثیم کش لابی بھی سرگرم ہوگئی اور دنیا کو بتا
رہی ہے کہ سری لنکا جیسا تجربہ کرنے پر کتنے بحران آئیں گے۔ ہوور انسٹی
ٹیوشن کے ہینری ملر کہتے ہیں کہ آرگینک کاشتکاری کا نقصان دہ اثر کم پیدوار
ہے، جو پانی اور کھیت کی بربادی کا سبب بنتا ہے۔ پلانٹ پیتھالوجسٹ اسٹیون
سیویج کے ایک سروے کے مطابق آرگینک کھیتی کی ماحولیاتی لاگت اور خطرناک
اثرات کا اپنا حصہ ہے۔ ’’پورے امریکہ میں ا?رگینک کھیتی کے لیے 109 ملین سے
زیادہ ایکڑ اراضی کی کھیتی کی ضرورت ہوگی- جو ملک کی موجودہ شہری اراضی سے
1.8گنا زیادہ ہے۔‘‘ ایک بات اور کہی جارہی ہے کہ آرگینک کھیتی کے سبب کسان
کو سال میں 3تو کیا 2فصل ملنا بھی مشکل ہوگا کیونکہ اس طرح کی فصل وقت لے
کر پکتی ہے جس سے پیداواری وقفہ میں اور اضافہ ہوسکتا ہے۔ پیداوار کم ہونے
پر غریب لوگ بڑھتی قیمت کی زد میں ا?ئیں گے لیکن یہ بھی تلخ حقیقت ہے کہ
اندھادھند کیمیا کے استعمال سے تیار فصلوں کے سبب ہر سال کوئی 25لاکھ لوگ
ساری دنیا میں کینسر، پھیپھڑوں کی بیماری وغیرہ سے مرجاتے ہیں۔ اکیلے
جراثیم کش کے استعمال سے خودکشی کرنے والوں کی تعداد سالانہ 3لاکھ ہے۔ اس
طرح کی پیداوار کے کھانے سے عام لوگوں کی قوت مدافعت کم ہونے، بیماری کا
شکار ہونے اور بے وقت موت سے نہ جانے کتنا خرچ عام لوگوں پر پڑتا ہے، ساتھ
ہی اس سے انسان کے محنت ومزدوری کے کام کے ایام بھی متاثر ہوتے ہیں۔درحقیقت
دوسری عالمی جنگ کے بعد بڑھتی آبادی کی خوردنی ضروریات کی تکمیل کے لیے
ساری دنیا میں ’سبز انقلاب‘ شروع کیا گیاتھا۔ 1960ء کی دہائی تک روایتی
ایشیائی کھیتی کے طریقوں کو ایک ترقیاتی سائنٹفک زرعی نظام میں تبدیل
کردیاتھا۔ اعلیٰ پیدوار دینے والے ہائی برڈ بیجوں کو پیش کیاگیا تھا لیکن
وہ زرعی کیمیا پر زیادہ منحصر تھے جس کے نتیجہ میں لوگوں، جانوروں اور
ماحولیات کے لیے خطرہ پیدا ہوگیا تھا۔ یہ کیسا المیہ ہے کہ ساری دنیا کیمیا
اور جراثیم کش سے اگائی فصل کے انسان کے جسم اور پورے ماحولیات پر دور رس
نقصان سے واقف ہے۔ لیکن عالمی سطح پر محض ایک فیصد کھیتوں میں ہی پوری طرح
آرگینک کاشتکاری ہورہی ہے۔ اگر آرگینک اور روایتی طریقوں کا سلیقے سے
ایڈجسٹمنٹ کیا جائے تو فصل کی پیداوار کو آسانی سے بڑھایا جاسکتا ہے۔سری
لنکا کی نئی پالیسی سے پہلے خوردنی -ایمرجنسی جیسی صورتحال پیدا ہوئی۔ اس
کے بعد کیمیائی کھادوں کے استعمال سے متعلق فیصلے کو پلٹ دیاگیا۔ لیکن تب
تک بہت دیر ہوگئی تھی اور ایک بھیانک خوردنی بحران دستک دینے کی تیاری
کرچکا تھا۔ اس کا ہی نتیجہ ہے کہ آج سری لنکا مالیاتی وکھاد بحران اس کی
معیشت پوری طرح تباہ ہوگئی ۔ سری لنکا کی سب سے بڑی غلطی یہ رہی کہ بیرون
ملک سے قرض لے کر ترقی کی دمکتی تصویر دکھائی پھر سود اتنا ہوگیا کہ ملک
دیوالیہ ہوگیا۔ چنانچہ موسمیاتی تغیرات کے حوالے سے ساری دنیا کو سنجیدگی
سے سوچنا ہوگا۔
|