لائٹ ہاؤس سے پرانے فراک لا کر ان کے کف لنکس بناتا، ایک ایسا گھرانہ جس کے دس کے دس بچوں نے ایک تاریخ رقم کی

image
 
نوے کی دہائی سے تعلق رکھنے والے بچے جو اب ادھیڑ عمری میں داخل ہو چکے ہیں ان کے لیے انور مقصود کا اور فاطمہ ثریا بجیا کا نام کسی تعارف کا محتاج نہ ہوگا- یہاں تک کہ عام گھریلو خواتین بھی دنیا کے معاملات سے نا بلد ہونے کے باوجود زبیدہ آپا کے ٹوٹکوں سے نہ صرف واقف ہوں گی بلکہ ان کا استعمال بھی گھر میں باقاعدگی سے کرتی ہوں گی-
 
انور مقصود کے گھرانے کا ماضی
انور مقصود کے گھرانے کا تعلق ہندوستان کے علاقے بدایوں سے تھا ان کے نانا جو کہ ایک نواب تھے ان کا نام نثار یار جنگ تھا- ان کا تعلق علی گڑھ سے تھا ۔جو علی گڑھ سے حیدرآباد آکر آباد ہو گئے اور قیام پاکستان کے بعد ہجرت کر کے 1948 میں پورے خاندان کے ساتھ پاکستان کے شہر کراچی آگئے-
 
نانا کا گھر پہلی تربیت گاہ
انور مقصود کے گھرانے کے لیے ان کے نانا کا گھر سب سے پہلی تربیت گاہ ثابت ہوا کیوں کہ ان کے نانا اول تعلقہ دار تھے یعنی ان کو دکن کی تحصیل کی تمام انتظامی ذمہ داری حاصل تھی وہ ایک شاعر بھی تھے اور داغ دہلوی کے شاگرد تھے- یہی وجہ تھی کہ ان کے گھر میں مولانا مودودی ، مولوی عبداالحق جگر مرادآبادی اور فنا بدایونی جیسے بڑے ناموں کا باقاعدگی سے آنا جانا تھا-
 
ان کے نانا کی اپنی کلیات 'کیفیات' کے نام سے بھی شائع ہوئی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے گھرانے میں ادب سے لگاؤ ایک فطری امر تھا جس کی تربیت ان کو اپنے بچپن سے ہی بہت بڑے ناموں کی صحبت کے سبب حاصل ہوئی-
 
دکن کے گھر سے ہجرت اور پاکستان آمد
اپنا دکن کا گھر ملازموں کے حوالے کر کے یہ گھرانہ قائد اعظم کے چہلم سے ایک دن پہلے کراچی پہنچا اور حکومت نے ان کو رہائش کے لیے خالی مکان دینے کی درخواست کی- مگر ان کے ضمیر نے یہ گوارہ نہ کیا کہ وہ کسی اور کے گزر پر قبضہ اختیار کریں بلکہ اس کی جگہ پر ایک خالی زمین پر خیمہ لگا کر رہائش اختیار کر لی جو ان کی خوداری اور اصولوں پر کاربند رہنے کی ایک مثال تھی-
 
image
 
پیر الہی بخش کالونی میں رہائش
ہجرت کے ڈيڑھ سال بعد پیر الہی بخش کے ایک ایسے مکان میں رہائش اختیار کی جس کی نہ تو چھت تھی اور نہ ہی اس مکان میں کوئی دروازہ یا کھڑکی تھی- انور مقصود کے دس بہن بھائيوں کے ساتھ ان کے نانا نے بھی اس مکان میں زندگی کے آٹھ سال اس حال میں گزارے کے اس مکان میں پانی، بجلی یا گیس کی کوئی سہولت میسر نہ تھی-
 
بہن بھائيوں میں باہمی مثالی محبت کا سبب
اس حوالے سے فاطمہ ثریا بجیا اور انور مقصود کا یہ کہنا تھا کہ ہم بہن بھائيوں کے درمیان سب سے بڑی مثالی محبت کی وجہ یہ تھی کہ ہمارے والدین نے ہمارے لیے جائيداد نہیں چھوڑی بلکہ اس کی جگہ انہوں نے ہمارے لیے ورثہ میں کتابیں چھوڑیں- جس نے ہمارے درمیان کی باہمی محبت کو اور بھی مضبوط کر دیا-
 
کم عمری میں ہی بڑے کام
اس گھرانے کی پرورش جس ادبی اور خوداری کے ماحول میں ہوئی اس نے ان کو ذہنی طور پر وقت سے پہلے ہی میچور کر دیا- یہی وجہ تھی کہ فاطمہ ثریا بجیا نے صرف بارہ سال کی عمر میں ہی پہلا ناول تحریر کر ڈالا-
 
دوسری جانب معروف شاعرہ زہرہ نگاہ نے بھی بارہ سال کی عمر میں ہی پہلا شعر کہا اور انور مقصود جو کہ پینٹنگ سے لگاؤ رکھتے تھے انہوں نے بھی اسی عمر میں اپنی پہلی پینٹنگ بنائی-
 
image
 
انور مقصود گھر کی دیواروں پر کوئلے سے گھر کے افراد ماں نانا اور دوسرے بہن بھائيوں کے اسکیچ بنایا کرتے تھے ان کے اس شوق کو دیکھ کر ان کے بڑے بھائی نے اپنی بچت سے سب سے پہلے ان کو پینٹ لا کر دیے-
 
پہلی ہی نمائش اور سب تصاویر فروخت
انور مقصود کی پینٹنگ کی پہلی نمائش ان کی بہت ہی کم عمری میں 1958 میں ہوئی اور اس کے معیار کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ان کی تمام تصاویر پاکستانی سفارتکار جمشید مارکر نے خرید لیں-
 
غربت کے ساتھ جنگ
انور مقصود کا یہ بھی کہنا ہے کہ اس وقت میں جب گھر شدید غربت کا شکار تھا تو تمام بہن بھائی اپنے طور پر اس کا مقابلہ کرتے تھے یہاں تک کہ 1959 سے 1960 تک انور مقصود اپنے اخراجات کی تکمیل کے لیے لائٹ ہاوس سے پرانے فراک لے کر آتے تھے اور ان کے بٹن اتار کر ان کے کف لنکس اور ٹائیاں بنا کر فروخت کیا کرتے تھے اور اپنے اخراجات پورے کرتے تھے-
 
ماں کے کھانا پکانے کے ہنر کا فائدہ
اسی گھرانے کا ایک اور بڑا نام زبیدہ طارق کا بھی تھا جنہوں نے اپنی ماں سے سیکھے گئے کھانے اور ٹوٹکے پاکستان کی تمام خواتین کو سکھا کر بڑا نام پیدا کیا- ماں سے کھانا بنانے کا ہنر انور مقصود نے بھی سیکھا اور آج بھی اپنے لیے کھانا وہ خود ہی گھر پر پکاتے ہیں- یہاں تک کہ اکثر اپنے ملازمین کے لیے بھی وہ کھانا بناتے ہیں-
 
آج بھی سب سے بڑا سرمایہ
آج بھی اس علمی اور ادبی گھرانے کا سب سے بڑا سرمایہ ان کی کتابیں ہیں اور ان کے دس کے دس بہن بھائيوں میں سے زہرہ نگاہ معروف شاعرہ ، انور مقصود مصنف پینٹر، فاطمہ ثریا بجیا معروف ڈرامہ نگار اور زبیدہ طارق معروف کک کے طور پر جانے جاتے ہیں- ان کے باقی بہن بھائی بھی مختلف شعبوں میں کامیاب رہے اس خاندان کی کتابوں سے محبت کی دلیل یہ ہے کہ صرف انور مقصود کے پاس اس وقت بھی آٹھ ہزار کتابیں ان کی ذاتی لائبریری میں موجود ہیں-
YOU MAY ALSO LIKE: