مفتی محمد امین قادری مرحوم فرمایا کرتے تھے"محمد متین
خالد عصر حاضر کے پروفیسر محمد الیاس برنی ہیں۔"مفتی صاحب کا یہ جملہ قطعاً
مبالغہ آرائی پر مبنی نہیں۔متین خالد واقعی عصر حاضر کے پروفیسر الیاس برنی
ہیں۔19 اپریل 1890 ءکو ضلع بلند شہر،یوپی بھارت کی تحصیل خورجہ میں پیدا
ہونے والے پروفیسر الیاس برنی تحریک ختم نبوت کے پہلے قلمی مجاہد تھے۔وہ
اُن قابل قدر سپوتوں میں سے تھے جن پر کوئی قوم بجا طور پر فخر کرسکتی
ہے۔آپ خاتم النبیین ﷺ کی ذات مبارکہ سے والہانہ عشق و محبت رکھتے
تھے۔منکرین ختم نبوت سے اظہار نفرت اور اُن کا محاسبہ الیاس برنی کی زندگی
کا مقصد اوّل تھا۔شاہ بلیغ الدین کے مطابق" پروفیسر محمد الیاس برنی نے
قادیانیت کے خلاف تنہابہت بڑا جہاد کیا اور قادیانیت کے خلاف سب سے پہلے
جامع کتابیں لکھیں۔"
عصر حاضر میں پروفیسر الیاس برنی کے نقش قدم پر چلتے ہوئے محمد متین خالد
نے بھی دشمنان اسلام ، انگریزی گماشتے اور جھوٹے مدعی نبوت مرزا غلام احمد
قادیانی کے مکروفریب کوبے نقاب کرنے اور اُس کی ذریعة البغایا کے محاسبے کو
اپنی زندگی کا مشن بنایا۔محمد متین خالد 5،اکتوبر 1960 کو بمقام پپلاں ضلع
میانوالی میں پیدا ہوئے،آپ کے والد غلام محمد صاحب پاک آرمی میں تھے۔انہوں
نے 1965 اور 1971 کی پاک بھارت جنگ میں مجاہدانہ کردار ادا کیا۔1973 میں
متین خالد ابھی ساتویں جماعت کے طالبعلم تھے کہ والد محترم کا سایہ سر سے
اُٹھ گیا۔1993 میں عقیدہ ختم نبوت اور فتنہ قادیانیت کی سر کوبی کے محاذ پر
سب سے زیادہ حوصلہ افزائی اور جرات عطا کرنے والی والدہ محترمہ بھی انہیں
داغ مفارقت دے گئیں ۔
محمد متین خالد نے 1981میں پنجاب یونیورسٹی میں ایل،ایل،بی میں داخلہ
لیا،لاء کالج میں آپ کو جناب محمد اقبال موکل،پروفیسر ڈاکٹر طاہر القادری
اور جسٹس میاں نذیر اختر جیسے قابل قدر اساتذہ کی صحبت سے فیضیاب ہونے کا
موقع ملا۔1985 میں متین خالدنے پنجاب یونیورسٹی سے پرائیویٹ اسلامیات میں
ایم،اے کیا۔آپ ضیائے اُمت مفسر قرآن حضرت جسٹس پیر کرم شاہ الازھری سے بیعت
ہیں اور حضرت عبدالحفیظ شاہ صاحب(گجو سندھ) کی شخصیت سے بہت متاثر ہیں۔متین
خالد اعلیٰ حضرت امام احمد رضا فاضل بریلوی اور قائد ملت اسلامیہ حضرت
علامہ شاہ احمد نورانی صدیقی سمیت اُن تمام علماء و مشائخ اور بزرگان دین
سے محبت و عقیدت رکھتے ہیں جن کی زندگی کا مقصد تحفظ ختم نبوت و ناموس
رسالت ﷺہے۔ قادیانیوں کا دلیل کے ساتھ رد اور مناظرہ محمد متین خالد کا
پسندیدہ مشغلہ ہے۔
محمدمتین خالدنے زندگی کا بیشتر حصہ ننکانہ میں گزارا،مگرآج کل داتا کی
نگری لاہور آپ کا مستقل ٹھکانہ ہے۔ملازمت سے عملی زندگی کا آغاز کرنے والے
متین خالد کی زندگی 1983 تک ایک سیدھے سادھے عام مسلمان کی طرح تھی۔کوئی
نہیں جانتا تھا کہ آنے والے وقت میں رد ّقادیانیت اور تحفظ ختم نبوت ﷺ کے
حوالے سے محمدمتین خالد کا نام ایک سند اور ایک مستند حوالہ قرار پائے
گا۔مگر مشیعت ایزدی محمد متین خالد کو اُن چنیدہ افراد میں شامل کرچکی تھی
جن کے ماتھے دفاع ختم نبوت کا اعزازلکھا جاچکا ہے۔کہتے ہیں رحمت حق بہانہ
می جوید۔1983 کا سال محمد متین خالد کی زندگی میں اُس وقت تبدیلی کا سال
ثابت ہوا۔دوسال آپ نے مطالعہ،تحقیق اور جستجو میں گزارے اور 1985 میں اپنی
والدہ،بھائی،اہل خانہ اور کچھ مخلص دوستوں کے تعاون سے قادیانیت کے خلاف
عملی جدوجہد میں حصہ لینے کا فیصلہ کرتے ہوئے ننکانہ کو اپنی سرگرمیوں کا
مرکز بنایا۔آپ نے قادیانیت کے خلاف عوامی شعور کی بیداری اور اپنے مذہب و
عقیدے کی پختگی کیلئے انٹرنیشنل گولڈ میڈل تحریری مقالے اور کوئز پروگرامات
کا بھی انعقاد کیا اور یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے ۔
"عقیدہ ختم نبوت اور فتنہ قادیانیت،قادیانی عقائد،قادیانیوں سے متعلق
عدالتی فیصلے،قادیانیت سے متعلق آئین و قانون کیا کہتا ہے،احمدی دوستو
!تمہیں اسلام بلاتا ہے،مرزا قادیانی کی علمی حیثیت،حضرت مہر علی شاہ گولڑوی
اور فتنہ قادیانیت پاکستان کے خلاف قادیانی سازشیں،پارلیمنٹ میں قادیانی
شکست،قادیانیت انگریز کا خود کاشتہ پودا،شہیدانِ ناموس رسالت،ناموس ِرسالت
کے خلاف امریکی سازشیں،اف یہ پادری،حقوق انسانی کی آڑ میں،علامہ اقبال اور
فتنہ قادیانیت اور اسلام کا سفیر جیسی 50 سے زائد معرکة الآراءکتابیں آپ کے
قلم سے نکل کر دنیا بھر میں آپ کی پہچان و شناخت بن چکے ہیں،جبکہ
ردّقادیانیت پر 32 سے زائد کتابچے اِس کے علاوہ ہیں۔
محترم محمد متین خالد صاحب کا شمار ایسے خوش نصیبوں میں ہوتا ہے جنھوں نے
فتنہ قادیانیت کے خلاف گراں قدر اور ناقابل فراموش خدمات انجام دیں۔انہوں
نے اپنی تخلیقی اور تحقیقی صلاحیتوں کے سبب تحفظ ختم نبوت کی تصنفی بنیادوں
کو بے حد مضبوط کیا ہے۔ ان کی تمام کتب اپنی ایک الگ پہچان اور اہمیت رکھتی
ہیں۔ ایسی کتا بیں بزعم نہیں بلکہ بزور عشق لکھی جاتی ہیں ۔ اس سلسلہ میں
ان کی ایک شہرہ آفاق کتب بطور مثال پیش کی جاسکتی ہے۔
زیر نظر کتاب "فتنہ قادیانیت کے خلاف عدالتی فیصلے " ان کی کئی سال پہلے
طبع ہونے والی تالیف ہے جسے اب نئے اضافوں کے ساتھ شائع کیا گیا ہے ۔ یہ
ایک مابہ الامتیاز کارنامہ ہے جسے فرد واحد نے بڑی عرق ریزی اورمحنت شاقہ
کے بعد باب تکمیل کو پہنچایا ہے۔
"فتنہ قادیانیت کے خلاف عدالتی فیصلے " جلداول و دوم میں مجموی طور پر ہیں
(20) فیصلے ہیں جن میں سپریم کورٹ آف پاکستان کے تین، وفاقی شرعی عدالت کے
تین اور مختلف ہائی کورٹس کے چودہ فیصلے شال ہیں۔ ہر فیصلہ اپنی جگہ بڑی
اہمیت و افادیت کا حامل ہے۔ فیصلوں کی حسین ترتیب اور تین تزئین وتہذیب نے
کتاب کو چار چاند لگا دیئے ہیں۔ ان تاریخی فیصلوں نے پاکستان میں فتنہ
قادیانیت کو آئین و قانون کے شکنجے میں جکڑ دیا ہے۔ یوں یہ کتاب ناصرف ہر
حلقے میں بطور استدلال پیش کیے جانے کے قابل ہے بلکہ اس موضوع پر بڑی بڑی
مطول کتابوں سے بے نیاز کرنے کے لیے بھی کافی ہے۔ کسی دانشور نے کہا تھا کہ
دلیل کی تلوار لوہے کی تلوار سے زیادہ کارگر ہے۔ ہم دلائل کی بات کرتے ہیں
اور قادیانی تاویل کی۔ دلیل معاملہ سلجھاتی ہے جبکہ تاویل الجھاتی ہے۔
قادیانی اپنی لایعنی تاویلات و مغالطات سے اپنے انجام کو چکے ہیں جبکہ ہم
آج روز روشن دلائل و براہین کے ساتھ زندہ ہیں۔ کارکنان تحفظ ختم نبوت اور
قانون سے دلچسپی رکھنے والوں کے لیے یہ کتاب معلومات کا خزانہ ہے۔ خطبا و
ادبا سے گزارش ہے کہ وہ ان فیصلوں کے خاص اقتباسات یاد کر کے انہیں اپنی
تقریر و تحریر کا لازمی حصہ بنائیں۔ اتنے جامع، اہم مستند اور وقیع فیصلوں
کی جمع آوری پر جناب متین خالد صاحب کو دلی مبارک باد پیش کرتا ہوں۔
اور اس کے گرانقدر تحفہ پر دل سے شکر گزار ہوں۔اللہ کریم برادم محمد متین
خالد صاحب کے علم عمر اور عمل میں برکتیں عطا فرمائے اور انہیں ہمیشہ اپنی
پناہ وامان اور آسانیوں و فراوانیوں میں رکھے ۔آمین بحرمۃ سید المرسلٰین
خاتم النبیین ﷺ
محمداحمد ترازی
مورخہ 30 جولائی 2022ء کراچی
|