سرورق کی لڑکی کی تلاش

میں نہ جانے کیوں عرصہ دراز سے سرورق کی لڑکی کی تلاش میں ہوں -
ایک تصویر نظر آئی تو پتہ چلا کہ بلوچستان کے سنگلاخ پہاڑوں سے پہلے جیکب آ باد کے ریگزاروں سے پرے ایک گاؤں کے قریب کسی کنوئیں کے کنارے کار وکاری کی نظر ہو گئی ہے ۔۔۔۔ طویل مسافت کے بعد وہاں پہنچا تو وہاں کے باسیوں نے کہا کہ یہ تو ہمارا دستور ہے ۔۔ یہ ہماری ریت ہے ۔۔ تم کون ہوتے ہو پوچھنے والے اور میں سر جھکا کر لوٹ آیا ۔۔ تصویر پوچھتی ہی رہ گئی کہ کہ تم تو میری تلاش میں نکلے تھے ۔ کہاں واپس جارہے ہو لیکن میں خاموش رہا کہ یہ بھی اس معاشرے کا چلن ہے کہ عام آدمی خاموش ہی رہتا ہے

سرورق کی ایک لڑکی وہ بھی تھی جو 1971 میں مشرقی پاکستان میں قتل ہو گئی تھی ۔۔۔ کسی نے کہا بنگالی ہے ۔۔ ۔۔۔ کسی نے آواز لگائی پاکستانی ہے ۔۔۔ درخت کی مغربی شاخ کو پکڑے افراد نے کہا ’’ صحیح کیا ۔۔۔ قتل کردیا ۔۔یہ ہماری معشیت پر بوجھ تھی ۔۔ الگ گھر بسانا چاہتی تھی ‘‘ ۔۔ ۔۔ دوسرے فرد نے جو مشرقی دروازے کا پٹ تھامے کھڑا تھا کہا ’’ یہ زبردستی یہاں داخل ہو گئی تھی ۔۔ ہمارے دیش کی کی معیشت کی دیمک تھی اور ہمارے دیش کو کھوکھلا کر رہی تھی ۔۔ ہمارے دھن سے اپنے دور واقع گھر کو بنا رہی تھی ۔۔۔ درست کیا ہمارے دیش کے لوگوں نے اسے مار دیا ‘‘ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور وہ لاش زمین پر جھاڑیوں کے بیچ پڑی نوحہ خواں تھی ۔۔۔ ’’اے لوگو سنو ، میں نہ مشرقی ہوں نہ مغربی ۔۔۔۔ میں محض ایک لڑکی ہوں ۔۔ جس کی حرمت ‘ عصمت اور عزت کے تم سب ذمے دار ہو ۔۔۔۔ یوں سرورق کی یہ لڑکی بھی نہ مل سکی البتہ اس کی شکوہ کرتی ہوئی بے نور آنکھیں ملیں ۔

پھر میں اس سر ورق کی لڑکی کی تلاش میں ایک عجب سے بازار میں پہنچ گیا ۔۔ ۔۔ جہاں یہ ثناءخواں تقد یس مشرق زندہ تو تھی لیکن مردوں میں شمار ہوتی تھی ۔۔ اس کے جذ بات تھے نہ احساسات ۔۔۔ ایک مشین کی طرح ۔۔۔۔۔۔ ایک روبوٹ کی مانند ۔۔۔۔ لوگوں کے اشاروں پر چلنے والی ۔۔۔ زندہ ہوتے ہوئے بھی مردہ ۔۔۔ میں یہاں سے بھی مایوس ہو کر چلا آیا - حالانکہ مجھے وہاں ساحر لدھیانوی کی فریاد بھی سنائی دے رہی تھی ’’یہ عصمت کے سودے ۔۔۔۔ یہ سودوں پہ تکرار ۔۔۔ ثنا خوان تقدیس مشرق کہاں ہیں ۔۔؟؟

پھر اسے ڈھونڈنے کے دوران میں ایک قبرستان جا نکلا ۔۔ ۔۔۔ یہاں وہ مردہ تھی لیکن کسی شقی القلب نے اسے مردہ ہوتے ہوئے بھی زندہ کے طور پر لیا اور قبر سے نکال کر بے حرمتی کی ۔۔ مجھ پر خوف سے لرزہ سا طاری ہو گیا ۔۔ جانے مجرم کو ہوا تھا یا نہیں ؟

یہ تو میری تلاش تھی جس کا میں نے اوپر تذکرہ کیا ہے ۔۔ لیکن اب اس سرورق کی لڑکی کی بابت بات کر لی جائے جس کے بارے میں اخبار میں پڑھا تھا ۔۔ یہ سال 2009 کے اواخر کی بات ہے ۔۔ اخبار کے مطابق کالم نویس اور ادیب ظفر محی الدین کے افسانوں کے مجموعے ’’ سرورق کی لڑکی‘‘ کی رونمائی کی تقریب صادقین لان میں ہو رہی ہے۔۔ میں بھی اس تقریب میں شرکت کے لئے چلا گیا ۔۔ کتاب میں کئی افسانے ہیں ایک سے بڑھ کر ایک ۔۔ افسانہ "سر ورق کی لڑکی "ا یک مرد کی ذہنی کشمکش کی کہانی ہے جسے مصنف نے نہایت خوبصورتی سے قلم بند کیا ہے ۔۔ مرد ایک طرف اپنی محبوبہ کو پسند بھی کرتا ہے تو دوسری جانب اس کی چند عادتوں سے نالاں بھی ہے ۔۔ ان کے خیالات ایک دوسرے سے جدا ہیں لیکن ایک دوسرے کو چاہتے بھی ہیں ۔۔ جیسا کہ افسانے کا ہیرو آخر میں کہتا ہے ’’ ہمارے درمیان فاصلے بھی تھے ۔۔ یہ فاصلے اٹل تھے ۔۔ وہ ہمیشہ سرورق کی لڑکی کی طرح رہنا چاہتی تھی اور میں صفحہ آخر پر اپنے ذکر کا منتظر ۔۔ ہم ہمیشہ ریل کی دو پٹریوں کی طرح رہیں گے ‘‘

بات کہیں سے کہیں نکل گئی ۔۔ بات ہو رہی تھی رونمائی کی تقریب کی ۔۔ اس تقریب کی صدارت کر رہے تھے پروفیسر علی حیدر صاحب ۔۔ مقررین میں جناب دوست محمد فیضی مرحوم ‘ شہناز پروین صاحبہ ‘ صحافی شفیق احمد ‘ابوبکر شیخانی اور دیگر شعراء شامل تھے ۔۔ ابو بکر شیخانی صاحب نے کہا کہ جو لوگ ادب کی خدمت کر رہے ہیں اور لکھ رہے ہیں قابل صد احترام ہیں ۔۔ میری نشست کے ساتھ بیٹھے ہوئے صاحب نے مجھ سے کہا کہ جو رسائل ‘ جرائد ‘اخبارات اور الیکٹرانک میڈیا ان لکھنے والوں کی خدمت کر رہے ہیں وہ بھی لائق احترام ہیں ۔۔ میں نے تائید میں سر ہلادیا ۔۔ اسٹیج سیکرٹری نے پاکستانی علم و ادب کی تاریخ کا جائزہ لیتے ہوئے پاکستان کے پرنٹ میڈیا کا خصوصی شکریہ ادا کیا کہ یہاں کا پرنٹ میڈیا ہمیشہ سے علم و ادب کی رہنمائی کرتا رہا ہے ۔۔

۔اس زمانے میں الیکٹرانک میڈیا سے مراد تقریباً ٹی وی ہی لیا جاتا تھا ۔۔ اس وقت تک الیکٹرانک سوشل میڈ یا کا ابھی اتنا بول بالا نہیں ہوا تھا ورنہ اس کا بھی ضرور تذکرہ ہوتا ۔ ابھی یو ٹیوب ‘ فیس بک یا دوسرے سوشل میڈیا سے لوگوں کی آگاہی کم تھی ۔ ویب میگزینز کا بھی اتنا چرچا نہیں تھا اس لئے ان سب کی طاقت کا لوگوں کو زیادہ اندازہ نہیں ہوا تھا ورنہ مقررین ان جدید میڈیا کے اندر فن اور قلم کا مظاہرہ کر نے والوں کی بھی ضرور تعریف کرتے ۔۔ آج یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ قلمکاروں کی جتنی بڑی یکجائی آن لائن میڈیا میں ہے وہ پرنٹ میڈیا یا صحافت میں نہیں ہے نہ ہی اس میں اتنی گنجائش ہے کہ اتنی بڑی یکجا ہی کر سکے --

دوست محمد فیضی مرحوم کا تقریر کرنے کا ہمیشہ سے ایک جدا گانہ انداز ہی رہتا تھا ۔۔ اسی انداز میں وہ ادیبوں کو انکے فرائض بھی یاد دلا رہے تھے اور سامعین کو سوچنے کے لئے سوالات بھی دے رہے تھے ۔۔ جمیل الدین عالی کا حوالہ دے کر انہوں نے کہا ادب زیادہ تو اچھا وہی ہے جو بروقت شائع ہو جائے لیکن صداقت کی بنیاد قائم ادب آکر ہی رہتا ہے ۔
افسانوں کے مجموعے ’ سرورق کی لڑکی ‘ کے بارے میں بات کرتے ہوئے اسٹیج سیکرٹری نے کہا ہمارے یہاں ادیبوں نے انسان کے اس پہلو کو جو مظلومیت کی عکاسی کرتا ہو زیادہ اجاگر کیا ہے جب کہ ’سر ورق کی لڑکی ‘ کے مصنف نے ایک دوسرے زاویئے سے جائزہ لیا ہے اور انسان کی عظمت اور عرفان کے پہلو کو دیکھا ہے اور انسانی وقعت اور قدر کو بلند کیا ہے ۔۔ انسان کو حوصلہ دیا ہے ۔۔
تقریب کے بعد طعام کا انتظام کیا گیا تھا ۔۔ طعام کے دوران انسان کے اس پہلو کو کافی لوگوں نے اپنی گفتگو کا مرکز بنایا اور سب کا یہ کہنا تھا کہ آج کے پر آشوب نفسا نفسی کے دور میں انسان کی قدر و منزلت اونچا کرنے کی اشد ضرورت ہے ۔۔ انسانی جان کی اہمیت پر مکالمے ہونے چاہیئں ۔۔ ہر فرد ملت کے مقدر کا ستارہ ہے اور اپنی جگہ اہم ہے ۔۔
Munir  Bin Bashir
About the Author: Munir Bin Bashir Read More Articles by Munir Bin Bashir: 124 Articles with 354859 views B.Sc. Mechanical Engineering (UET Lahore).. View More